سردار نے رمضان سے پوچھا ؛ہاں رمضو پتا چل سکا کہ اس دن
کالی سے ملنے جو شخص آیا تھا وہ کون تھا ؟ ۔۔۔وہ سائیں کالی نے جھوٹ بولا
تھا کہ وہ شخص رحیم خان سے ملنے آیا تھا ایسا نہیں تھا ۔۔۔رحیم سے ہم نے
اپنے ہر طریقوں سے پوچھ لیا ہے لیکن وہ کہتا ہے کہ مجھ سے نہ تو کوئی ملنے
آیا تھا اور نہ ہی میں اس طرح کے کسی حلیے والے بندے کو جانتا ہوں ۔۔۔کالی
سے بہت پوچھا گیا تھا۔۔۔میں نے تو اس کو مارا بھی بہت تھا لیکن وہ بڑی ڈھیٹ
تھی میں نے اس پر ہر طرح کا طریقہ آزمایا یہاں تک بھی کہا اگر وہ بتا دے
تو اس کی زندگی بچ جائے گی اور اس کو صرف سردار کے حوالے کردیا جائے گا
لیکن وہ اپنے آشنا سے اس قدر محبت کرتی تھی کہ اسے بچانے کے لئے اس نے
قرآن سر پر رکھ کر کہا کہ وہ پاک ہے اور اس شخص کو نہیں جانتی۔۔۔ادھر اس
کا مجنوں شوہر اس پر ہاتھ اٹھانے نہیں دیتا تھا ۔۔مجبورا اس کو مارنے سے
پہلے میں اس کے منہ پر کپڑا باندھ کر اس کے جسم پر مارتا گیا تھا اور
پوچھتا تھا کہ بتاؤ وہ شخص کون تھا لیکن میں نے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے
پھر بھی وہ نہ مانی ۔۔۔بس ۔۔۔۔رمضو نے بات ختم کرتے ہوئے کہا۔۔۔وہ تو سب
ٹھیک ہے لیکن شرعی مسئلے میں کالی کے ساتھ کالا ہونا بھی ضروری ہے ۔۔اب اس
کے آشنا کا کیا کریں؟ ۔۔۔۔ یا تو کہیں سے پیدا کرو ۔۔۔تم بتاؤ تھانیدار
صاحب کیا کرٖیں۔۔۔تمہارا دماغ تو صحیح شیطانی ہے ۔۔۔ذرا سوچو اور راستہ
نکالو ۔۔۔۔سردار نے مسکراتے ہوئے تھانیدار کی طرف دیکھا جس نے شیطانی دماغ
پر اپنی تعریف محسوس کی اور گویا ہوا ؛ سائیں ! آپ کا حکم سر آنکھوں پر
مگر آج کل کچھ پیسوں کی تنگی کی وجہ سے دماغ کام نہیں کر رہا ۔۔۔سردار نے
کہا ؛کتنی گندم کی بوریوں اور آم کی پیٹیوں سے تمہارا دماغ کام کرے گا
؟۔۔۔تھانیدار نے قدرے جھینپ کر کہا ؛ سائیں آپ نے جو پچھلی دفعہ گندم دی
تھی وہ تو ختم ہوگئی اب پورا سال ہے ۔۔۔دیکھ لیں۔۔۔آگے رمضان کا مہینہ بھی
آرہا ہے اللہ کا شکر ہے سارا گھر روزے رکھتا ہے ۔۔۔پھر عید کے کپڑے لتے
۔۔۔آپ کو تو پتا ہے بچوں کی فرمائیشوں کا ۔۔۔بس آپ کا سایہ سلامت رہے ۔۔۔تھانیدار
نے خوشامدی لہجے میں کہا ۔۔۔۔رمضو ! بالی کے باپ سے بھی اور رستم کے باپ کو
بتا دو اگر بیٹوں کو جیل سے چھڑانا چاہتے ہیں تو جلد سے جلد گندم اور دوسری
چیزوں کا بندوبست کریں ۔۔۔یہ ہوئی نہ بات سائیں سرکار۔۔اب میں ریلیکس ہو
گیا ہوں ۔۔سائیں کوئٖی مسئلہ ہی نہیں ہے کالی کے ٹکڑے کر کے نہر میں بہا
دئیے ہیں نا ! مچھیاں ،شچھلیاں کھا چکی ہونگی اب تک ۔۔۔۔بس گواہ اور مدعی
کوئی نہ ہو گاؤں سے پھر کیس میں جان نہیں ہوگی ویسے بھی غیرت میں کیا گیا
قتل معاف ہوجاتا ہے۔۔بس ہفتہ دو آپ کے غیرتیوں کو جیل میں رکھنا ہو گا ۔ٹھیک
ہے پر یاد رکھنا جیل میں کوئی پریشانی نہ ہو ان کو یہ تو اس خاندان کی عزت
کے رکھوالے ہیں ۔بہادر اور دلیر جگر رکھنے والے ۔سائیں نے مونچھوں کو تاؤ
دیتے ہوئے تھانیدار سے کہا۔۔سائیں فکر نہ کریں گھر کے جیسا ماحول ہوگا
انشااللہ ۔۔سائیں آپ کا ہاتھ سر پر رہے گا تو میرا بھی سر سلامت رہے گا
پھر ظاہر ہے انکا بھی۔۔ اور سائیں آپ کی دوستی تو ایم۔این۔اے کے ساتھ ہے
بس میری پروموشن ہوجائے تو مزے آجائیں گے۔تھانیدار نے خوشا مدی لہجے میں
ہاتھ جوڑ کر سائیں کے وقار کو چار چاند لگائے۔ٹھیک ہے ہوجائے گا تیرا کام ۔بس
میرے بندوں کو کوئی تکلیف نہیں ہونی چاہیے۔۔سائیں نے گردن کو تان کر
کہا۔۔سائیں نے کاکے کی طرف دیکھا ۔کاکا سمجھ گیا اور سائیں کو سنہرے تلے سے
بنا قیمتی اور ہاتھ سے بنا کھسہ پہنانے لگ گیا ۔جب کاکا کھسہ پہنا چکا تو
سائیں نے کاکے کو پیر سے دھکا دیتے ہوئے کہا ہر کام میں سستی! ۔
جیل میں رمضو، رب نواز،اللہ وسایا، رستم اور ایک دو اور جوان تھے ۔ان کی
انٹرٹینمنٹ کے لئیے تاش اور لوڈو کا انتظام کردیا گیا تھا ۔اس کے علاوہ
سائیں نے کھانے اور ان کی پسند کے پینے کا بھی خاص انتظام کر رکھا تھا
۔آخر کو اتنا نیک کام کرنے والوں کے لئیے وہ کیوں نہ انتظام کرتا ۔بھنگ
اور چرس ہی تو تھی جو ان غیرت مندوں کی غیرت کو جگائے رکھتی تھی اور چاہے
ان کو نماز نہیں آتی تھی لیکن وہ اللہ کے اس حکم کہ زانی عورت (چاہے ان پر
شک ہی کیوں نہ ہو )کی دل و جان سے جان نکالیں۔اس کارنامے کے بدلے ان کو نہ
صرف باہر بلکہ جیل میں بھی خاص قسم کا پروٹوکول دیا جاتا۔ جیل میں یوں تو
سب ہی خوش تھے لیکن رستم بہت اداس تھا اسے اپنی بہن بہت یاد آتی تھی لیکن
وہ دوسروں کے سامنے آنسو پہا کر بے غیرت اور بزدل نہیں کہلوانا چاہتا تھا
اس لئیے ان آنسوؤں کو آنکھوں سے بہانے کی بجائے دل پہ بہا دیتا اس طرح
آنکھیں خاموش مگر سرخ رہنے لگ گئیں اور دل پر آنسوؤں کے بہنے سے اس کا
جسم بخار سے تپنے لگ گیا ۔اس طرح اس کی اندرونی کیفیت کو اس کے بخار نے
چھپا دیا تھا۔لیکن رمضو کے ساتھ بہت عجیب ہو رہا تھا وقفے وقفے سے اس کے
کانوں میں آنے والی چیخیں اب بڑھتی جا رہی تھیں مزید یہ کہ یہ آوازیں صرف
اس کو سنائی دیتیں ۔وہ اپنے ساتھیوں سے پوچھتا ٌکیا تم لوگوں کو چیخیں
سنائی دے رہی ہیں ٌ پھر ان کا جواب نفی میں سن کر پریشان ہو جاتا۔
ادھر بالی رونے کی بجائے خاموش ہوگیا تھا ۔گاؤں کے لوگوں کا کہنا تھا کہ
بخار میں اتنے دن جو وہ بے ہوش رہا تھا اور سر پہ لگنے والی چوٹوں نے اس کے
دماغ پر اثر کیا ہے ۔سخی کی دربار پر منت دینے سے ٹھیک ہوگا چنانچہ تقریبا
ہر کوئی اس کی ماں کو مشورہ دے رہا ہوتا کہ فلاں دربار پر جاؤ فلاں پیر
سائیں سے تعویز لاؤ تب ٹھیک ہوجائے گا لیکن اس کی ماں جانتی تھی کہ جو روگ
اسے لگا ہے یہ تو زندگی بھر کا ہے اس کے با وجود وہ قریبی دربار پر جاکر
منت بھی مان آئی اور پیر سائیں سے دم کیا ہوا پانی اور تعویز بھی لے آئی
۔ماں تھی اپنے جگر کے ٹکڑے کو اداس دیکھ کر اس کا سینہ چھلنی ہوجاتا اور
پھر اس کی آنکھوں سے گرنے والے آنسوؤں کا کچھ پتا نہ چلتا کہ وہ پینو کے
قتل کے ہیں یا بالی کے اجڑنے کے۔
پینو کی ماں کی ہنوز وہی حالت تھی ۔بال بکھرے ہوئے ۔سر پر خاک ڈلی
ہوئی۔کپڑوں کا کوئی ہوش نہیں تھا بس اپنے گھر سے جاتی اور مسجد کے دروازے
پر زور زور سے مارتی اور کہتی قرآن میری دھی کا فیصلہ کرو ۔اللہ سائیں
میری دھی کا فیصلہ کرو ۔وہ مسلسل ایسا کرتی ۔روتی چیختی۔اللہ پاک کو پکارتی
۔اس کی آہیں یوں لگتا سیدھی اللہ تک پہنچ رہی ہیں کیونکہ جو بھی اس کو
روتے ہوئے دیکھتا اس کا دل باہر آتا محسوس ہوتا ۔ہر آنکھ اشک بار تھی
۔پینو کا چھوٹا بھائی اور بھتیجا پینو کی ماں کو پکڑ کر گھر لے کر آتے مگر
تھوڑی ہی دیر میں پینو کی ماں دوبارہ مسجد میں پہنچ جاتی لہذا اسے کمرے میں
بند کر دیا جاتا۔وہ پینو کی باتیں کرتی رہتی ۔اس کے لئیے اپنی زبان میں
نوحے گاتی
ہاۓ ڑی میڈی نمانڑی دھی تیکوں کیتھوں لبھاں (اے میری معصوم بیٹی تمہیں میں
کہاں ڈھونڈھوں)
تیڈے پاک جسم دے ٹکڑے میں کیتھوں لبھاں (تمہارے پاک جسم کے کئیے گئیے ٹکڑے
میں کہاں سے ڈھونڈھوں)
قرآن نہ کیتا فیصلہ ڈس کینکوں آکھاں (قرآن نے تیرا فیصلہ نہیں کیا ۔بتاؤ
اب کس کو کہوں )
کالی دے قبرستان ہی بھاویں پور سٹین ہا (بھلے کالی کے قبرستان میں ہی دفنا
دیتے)
ہنڑں وہندے پاڑیں دے وچ تیکوں کیویں لبھاں (اب بہتے پانی میں تجھے کیسے
ڈھونڈھوں )
اسی طرح قرآن پاک سے باتیں کرتی
اوہ پاک قرآن آں میڈی دھی دی آہ کوںسونڑیاں نئیں توں (اے پاک قرآن
میرٖی بیٹی کی آہ کو تونے نہیں سنا )
تیڈیاں قسماں کھاندی کھاندی کوں ہناں ظالماں نے رول ڈیتا اے (تمہاری قسمیں
کھاتی رہی تب بھی ظالموں نے اسے نہ چھوڑا )
جھیڑی تیڈیاں قسماں کھاندی ہئی ہونکوں لوڑھ ڈیتا اے (جو تمہاری قسمیں کھاتی
تھی اسے نہر میں بہا دیا گیا )
پھر اوپر دیکھ کر اللہ سے مخاطب ہوکر کہتی
اللہ سئیں کیوں عورت پیدا کیتی ہیں توں (اللہ سائیں کیوں عورت پیدا کی تھی
تونے)
ہناں ظالماں دے ہتھ جو مارنا ہاوی (جب ان ظالموں کے ہاتھوں موت دینی تھی
تو)
کیوں عورت وچوں ظالماں کوں توں پیدا کیتی (کیوں عورت سے ان ظا لموں کو پیدا
کیا )
قرآن کوں سر تے چا تا میڈی دھی نے (میرٖ ی بیٹی نے قرآن کو سر پر رکھ کر
قسم کھائی تھی)
ول وی ہوندے سر تے دھڑ کوں کٹ ڈیتا ہناں نے (پھر بھی اس کے سر اور دھڑ کو
الگ کر دیا گیا )
فیصلہ جو توں نہ کرسیں تاں کہندے در تے ویساں (اگر تونے فیصلہ نہ کیا تو
میں کس کے دروازے پر جاؤں گی)
تیڈی مسجد دے در تے میں اپڑیں جان رلیساں (تمہاری مسجد کے دروازے پر ہی
اپنی جان دے دونگی )
وہ نوحے ،مرثے گا گا کر بین کرتی اور ہر آنکھ اشکبار ہوجاتی
کبھی وہ نہر کنارے بیٹھ کر نہر سے باتیں کرتی اور کہتی
جھیڑی جِیندی تیڈے پانڑیں اچ خوش تھیندی ہئی (جو اپنی زندگی میں تمہارے
پانی میں خوش ہوتی تھی )
ہوندے ٹکڑے کیویں اپنڑیں اندر پاتے ہانی (اس کے جسم کےٹکڑے تم نے اپنے اندر
کیسے برداشت کئیے )
میڈی دھی دے ٹکڑیاں وِچوں صدا جو آندی ہئی تاں (اگر جو میری بیٹی کے ان
ٹکڑوں سے آواز آتی تھی تو)
ہئیں صدا کوں تو اللہ سئیں تک پہنچائی کیوں نئی (اس آواز کو تم نے اللہ
سائیں تک کیوں نہیں پہنچایا )
تیڈا پانڑیں جو سوک ونجے تاں (اگر تمہارا پانی سوکھ جائے تو )
میڈیاں نیراں گھِن تے صدا توں وہندا رہویں (میرے آنسو لے لینا )
میڈی دھی کوں پر توں ارام ارام نال وہیندا رہویں (لیکن میری بیٹی کو آرام
آرام سے بہا کر لے کر جانا )
نیم پاگل سی ماں اپنے ان ہاتھوں کو دیکھتی ،اپنی بانہوں کو دیکھتی ،اپنی
بیٹی کو اپنے سینے سے لگانے کے لئیے بے چین ہوتی اور پھر اس بات کو سوچ کر
کہ میرٖی بیٹی کو کتنا درد ہوا ہوگا اس درد کو محسوس کرتی اور چیخیں مارتی
کہ ہائے میری بیٹی کو کتنا درد ہوا ہوگا ایسا تو فرعون نے بھی نہ کیا ہوگا
۔ایسا تو کربلہ میں بھی نہ ہوا ہوگا ۔یزید کے بھی ہاتھ کچھ نہ کچھ کانپے
ہونگے لیکن ان خنزیروں کو تو کچھ بھی نہیں ہوا۔ پھر اپنے شوہر کا گریبان
پکڑتی کہ تم نے بچایا ہوتا اسے ۔میرے ٹکڑے کردیتے وہ لوگ مگر میری دھی کو
چھوڑ دیتے ۔وہ روتے روتے ہلکان ہوجاتی تب امیراں کی ماں آکر اسے چپ کرانے
کی کوشش کرتی ۔اپنی بیٹی کا یاد دلاتی کہ اسے تو اس کے اپنے سگے باپ اور
بھائی نے مارا تھا ۔وہ بھی تو بے قصور تھی ۔اس کی کیا عمر تھی ۔اسی دن تو
اس نے اپنی گڑیا کی شادی کی تھی ۔مجھے دیکھو کیسے جی رہی ہوں ۔بھرجائی ہم
عورتیں ان مردوں کی غلام ہی پیدا ہوئی ہیں ۔صدیوں سے یہی دیکھ رہی ہیں پھر
بھی عادی کیوں نہیں ہوتیں ۔نہ کسی نے ہماری آواز سننی ہے اور نہ ان کے
پتھر دل ہلیں گے پھر رو رو کر خود کو ہلکان کیوں کرتی ہو۔ ایک نہ ایک دن تو
سب کو اس دنیا سے جانا ہے ۔ابھی تو اللہ سائیں نظر نہیں آتا ادھر جا کر
بات کریں گے ۔روئیں گے ۔فریاد کریں گے اور ان مردوں کو جو عورتوں پر ظلم
کرنے والے ہیں ۔اپنے ہاتھوں سے دوزخ کے دروازے سے دھکا دیں گے۔امیراں کی
ماں نے پینو کی ماں کو بہلاتے ہوئے کہا۔میں نہیں مانوں گی وہاں بھی یہی
آدمی ہونگے اور ان کی حکمرانی ۔اگر اللہ ہے تو پھر میری دھی کا فیصلہ وہ
اس جہان میں میری زندگی میں کرے ورنہ میں سمجھونگی اللہ صرف مردوں کے ساتھ
ہے ہم عورتوں کو صرف قربان ہونے کے لئیے پیدا کیا ہے ۔میں اپنی آخری سانس
تک اسے پکاروں گی جب تک میری دھی کے قتل کا خود اللہ فیصلہ نہیں کرتا۔
ادھر رمضو اور اس کے ساتھی جیل سے چھوٹ کر آگئیے تھے ۔سردار کے ڈیرے پر
بہت سے دوسرے سردار بھی مو جود تھے ۔جیل سے آئے سب جوانوں کو پگ پہنائی
گئی جو کہ ان کے غیرت مند اور بہادر ہونے کی علامت سمجھی جاتی ہے ۔رمضو کی
پگ البتہ شملے میں بدل گئیی تھی اور پگ کی اونچائی اب سائیں کی پگ کی
اونچائی سے تھوڑی ہی کم تھی ۔سردار بہت خوش تھا باقی سب سرداروں کے سامنے
اس کی عزت بڑھ گئی تھی ۔اور یہ بات سچ ہی تو تھی کہ جس کا جتنا اپنی برادری
کی عورت پر کنٹرول تھا وہ اتنا ہی بڑا سردار تھا ۔جو جتنی بڑی سزا عورت کو
اس کے گناہ (جو ذیادہ تر شک کی بنیاد پر ہوتے یا من گھڑت یا یونہی )پر دیتا
اتنا ہی مقبول سردار ہوتا ۔خون کی ہولی کھیلنے والے سارے ہی سردار کے ڈیرے
پر موجود تھے ۔دوسرے لفظوں میں شیطان کے سارے چیلے ہی موجود تھے ۔یقینا
شیطان ان کی ویڈیو بنا کر دجال کو دکھا کر خوش ہورہا ہوگا اور کہہ رہا ہوگا
ٌ اے شیطانوں کے سردار تیرے چھوٹ کر آنے میں اب ذیادہ دیر نہیں ۔ہمیں
ذیادہ کچھ کرنے کی ضرورت ہی نہیں بس طاقت کا احساس اور جہالت کا انجیکشن ہی
ان کی اپنے ہاتھوں بربادی کے لئیے کافی ہے ۔ان کو ہم نے عورت کے نشے میں
لگا دیا ہے۔کبھی یہ اسے خرید کر اپنا نشہ پورا کرتے ہیں ۔کبھی چاردیواری
میں قید کرکے ۔کبھی اس کی آواز دبا کے ۔کبھی ایک عورت پر دوسری عورت لاکر
۔کبھی ننھی ننھی بچیوں سے اپنی حوس پوری کرتے ہیں اور یہ جو بڑے اسلام اور
مسلمان ہونے کی بڑکیں مارتے تھے انہیں تو اسی اسلام میبں ہی الجھ دیا ہے ہم
نے ۔کہیں فرقوں میں ڈال کر ایک دوسرے کے لئیے نفرت ڈال دی ہے تو کہیں کالی
کے لئیے سنگسار کی آیتیں مولویوں کے سامنے رکھ دی ہیں ۔لیکن یہ بزدل جو
خود کو بہادر کہہ کر خوش ہورہے ہیں اگر واقعی اللہ کے اس حکم پر عمل کریں
تو ۹۰ فیصد مردوں کو سنگسار کیا جاتا کیونکہ ہم نے ان کی نظروں میں حوس ڈال
دی ہے ۔زنا تو نظر کا بھی ہوتا ہے لیکن ہم نے ان کا رخ صرف عورت کی طرف ہی
رکھا ہے اور وہ بھی نا حق قتل اور عورت کا قتل عام ہماری بدولت ہورہا ہے
اگر مردوں کو سزا ملی تو ان کا یہ بگڑا معا شرہ ٹھیک ہوجائے گا اور ہم ہار
جائیں گے ۔اس لئیے کمزور عورتوں کو مار کر ان کا نشہ پورا کرنے کی لت میں
لگا دیا ہے۔ ان کی طاقت ،بے رحمی،ظلم،طاقت کا نشہ اور جہالت ہی ہماری
کامیابی ہےٌ ۔اس پر دجال کی خوشی یقینا دیدنی ہوتی ہوگی اور زنجیروں سے
آزادی بھی مل رہی ہوگی ۔شیطان جتنا طاقتور ہوگا اتنا ہی دجال کی جلد آمد
ممکن ہو گی۔
سردار نے محسوس کیا کہ رمضو آج کمزور دکھ رہا تھا ۔وہ اس طرح سے چہک نہیں
رہا جیسے اسے چہکنا چاہیے تھا ۔آنکھیں بھی اس کی لال ہو رہی تھیں ۔پہلے تو
سردار سمجھا کہ اس نے پی ہوئی ہے لیکن بعد میں جب سب لوگ چلے گئے تو سردار
نے رمضو سے پوچھا خیریت ہے تجھے کیا ہوا ہے ۔آج تو تونے خود کوئی ہوائی
فائر بھی نہیں کیے ۔پریشان نظر آرہے ہو ۔آنکھیں بھی سوجی ہوئی ہیں ۔ہاں
بھئی تم بتاؤ ! اسے کیا ہوا ہے ۔رمضو کو خاموش پاکر سردار رب نواز سے مخاطب
ہوا ۔سائیں ! یہ کہتا ہے اسے چیخوں کی آوازیں آتی ہیں ۔اس دن جو رات کو
آندھی کی آوازیں تھیں وہ اس کو سنائی دیتی ہیں ۔پتا نہیں ہمیں تو نہیں
سنائی آتیں۔رب نواز نے حیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا۔ اوئے رمضو !یہ کیا
سن رہا ہوں میں !۔پاگل ہوگیا ہے ۔تیرا یہ پہلا قتل تو نہیں ۔تیرے جیسا
غیرتی تو پورے علاقے میں کوئی نہیں ۔کتنوں کو تونے اپنے ان مظبوط ہاتھوں سے
اکیلے ہی جہنم راست کیا ہے۔پھر یہ کیا بزدلوں کے جیسی حرکتیں کر رہا
ہے۔بندہ بن بندہ۔تیری غیرت کے قصے تو ہمارے گاؤں کے بچوں کے بچے بھی سنائیں
گے ۔تاریخ گواہ رہے گی۔پھر کیوں اس طرح کی ڈرپوک حرکت کرکے اپنے کئے کرائے
پہ پانی ڈال رہے ہو۔سردار نے ذرا غصے سے کہا ۔نہیں سائیں میں بزدل نہیں ہوں
۔اللہ کے حکم سے میں نے اتنے مضبوط جسموں سے ایک سیکنڈ میں روح نکالی پھر
یہ تو کوئی بڑی بات بھی نہیں تھی ۔آپ تو جانتے ہیں میں نے اپنی گھر والی
کو بھی غیرت میں قتل کیا تھا حالنکہ میں اس سے بہت پیار کرتا تھا ۔ایسی
کوئی بات نہیں پتا نہیں کان خراب ہو گئیے ہیں یا کیا ہے ۔سوتا ہوں تو یہ
آوازیں بڑھ جاتی ہیں پھر نیند خراب ہو جاتی ہے ۔کل چیک اپ کرواتا ہوں میں
۔آپ بس میرے کانوں کے لئے دعا کریں
(رمضو کو کس کی چیخوں کی آوازیں آتی ہیں ؟ اس کے کان خراب ہو گئیے ہیں یا
کچھ اور؟ اگلی قسط میں معلوم ہوگا ۔تھوڑا سا انتظار۔۔۔۔)
|