مظلوم پردیسیوں کا آخر قصور کیا ہے؟

چاہے امریکہ ہو یا یورپ چاہے سعودیہ اور عرب امارات ، وہاں بسنے والے لوئر اور مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے %99 پردیسیوں کی ایک ہی کہانی ہے ۔ جس سے بھی بات ہو یہی سننے کو ملتا ہے کہ گھر والوں نے ہمیں پیسے کمانے کی مشین سمجھ رکھا ہے انہیں صرف اپنی عیاشیوں سے مطلب ہے پردیس میں کتنی محنت کرنی پڑتی ہے کیسے کیسے اپنے من کو مار کر زیادہ سے زیادہ بچت کر کے گھر بھجواتے ہیں تو اسے وہاں مالِ مفت دلِ بےرحم کے مصداق نہایت بےدردی سے خرچ کیا جاتا ہے ۔ پھر اس کے بعد بھی مطالبات اور فرمائشوں کا سلسلہ رکتا نہیں ۔

‎سب سے زیادہ برا حال پسماندہ اور نیم خواندہ طبقے سے تعلق رکھنے والے پردیسیوں کا ہے جن کی واضح اکثریت سعودی عرب اور خلیجی ممالک میں معاش کی جد و جہد میں مصروف ہے ۔ یہ زیادہ تر محنت کش ہنر مند اور راج مزدور وغیرہ ہوتے ہیں ، ایک ایک کمرے میں درجن بھر تو کہیں بیسیوں لوگ دڑبے میں مرغیوں کی طرح بھرے ہوتے ہیں ۔ کئی کئی دن کپڑے نہیں بدلتے روکھی سوکھی کھا کر کام پر نکل جاتے ہیں چاہے بیمار ہوں یا کوئی چوٹ لگ جائے چھٹی کرنے سے حتی الامکان پرہیز کرتے ہیں کہ کہیں ایک دن کی دہاڑی نا ماری جائے ، روزی کی خاطر اپنے کفیل یا آجر کی جھڑکیاں اور ذلتیں سہتے ہیں ۔ اپنے گھرانے کی خوشحالی اور آسودگی کے لئے پردیس میں دن رات گدھوں کی طرح محنت کرنے والے غریب الوطنوں کی قربانیوں کی داستان تو بہت طویل اور تفصیل طلب ہے بس ایک سوال ہے ۔ یہ جو خود اپنوں کی ستم ظریفیوں کا شکار ہیں تو کیا اس میں سارا قصور ان کے گھر والوں کا ہے؟ خود ان کا اپنا کوئی قصور نہیں ہے؟

ان کا سب سے بڑا قصور یہ ہے کہ جب یہ بہتر روزگار کی تلاش میں کسی نئے دیس کو سدھار جاتے ہیں تو پھر خود کو اپنے پورے خاندان کی ہر جائز و ناجائز ذمہ داری کا ٹھیکیدار سمجھنے لگتے ہیں اور دیار غیر میں اپنا خون پسینہ ایک کرنے کے بعد بھی ایک عجیب احساس جرم میں مبتلا رہتے ہیں ۔ انہیں لگتا ہے کہ ہم اپنے گھر والوں کی توقعات پر پورا اترنے میں ناکام ہیں وہ اگر مطمئین نہیں ہو رہے تو ضرور ہماری طرف سے کوئی کمی کوتاہی ہے ۔ 3 فروری کو دوبئی میں پاکستانی نوجوان صدام خان کی اپنی خودکشی سے پندرہ منٹ قبل بنائی گئی وڈیو تو تقریباً آپ سبھی نے دیکھی ہو گی ۔ جس میں وہ اپنی پردیس میں مشکلات و مصائب اور اپنے اہلخانہ کے شکوے شکایتوں کی تفصیل بتاتے ہوئے شدت غم سے چُور نظر آ رہا ہے ۔ اس کی تنخواہ آٹھ سو درہم تھی مگر وہ اپنے گھر پر ہر ماہ گیارہ سو درہم بھجواتا تھا رات کے وقت بھی کام کر کے ۔ اور اتنی محنت کر کے بھی خود کتوں سے بھی بدتر زندگی بسر کر رہا تھا مسلسل ملامتوں کا سامنا کر رہا تھا جس سے تنگ آ کر اس نے ایک حرام موت کو گلے لگا لیا ۔ ہم ہرگز بھی اس نوجوان کی خودکشی کی تائید نہیں کریں گے بیشک اس کے والدین اس کے ساتھ بہت زیادتی کر رہے تھے اس کے اخلاص کا اعتبار نہیں کرتے تھے اور مسلسل اس سے مزید رقم کا مطالبہ کرتے تھے لیکن نوجوان کو اتنا دلبرداشتہ ہونے کی ضرورت نہیں تھی ۔ زندگی بہت قیمتی ہوتی ہے صرف ایکبار ملتی ہے وہ اتنی سستی نہیں ہوتی کہ کسی کڑوی کسیلی کے عوض حرام موت کے حوالے کر دی جائے ۔

اس کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ وہ اپنی پوری تنخواہ کے علاوہ پارٹ ٹائم بھی کام کر کے وہ پیسے بھی اپنے گھر پر بھیج دیتا تھا جس کے باعث اس کے بےحس اور خود غرض گھر والے یہ سمجھنے لگے تھے کہ دوبئی میں درہم درختوں پر لگتے ہیں صرف انہیں توڑنے کی تو محنت کرنی پڑتی ہے اور اس میں بھی ان کا بچہ ڈنڈی مار رہا ہے ۔ سادہ لوح بد نصیب نوجوان جانتا نہیں تھا کہ اگر آپ آٹے میں نمک زیادہ ڈال کر اس کی روٹی پانی میں ڈبو کر کھاتے ہیں تو وہاں وطن میں نکھٹو بھائی نمکحرام ہو جاتے ہیں اور الٹا آپ سے نفرت کرنے لگتے ہیں ۔ جن کی غیرذمہ داری اور ہڈحرامی کی وجہ سے آپ کی بیوی آپ کی زندگی ہی میں بیوہ ہو جاتی ہے اور بچہ یتیم ۔

یہاں امریکہ میں تقریباً پندرہ برس قبل ایک دیسی نوجوان کی کچھ کام کرتے ہوئے ہاتھ کی ایک انگلی ٹوٹ گئی ۔ پرائیویٹ جاب تھی جس کی نوعیت کے باعث اسے ٹوٹی ہوئی انگلی کے ساتھ جاری رکھنا ممکن نہیں تھا ۔ بیروزگار ہو کر گھر بیٹھ گیا تیسرے روز پاکستان گھر سے کال آ گئی کہ جنریٹر خراب ہو گیا ہے نیا خریدنے کے لئے پیسے بھیج دو ۔ ۔ جبکہ وہ نوجوان اپنی کل تنخواہ گھر بھجواتا تھا اور اپنے اخراجات اوور ٹائم لگا کر اور پارٹ ٹائم جاب سے پورے کرتا تھا ۔ موصوف نے انہیں اپنے اوپر پڑنے والی افتاد سے مطلع کرنے کی بجائے دوستوں سے ادھار لے کر رقم اکٹھی کی اور تیس ہزار روپے گھر پر بھجوا دیئے ۔ اب یہ کس کی غلطی تھی؟ ان کی جو سیدھے سیدھے انسان بننے کی بجائے زیادہ چیمپیئن بننے کی کوشش کرتے ہیں ۔ یہ بہت طولانی بحث ہے ہم مختصراً ایسے تمام قربانی کے بکروں کو یہی مشورہ دیں گے کہ خدا سے بھی زیادہ اپنے گھر والوں سے ڈرنا چھوڑ دیں آپ پر کچھ حق خود آپ کا اپنا بھی ہے ۔ مسائل کا حل خود کشی نہیں ہے خود اپنا خیال رکھنا بھی سیکھیں اپنے بڑھاپے کو محفوظ بنانے کی تدبیر کریں ۔ اپنوں کی سیان پتیوں سے انجان بن کے اورآنکھوں پر اندھی محبت کی پٹی باندھ کر اندھا دھند قربانیاں دینے کے شوق پر قابو پائیں ۔ آج اگر اپنی عزت خود نہیں کریں گے تو کل کو عمر اور صحت کی پونجی گنوا کر یہی سنیں گے کہ تم نے ہمارے لئے کیا ہی کیا ہے؟
 

Rana Tabassum Pasha(Daur)
About the Author: Rana Tabassum Pasha(Daur) Read More Articles by Rana Tabassum Pasha(Daur): 228 Articles with 1854069 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.