دہلی کے اندر ۱۹۵۲ سے ۱۹۵۶ کے دوران ایک عبوری صوبائی
حکومت تھی اور اس دوران کانگریس کے دو وزرائے اعلیٰ نے یہاں حکومت کی ۔ اس
کے بعد دہلی کی صوبائی حیثیت کو ختم کرکے یونین ٹری ٹری بنادیا گیا جیسا کہ
فی الحال جموں کشمیر کے ساتھ ہوا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کانگریس نے جب یہ
کیا تو بی جے پی کا پرانا ورژن جن سنگھ نے اس کی مخالفت کی تھی۔ اب کی بار
بی جے پی نے جموں کشمیر کے ساتھ وہی معاملہ کیا تو کانگریس اس کی مخالفت
کررہی ہے۔ ۱۹۹۳ میں دوبارہ دہلی اسمبلی محدود حقوق کے ساتھ بحال کردی گئی
۔ اس کا فائدہ دہلی کی صوبائی حیثیت کی خاطر جدوجہد کرنے والی بی جے پی کو
ملا اس نے پانچ سالوں تل دہلی پر راج کیا ۔ اس دوران بی جے پی کے تین
وزرائے اعلیٰ آئے اور تینوں کو قومی سطح پر مقبولیت ملی۔
پہلے وزیراعلیٰ مدن لال کھرانہ کو دو سال ۳ ماہ بعد پارٹی کی آپسی چپقلش
کے سبب ہٹا دیا گیا ۔ اس کے مغربی دہلی کے موجودہ رکن پارلیمان پرویش ورما
کے والد صاحب سنگھ ورما کو وزیراعلیٰ بنایا گیا ۔ انہیں بھی دو سال ۷ ماہ
بعد ہٹا دیا گیا اور آخری دو ماہ کے لیے سشما سوراج کے ہاتھوں میں کمان
سونپی گئی ۔ دہلی کے عوام نے بی جے پی کو اس کی آپسی سر پھٹول کا سبق
سکھایا اور بیس سال تک اقتدار سے قریب پھٹکنے نہیں دیا۔ یہ بن باس ہنوز ختم
نہیں ہوا اور امیت شاہ جیسے احمق بی جے پی کی تنظیم پر چھائے رہے تو کبھی
ختم نہیں ہوگا۔ کانگریس کی شیلا دکشت لگاتار تین بار وزیراعلیٰ بنیں اور جب
عوام ان سے بیزار ہوئے تو انہوں نے عآپ کے اروند کیجریوال کو وزیراعلیٰ
بنا دیا ۔
یہ ہندوستانی سیاست کا نہایت دلچسپ پہلو ہے کہ کانگریس کی بدعنوانی کے خلاف
کیجریوال اور بی جے پی ایک ساتھ تھے اور انتخاب کے بعد حکومت سازی کے وقت
وہ دونوں ایک دوسرے کے دشمن ہوگئے۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ بی جے پی کو
اقتدار میں آنے سے روکنے کے لیے کانگریس نے اس عآپ کی حمایت کردی جس نے
کانگریس کے ووٹ بنک میں سیندھ لگائی تھی ۔ کیجریوال کو جب احساس ہوا کہ وہ
دوبارہ انتخاب میں اپنے بل پر انتخاب جیت سکتی ہے تو اس نے لوک پال کا
بہانہ بنا کر49 دنوں کے کانگریس کی حمایت واپس کرکے مستعفی ہوگئے۔ اس کے
بعد ۲۰۱۵ کے انتخاب میں کانگریس کا نام و نشان مٹا کر وہ دوسری بار
وزیراعلیٰ توبن گئے لیکن لوک پال نامزد نہیں کیا ، اس کے باوجود وہ تیسری
بار انتخاب جیت لیا ۔
گزشتہ ۷ سالوں میں دہلی کے رائے دہندگان بھی وقت کے ساتھ اپنا چولہ بدلتے
رہے ۔ ۲۰۱۴ کی مودی لہر میں پوری طرح بہہ کرر بی جے پی کو ایوانِ پارلیمان
کی تمام نشستوں پر کامیاب کردیا ۔ اس کے ۹ ماہ بعد اسمبلی انتخاب میں بی جے
پی کو 31سے گھٹا کر3پہنچا دیا اور کیجریوال کو 67نشستوں پر غیر معمولی
کامیابی عطا کردی ۔ اس وقت کیجریوال کو ۵۵ فیصد ووٹ ملے تھے اور۳۳ فیصد
لوگوں نے بی جے پی کو ووٹ دیا تھا۔ کانگریس کے ووٹ کا تناسب چونکہ دس فیصد
تک گھٹ گیا تھا اس لیے اسے ایک بھی نشست پر کامیابی نہیں ملی۔ اس انتخاب کے
دوسال بعد ۲۰۱۷ میں بلدیاتی انتخاب منعقد ہوا۔ اس میں عآپ کے ووٹ کا
تناسب گھٹ کر 26 فیصد پر آگیا ۔ اس نقصان کا ۳ فیصد فائدہ بی جے پی کو ۱۱
فیصد کانگریس کو ملا ۔ اس طرح بی جے پی ۳۶ فیصد ووٹ پانے والی سب سے بڑی
پارٹی بن گئی ۔ کانگریس کی بھی حالت میں اچھا خاصہ سدھار آگیا۔
۲۰۱۹ کے قومی انتخابات میں عآپ کی کمر ٹوٹ گئی اور وہ ۱۸ فیصد ووٹ کے
ساتھ تیسرے نمبر پر کھسک گئی ۔ کانگریس کو ۲۳ فیصد ووٹ ملے تھے اور وہ
دوسرے نمبر پر تھی مگر بی جے پی نے ۵۷ فیصد ووٹ حاصل کرکے پھر سے ساری
نشستوں پر قبضہ کرلیا ۔ نئی بی جے پی حکومت میں دہلی یا اس کے اطراف کے کئی
مرکزی وزراء ہیں ۔ اس کے علاوہ بلدیات کے کونسلرس بھی ان کی جماعت کے ہیں ۔
ایسے میں اشتعال انگیز سیاست کرنے کے بجائے رائے دہندگان کے مسائل کو حل
کیا جاتا تو بڑی آسانی سے کیجریوال کو زیر کیا جاسکتا تھا لیکن چونکہ ان
دونوں سطح پر وہ پوری طرح ناکام و نااہل ثابت ہوئی اس لیے انتخابی مہم میں
مغل سلطنت، قومی تحفظ، پاکستان ، ائیر اسٹرائیک ، طلاق ثلاثہ، کشمیر ، سی
اے اے اور شاہین باغ کا سہارہ لینا پڑا۔
اپنی ناکامی کی پردہ پوشی کے لیے بی جے پی کی مہم نہایت دلچسپ تھی ۔ انتخاب
سے ایک ماہ قبل امیت شاہ نے اندرا گاندھی اسٹیڈیم میں اپنے کارکنان کو خطاب
کرتے ہوے کہا تھا کہ صوبائی انتخاب میں وہ بڑے جلسوں پر انحصار کرنے کے
بجائے گھر گھر جائیں ۔ اس کی مثال قائم کرتے ہوے وزیرداخلہ نے لاجپت نگر
میں پمفلٹ بانٹے لیکن اس پر اپنی کامیابیاں اور ارادے بیان کرنے کے بجائے
شہریت قانون میں ترمیم کی حمایت کا راگ الاپا گیا تھا ۔ وہیں سے بی جے پی
پٹری سے اترگئی کیونکہ عوام کے پاس جانے کے ساتھ یہ بھی اہم ہے کہ آپ کیا
لے کر جارہے ہیں ۔ امیت شاہ نے جے این یو کے غداروں کو سبق سکھانے کی ترغیب
بھی دی اور پھر جے این یو کے طلباء پر زعفرانی غنڈوں کا حملہ ہوگیا ۔ جامعہ
میں جس پولس نے طلباء پر ظلم کیا تھا اسی نے جے این یو میں حملہ آوروں کی
حفاظت کی۔ یہی سلوک جامعہ اور شاہین باغ کے پستول بردار کے ساتھ ہوا۔ دہلی
کے لوگ یہ تماشہ دیکھ رہے تھے۔
بی جے پی کی انتخابی تیاری کا اگر ۲۰۱۵ سے موازنہ کیا جائے تو بڑا فرق نظر
آتا ہے۔ اس وقت امیت شاہ نے صرف ۴ جلسوں پر اکتفاء کیا تھا اور کارکنان کے
ساتھ ۷ نشستیں کی تھیں باقی کام پروین شنکر کپور، روی شنکر پرشاد ، نرملا
سیتا رامن ، اورن جیٹلی اور رام لال کے حوالے کردیا گیا تھا ۔ اس باراپنی
وزارتی ذمہ داریوں کو بھول کر امیت شاہ نے انتخاب کو وقار کا مسئلہ بنالیا
اور تن من دھن سے اس کام میں جٹ گئے ۔ دولت اور اقتدار کے نشے میں چور امیت
شاہ نے ۶۶ مقامات پر الیکشن لڑنے کے لیے۶ ہزار ۶ سو عوامی خطابات اور روڈ
شو کروائے۔ ان میں سے باون میں خود شرکت کی اکتالیس میں نڈا کو بھیجا اور
بارا کو خطاب کرنے کی خاطر راجناتھ سنگھ کی خدمات حاصل کیں۔ دوسو ارکان
پارلیمان اور پچاس وزراء کو اس کام میں لگایا گیا۔
مقدار کے علاوہ معیار کی بات کی جائے تو شاہ جی کی قیادت کا کمال تھا کہ
ایسی گھٹیا اور لچر انتخابی مہم چلائی گئی کہ جس کی مثال ملک تو دور سارے
عالم میں موجود نہیں ہے۔ اس کے تحت دہلی آکر یوگی غیر آئینی ’’بریانی اور
گولی‘‘ کا راگ الاپ کر چلے گئے۔ انوراگ ٹھاکر نے ’’دیش کے غداروں کو گولی
مارو سالوں کو‘‘ کا انتہائی اشتعال انگیز نعرہ بلند کیا۔ پرویش ورما نے
فحاشی کی انتہا کرتے ہوئے شاہین باغ کے مظاہرین کے ذریعہ ’’گھروں میں گھس
عصمت دری وقتل سے ڈرایا‘‘۔ شاہین باغ کے مظاہرے کوئی تعلق دہلی کے الیکشن
سے نہیں تھا لیکن وزیر اعظم نے اسے’ اتفاق نہیں بلکہ تجربہ‘ کہہ کر اسے
انتخاب سے جوڑنے کی کوشش کی اور پھر بی جے پی نے اس کو اپنی مہم کا مرکز و
محور بنا نے پر ساری توانائی صرف کردی ۔ سوال یہ ہے کہ کیا اسے شاہین باغ
کے ذریعہ عوام کو ورغلانے میں کامیابی حاصل ہوئی ؟ انڈیا ٹوڈے اور ایکسس کے
ذریعہ کرائے گئے مائی انڈیا سروے کے مطابق ۵۰ فیصد لوگ تو یہ بھی نہیں
جانتے تھے کہ شاہین باغ کہاں ہے ؟ باقی لوگوں نے الٹا سوال کیاکہ اس احتجاج
کا ہم سے کیا تعلق؟ سروے بتاتا ہے کہ بی جے پی اس کے ذریعہ محض ۲ فیصد
لوگوں کو متاثر کرسکی ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس نے غلط موضوع کا انتخاب
کرکے اس پر اپنی توانائی ضائع کردی ۔
عآپ ، کانگریس اور دیگر غیر بی جے پی جماعتوں کو ووٹ دینے والوں نے ’ترقی
میں عدم توجہی ‘ کو اس کا سبب بتایا ۔ اس کی ذمہ داری بی جے پی کے ماتحت
چلنے والی میونسپل کارپوریشن پر ہے۔ ان کونسلروں کی نااہلی نے بی جے پی کی
لٹیا ڈبودی ۔ مودی جی کے ’سب کا ساتھ سب کا وکاس ‘ والے نعرے پر اگر یہ لوگ
عمل کرتے تو یہ 42فیصد ووٹرس بی جے پی کے مخالف ووٹ نہیں ڈالتے۔ باقی
13فیصد ووٹرس بی جے پی کے مقامی رہنماوں یا کارکنان سے ناراض تھے یا ان کی
خواہش تھی کہ مرکز اور صوبے میں مختلف جماعتوں کی حکومت ہونی چاہیے۔ سی اے
اے کی بنیاد پر بی جے پی آئندہ قومی انتخاب جیتنے کا خواب دیکھ رہی ہے اور
گھر گھر جاکر عوام کو سمجھانے کی مہم چلا رہی ہے لیکن اس کے ذریعہ وہ دہلی
میں صرف ایک فیصد رائے دہندگان کو اپنا حامی بنانے میں کامیاب ہوسکی ۔ رام
مندر کے ٹرسٹ کا اعلان بھی ایک فیصد سے زیادہ لوگوں کو خوش نہیں کرسکااور
کشمیر کی دفع ۳۷۰ بھی ۲ فیصد سے زیادہ لوگوں پر اثر انداز نہیں ہوسکی ۔
قومی تحفظ کو صرف ۶ فیصد لوگوں نے قابلِ توجہ سمجھا۔
بی جے پی کے ۵۰ فیصد ووٹرس وزیراعظم نریندر مودی اور ایک چوتھائی نے بی جے
پی کی کارکردگی کے سبب اسے ووٹ دیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ اس کی
بنیاد پر ووٹ مانگتی تو اس کے کامیابی کے امکانات زیادہ روشن ہوتے ۔ دہلی
کے 37 فیصد باشندے ترقی کو اہمیت دیتے ہیں ،17فیصد کے نزدیک مہنگائی اہم
مسئلہ ہے اور 14 فیصد لوگ بیروزگاری کو لے کر فکرمند ہیں۔ ان میں سے ہر ایک
تعلق مرکزی حکومت سے ہے۔ امیت شاہ اگر دہلی کے رائے دہندگان کو اطمینان
دلانے میں کامیاب ہوجاتے کہ موجودہ بجٹ ان مسائل کو حل کردے گا تو ان کے
الیکشن جیتنا آسان ہوجاتا لیکن جس کو اپنی کارکردگی پر اعتماد نہ ہو تو وہ
بنیادی سوالات سے راہ فرار اختیار کرتا ہے۔ جن لوگوں میں خود اعتمادی کا
فقدان ہو وہ دوسروں کا اعتماد حاصل کرنے میں کیسے کامیاب ہوسکتے ہیں؟ دہلی
کے انتخابی نتائج اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔ بی جے پی نے اس دوران
جئے پرکاش نڈاّ کو اپنا صدر تو بنالیا لیکن امیت شاہ صاحب اسے دل سے تسلیم
نہیں کیا اور ازخود بلا ضرورت انتخابی مہم کی ذمہ داری اپنے سر اوڑھ لی۔ ان
کو اگر چھٹانک بھر عقل ہوتی تو اس سے دور رہتے تاکہ انتخابی ناکامی کے بعد
ان کے چیلے چاپڑ یہ کہتے کہ ہم لوگ اپنے چانکیہ کی غیر موجودگی کے سبب ہار
گئے حالانکہ مسلسل ۶ صوبائی انتخابات میں ناکامی کے بعد یہ دعویٰ بے معنی
ہوچکاہے۔ اس بارامیت شاہ نے نہ صرف خود اپنی ذات کو ذلیل کیا بلکہ مودی کو
گھسیٹ کر انہیں بھی رسوا کردیا۔
|