قرنِ اول کے فتنئہ ارتداد کے بعد
عالمِ اسلام پر دو ایسے حالات آئے جس سے سارے جہاں کے مسلمانوں کو بری طرح
سے ہلا کر رکھ دیا گیا تھا ایک تو تا تاری قوم کے ہاتھوں بغداد کی تباہی
اور دوسرا بیت المقدس پر صلیبی قبضہ یہ ایسے واقعات تھے اس سے نہ صرف
مسلمان طرح مجروح ہوئے بلکہ اسلام اور مسلمانوں کی بقا کا بھی مسئلہ بن گیا
تھا بغداد میں تو مسلمانون کی خونریزی اور ان کے املاک کی تباہی جس سے دجلہ
کے پانی کا رنگ سرخ وسیاہ ہو گیا تھا اور مسلمانوں کے موت کی اس خبر کو تا
ریخ کا حصہ بنانا مسلمان مورخین کو بہت گراں گزرا تھا اور یقیناً یہ امت
مسلمہ پر سب سے بڑی آفت تھی جس نے ہر طرح سے انہیں توڑ کر رکھ دیا تھا اور
جس کا براہ راست تعلق قومِ عرب یا سر زمین عرب سے تھا اسلئے ہم اسے عالمِ
عربی کا المیہ سے یاد کرتے ہیں اور آج کل کے عرب ممالک میں جو ہنگامہ پپا
ہے یا شورشوں کے بادل منڈلا رہے ہیں یہ کہیں ایک اور المیہ کی دستک تو
نہیں؟مگر ہمارے بعض احباب اسے مسلمانوں کی نشاتہ ثانیہ کی طرف اشارہ کر ر
ہے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے اور یہ خام خیالی یا خود فریبی ہے دراصل یہ سب
طے شدہ پروگرام یا سوچے سمجھے منصوبے دانستہ اور ارادی کارستانیوں اور
سازشوں کا نتیجہ ہے جسے خوشنما نعرہ کے ساتھ آگے بڑھایا جارہا ہے نعرہ
ہے!!امن و سلامتی اور وسیع ترین آزادی۔!!کاش کہ ہم سمجھتے اور گزشتہ احوال
سے سبق لیتے؛اسی امن و سلامتی کے نام پر عراق کو انہوں نے تہہ بالا کر ڈالا
اور اس کا کیا حشر ہوا یہ تو ہمارے سامنے ہے اور اب لیبیا نشانہ پر ہے اور
اسی بہانے وہاں پر بھی جارحیت شروع ہو چکی ہے آخر انہیں صرف انہیں ملکوں سے
دلچسپی کیوں؟ حقیقت میں ان کی نظریں تیل کے لا محدود ذخائر پر مذکور ہیں
امن وسلامتی اور تحفظات کی فراہمی صرف ایک بہانہ ہے اور حقیقت میں ان مسائل
سے انہیں کوئی سروکار نہیں ورنہ مسائل تو دنیا میں بہت جگہ ہیں صرف مسئلہ
فللسطین کو ہی لیں وہاں پچھلے (٦)چھ دہائیوں سے کیا ہو رہا ہے؟ آزادی اور
حقوقِ انسانی والی باتیں وہاں کیوں نہیں کی جاتی؟ اور اگر کہیں سے اس جانب
آواز اٹھتی بھی ہو تو کیوں کان نہیں دھرا جاتا؟سمجھنے کے لئے یہی بات ہمارے
لئے کافی ہے اب اسی خوشنما نعرہ کے دوسرا جز( وسیع ترین آزادی۔)کو لے کر
عالمِ عرب میں ہلچل مچی ہوئی ہے-
عرب اُمراء کو اس بات کا فوری نوٹس لینے کی ضرورت ہے اور اس یہودی لابی
تحریکوں اور ان کے برے عزائم سے عوام کو بھی خبردار کر کے اپنے اعتماد میں
لینے کی کوشش کرنی ہوگی ورنہ حالات بد ترین رخ اختیار کر سکتے ہیں اور ایک
بہت بڑا المیہ رونما ہو سکتا ہے کیونکہ جن لوگوں کا دماغ اس کے پیچھے کام
کررہا ہیں وہ انتہائی درجہ کا شاطر دماغ ہے اسلئے مسلمانوں کو اور خاص کر
عرب امراء کو کافی محتاط رہنے کی ضرورت ہے جلد بازی یا اُنہیں کے اشاروں پر
اٹھائے جانے والا کوئی بھی قدم یہاں مشکلات پیدا کر سکتا ہے کیونکہ زمین پر
فتنہ فساد پرپا کرنا اور خود کو امن و امان کا پیغامبر بنا کر اپنے آپ کو
پیش کرنا ان کا شیوا اور آزمودہ حربہ رہا ہےاور اس بارے میں ہمیں رب کائنات
نے اپنی کتاب قرآنِ کریم میں بہت پہلے ہی متنبہ کر دیا تھا لیکن ہمارے
حکمران یہاں اس سے بالکل بے پرواہ نظر آرہے ہیں البتہ اتنا ضرور ہے کہ علما
ء حق ایک حد تک انہیں اس طرف توجہ دلا رہے ہیں جو اطمینان بخش پہلو ضرور ہے
لیکن ناکافی !آج جو عرب دنیا میں ہو رہا ہے اس کے پیچھے بھی یہودی لابی
تحریکیں ہی سر گرم عمل ہیں ورنہ تیونس اور مصر کے بعد دوسری پُرامن اسلامی
ریاستوں میں اچانک ھنگامہ پرپا ہونا کوئی اتقافی یا بے سبب واقعات نہیں ہیں
بلکہ طاغوتی طاقتیں ہیں جو اس کے پیچھے کام کر رہی ہے اور اسے ایک زبردست
سا زش کے تحت عمل میں لایا جا رہا ہے اور ان کا اصل نشانہ سعودی عرب ہے عرب
ذمہ داروں کو چاہیے کہ اس مسئلہ کی سنگینی کو سمجھیں اور سب سے پہلے اپنی
مجالس سے ان فسادیوں کو دور رکھنے کی کوشش کریں جو مصالحت کے نام دونوں طرف
رہ کر پر یہاں یہ زہر گھول رہے ہیں-
ہندوستان میں انہوں نے یہی حربہ استعمال کیا تھا سب سے پہلے حضرت ٹیپو
سلطان رحم اللہ کی خداداد سلطنت کو ختم کیا پھر ایک ایک کر کے وہاں کے
حکمرانوں کو تہہ تیغ کر ڈالا یہ سب انہوں نے وہاں کے راجہ مہاراجاؤں کو
اپنے اعتماد میں لے کر ہی کیا تھا اور بعد میں سب کو دھوکہ دے کر پورے
ملک(ہندوستان) پر اپنا قبضہ جمایا اور کیا اس وقت عرب ممالک کے حالات اسی
طرف اشارہ نہیں کر رہے ہیں؟ سچ تو یہ ہے کہ یہ یہاں پر بھی یہی تاریخ
دہرانا چاہ رہے ہیں لہٰذا وقت کا تقاضہ ہے کہ اسلامی ملکوں کے سربراہ اس
تاریخی حقیقت سے سبق لیں اور فوری سنبھل جائیں ورنہ سب کچھ لٹ جانے کا
اندیشہ ہے- |