مغرب کا دوہرا معیار

تحریر: مراد مقصود
یہ 27فروری2011ءکی بات ہے کہ فٹبال میچ کے چوہترویں منٹ میں ایک پرندہ زخمی حالت میں میدان میں گرا۔اس واقعہ کے بعد ریفری نے کھیل کو کچھ دیر کے لیے روک دیا۔کولمبیا کے فٹبالر لوئس مورینو، حقیقت میں کھیل رُکنے پر بڑھے مایوس ہوئے کیونکہ میچ کے ختم ہونے میں چند منٹ باقی تھے اور ان کی ٹیم دو کے مقابلے میں ایک گول سے ہار رہی تھی۔ اپنی ٹیم کی ممکنہ شکست سے دلبرداشتہ لوئس مورینو نے زخمی پرندے کو فٹبال کی طرح زوردار ٹھوکر لگا کر سائیڈ لائن سے باہر کر دیا، جو بعد ازاں مر گیا۔اس حادثہ پر مقامی تماشائی اور حیوانی حقوق کی تنظیمیں خاصی برہم ہوئیں۔ اس حرکت پر تماشائیوں نے کھلاڑی پر ”قاتل، قاتل‘‘ کی آوازیں کسیں اور ساتھی کھلاڑیوں نے بھی اسے خاصی جھاڑ پلائی۔ عوام کی طرف سے اس واقعہ کی اس قدر شدید مذمت کی گئی کہ اگلے روز کولمبیا کے فٹبال لوئس مورینو کو ایک نیوز کانفرنس کے دوران معافی مانگنا پڑی۔عوام کی مزید تشفی کے لیے کولمبین لیگ کی طرف سے لوئس مورینو کو حیوانی حقوق کی پامالی اور تماشائیوں کو اشتعال دلانے کی پاداش میں 552 ڈالر کا جرمانہ اور 2 میچوں کی معطلی کا فیصلہ سنایا گیا۔حیوانات اور پرندوں کے حقوق عوام میں تسلیم اور رائج کرانے پر مغربی دنیا قابل رشک و تقلید ہے ، تاہم انسانی حقوق کی پامالی پر ان عظیم طاقتوں کی خاموشی اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے عالمی منشور کی خلاف ورزی ان کے دوہرے معیار کو عیاں کرتی ہے ۔27فروری کے حادثہ میں ایک پرندے کی ہلاکت کا پاکستان میں ڈرون حملوں سے انسانی اموات کا موازنہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ مغربی دنیا پرندوں کے حقوق کی تو قائل ہے مگر ترقی پذیریا معاشی طور پر کمزور ممالک مثلاً پاکستان میں مذکورہ حملے اگرچہ عالمی وانسانی حقوق اور آزادیوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہیں، نہتے معصوم شہریوں کو انسانی حقوق دینے اور دلانے میں لاپرواہ اور ناکام واقع ہوئی ہے۔

تمام انسانوں کی ذاتی حرمت ،مساوی اور ناقابل انتقال حقوق کو تسلیم کرنا ،دنیا میں آزادی، انصاف اور امن کی بنیاد ہے۔انسانی حقوق سے لاپروائی اور ان کی بے حرمتی اکثر ایسے وحشیانہ افعال کی شکل میں ظاہر ہوئی ہے جن سے انسانیت کے ضمیر کو سخت صدمے پہنچے ہیں۔اقوام متحدہ کے ممبر ممالک نے یہ عہد کیا تھا کہ وہ اقوام متحدہ کے اشتراکِ عمل سے ساری دنیا میں اصولاً اور عملاً انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کا زیادہ سے زیادہ احترام کریں گے اور کرائیں گے۔ جنرل اسمبلی کے اعلان کردہ انسانی حقوق کے عالمی منشور کی دفعہ12 میں لکھا ہے کہ ”کسی شخص کی نجی زندگی،خانگی زندگی، گھربار،خط وکتابت میں من مانے طریقے پر مداخلت نہ کی جائے گی اور نہ ہی اس کی عزت اور نیک نامی پر حملے کئے جائیں گے۔ہر شخص کا حق ہے کہ قانون اسے حملے یا مداخلت سے محفوط رکھے۔“جنیوا کنونشن کے مطابق ایسے علاقے جو جنگ کا میدان نہ ہوں ان شہری علاقوں پر طاقت کا استعمال بین الاقوامی اور جنگی قوانین کی کھلم کھلی خلاف ورزی ہے۔مگر یہ کیا ہے کہ ڈرون حملوں پر چپ سادھ لی گئی ہے اور کوئی شور اٹھتا دکھائی نہیں دیتا جس کے نتیجہ میں امریکہ کو معصوم شہریوں کے قتل اور پاکستان کی سالمیت اور خودمختاری کی دھجیاں بکھیرنے پر پاکستانی عوام سے معافی مانگنا اور ڈرون حملے بند کرنے کا اعلان کرنا پڑے۔پاکستان کے ہزاروں قبائلی اپنے جگر گوشوں کی یاد میں خون کے آنسو بہا کر انصاف کے حصول کے لیے دربدر پھر رہے ہیں لیکن یہاں انصاف دینے اور ان کے سروں پر دست شفقت رکھنے والا کوئی نہیں ۔ایک تحقیق کے مطابق پاکستان کے قبائلی علاقوں میں چودہ جنوری دوہزار چھ سے اپریل دوہزار نو تک کئے گئے ساٹھ حملوں میں چھ سو ستاسی معصوم شہری جاں بحق ہوئے تھے جبکہ اس میں القاعدہ کے محض چودہ بندے ہلاک ہوئے۔اس تحقیق کے مطابق ڈرون حملوں کی کامیابی کی شرح چھ فیصد سے زیادہ نہ تھی۔ جبکہ گزشتہ پانچ سالوں کے دوران امریکی ڈرون حملوں میں2043 افراد(جن میں زیادہ تعداد معصوم شہریوں کی ہے)لقمہ اجل بن چکے ہیں۔یہ اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ حقیقت ہے کہ پاکستان پر ڈرون حملوں کا سلسلہ نوبل انعام یافتہ امریکی صدر اوبامہ کے دور حکومت میں بھی جاری ہیں۔

کیا وجہ ہے کہ پاکستانیوں کا خون اتنا سستا ہو چکا ہے؟ امریکی ڈرون حملے کب بند ہوں گے؟سال 2010ء میں امریکی ڈرون حملوں سے1140 پاکستانی شہریوں کی ہلاکتیں ہوئیں۔کیا ڈرون حملوں سے ہونے والی ہلاکتوں میں 2011ء اس سے بھی خوفناک ہو گا؟یہ وہ سوال ہیں جو ہر پاکستانی کے ذہن میں ہیں۔ہمارے حکمران جب تک حقیقی معنوں میں عوام کی جان و مال کی حفاظت اور ملکی مفاد کو اولین ترجیح دیتے ہوئے ٹھوس اور باوقار داخلہ اور خارجہ پالیسیاں مرتب نہیں کرتے ان سوالات کے جواب میں دکھاوے کی لچھے دار تقریروں سے عوام کو اب تسلی دینا ممکن نہیں رہا،جس کی وجہ سے پاکستانیوں کی ذلت و رسوائی کا سفر جاری و ساری ہے۔ اور صد افسوس ان عظیم طاقتوں کے دوہرے معیار پر جو ایک پرندے کی ہلاکت پر تو لرز جاتے ہیں اور پرندے کو ٹھوکر مارنے کی حرکت پر فٹبالر کو معافی کے ساتھ جرمانہ اور معطلی کی سزا برداشت کرنا پڑتی ہے مگر انہیں نام نہاد دہشتگردی کی جنگ میں حصہ بننے کے بعد پاکستان میں خودکش حملوں، ڈرون حملوں اور فوجی آپریشنوں میں ایندھن بننے والے پاکستانیوں کا احساس تک نہیں ہے ۔

پاکستان نائن الیون کے بعد سے مسلسل دہشت گردی کا شکار بنا ہوا ہے ۔ جن مشکل حالات میں آج ہر پاکستانی ہے اور جس تن دہی سے دہشت گردی کا مقابلہ عوام اور فوج کر رہی ہے مغربی دنیا کو چاہیے تھا کہ ہمارے مثبت اقدامات کا اعتراف کرے مگر یہاں تو اعتراف کم اور ڈومور کا تقاضا زیادہ تقویت پکڑتا جا رہا ہے۔اس کی واضح مثال امریکی اخبار نیویارک ٹائمز میں وائٹ ہاؤس کی شائع ہونی والی رپورٹ ہے۔جس میں دہشتگردی کے خلاف پاکستان کی کارکردگی پر کڑی نکتہ چینی کی گئی ہے۔امریکہ اور اتحادی افواج کے افغانستان میں ناکامی کی طرف بڑھتے ہوئے قدم ہوں تو قصور وار پاکستان کو ٹھہرایا جاتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مغرب کے دوہرے معیار کے باعث دوسری اقوام کے مقابلے میں مسلم سوسائٹی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔فلسطین، عراق، افغانستان اور کشمیر ایسے علاقے ہیں جہاں مسلمانوں کو انسانیت سوز اذیتیں پہنچائیں جا رہی ہیں،محکوموں پر جبرو تشدد اور غیر ملکی قبضہ ہے۔ان تمام واقعات سے مسلمانوں کو دیوار کے ساتھ لگایا جا رہا ہے جس کے نتیجے میں دنیا رہنے کے لیے خطرناک ہوتی جا رہی ہے،کیونکہ ہر عمل کا ردِ عمل ضرروت ہوتا ہے ۔یہ مغرب کی مسلمان مخالف پالیسیاں ہی ہیں جس سے دنیا کے امن کو خطرات لاحق ہوچکے ہیں۔ بہت ساری امریکی ریاستوں میں ٹی وی اور ریڈیو پر اسلام کے خلاف زہریلی زبان کا استعمال اور اب چرچ میں قرآن پاک کی بے حرمتی ناقابل برداشت حد تک بڑھ گئی ہے۔ یورپی ممالک میں وقفے وقفے سے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت سے پوری مسلم دنیا کے جذبات مجروح اور دل زخمی ہوتے چلے آرہے ہیں۔انسانی حقوق کے علمبردار بعض یورپی ممالک میں مسلم خواتین کو نقاب اوڑھنے اور مساجد کے مینار کی تعمیر کی مخالفت کسی طور بھی ان کے شایانِ شان نہیں۔ہم یہ نہیں سمجھ پائے کہ مغرب اگر دہشت گردی کا خاتمہ چاہتا ہے تو اسرائیل کو معصوم فلسطینی عوام کا خون بہانے سے کیوں نہیں روکا جاتا؟اقوام متحدہ کے قوانین کے مطابق وہ کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کی اجازت کیوں نہیں دیتا کہ وہ کیا چاہتے ہیں؟مغربی دنیا کو بھارت میں ہندوانتہا پسندی اور غنڈہ گردی کیوں دکھائی نہیں دیتی؟

اقوام متحدہ کے اعلان کردہ انسانی حقوق کی دفعہ 1 میں لکھا ہے کہ ”تمام انسان آزاد اور حقوق و عزت کے اعتبار سے برابر پیدا ہوئے ہیں۔انہیں ضمیر اور عقل ودعیت ہوئی ہے اس لیے انہیں ایک دوسرے کے ساتھ بھائی چارے کا سلوک کرنا چاہیے۔“انسانی حقوق کے معاملے میں کیا یہ مغرب کا دوہرا معیار نہیں کہ انہیں صرف مسلمان ہی دہشت گرد دکھائی دیتے ہیں؟جبکہ مسلمان جس دین کے پیروکار ہیں وہ امن و آشتی کا درس دیتا ہے اور کسی بھی قسم کی دہشت گردی کو جائز قرار نہیں دیتا۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم بھی فٹبال تماشائیوں کی طرح عظیم طاقتوں کے انسانی حقوق کی پامالی اور دوہرے معیار پر عالمی سطح پر اپنی آواز بلند کریں، کیونکہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ہر آئے روز ڈرون حملوں سے کئی محب وطن معصوم پاکستانیوں کا جنازہ اٹھتا ہے۔جہاں پاکستان کی سالمیت اور خودمختاری کی دھجیاں بکھر جاتی ہیں وہاں ملک تباہی و بربادی کے مناظر بھی پیش کر رہا ہے ۔
Hafiz Mansoor
About the Author: Hafiz Mansoor Read More Articles by Hafiz Mansoor: 17 Articles with 16912 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.