پاکستان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ

پاکستان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ

اس ملک میں ہم نے اپنا بچپن گزارا، لڑکپن جوانی اور اب عمر کے آخری دور میں ہیں، ہم نے اپنی زندگی الحمد اللہ بغیر کسی بڑے قرضہ کے گزاری۔ ایک فلیٹ تھا جس پر صرف نو ہزار قرضہ منظور ہوا تھا (یہ تقریبا چالیس سال پہلے کی بات ہے) جسے ہم سے پہلے مالک نے کئی سالوں تک ادا کیا، اس کے بعد ہم نے بھی دس سال اس کا قرضہ بمعہ سود ادا کیا۔ یہ ایک سرکاری ادارے کا قرضہ تھا، جو غریبوں کو فلیٹ/مکان دینے کے لئے بنایا گیا ہے۔ جب ہم نے اس کا حالیہ قرضے کا اسٹیٹمنٹ نکلوایا تو معلوم ہوا کہ جتنا قرضہ لیا تھا اس سے چار گنا ابھی بھی باقی ہے۔ جیسے تیسے ہم نے جہاں ملازمت کرتے تھے وہاں سے قرضہ لیا اور اس ادارے کو ادا کیا۔ اور یہ(کمپنی) کا قرضہ ماہانہ تنخواہ سے منہا ہو کر ایک ڈیڑھ سال میں مکمل بھی ہوگیا۔ بہت شکر ادا کیا۔

اس تمہید کا مقصد یہ ہے کہ اگر کوئی اپنی زندگی میں قرضہ لے لے تو اس کی اولادوں کی اولادیں بھی قرضہ / سود ادا کرتے ہوئے زندگی گزاردیتی ہیں۔ یعنی قرضہ ایک ایسی لعنت ہے جو ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوتی رہتی ہے۔ اور اپنی زندگی قرض خواہ کے اشاروں پر گزارنی پڑتی ہے۔ جتنا سود وہ لگاتے ہیں ہم چپ چاپ دیتے رہتے ہیں۔ شور مچائیں بھی تو کسے سنائیں، وہ ادارہ خود حکومت کا قائم کردہ ہے۔

بالکل اسی طرح ہمارے ملک پر جب تک یورپین ممالک کا قرضہ نہیں تھا ہم خوشحال تھے۔ جس دور کو ہم یاد کرکے موجودہ حالات کے دکھڑے روتے ہیں، یہ وہی دور تھا جب ہمارے ملک پر قرضہ نہیں تھا۔ یورپین، امریکی اور یہودیوں کی ہمیشہ سے ایک طویل مدت پلاننگ ہوتی ہے، اور وہ مسلمانوں کوپریشانی میں ہی دیکھنا چاہتے ہیں۔ اسی وجہ سے ہمارے ملک کے کچھ نادان سیاستدان ان کے ہاتھوں میں کھیلتے ہیں۔ بلکہ کہنا یہ چاہئے کہ ملک کو صدر، وزیراعظم نہیں چلارہے ہوتے بلکہ کچھ ایسے لوگ چلارہے ہوتے ہیں جو یورپین ممالک یا امریکہ کے (نمائندے) ہوتے ہیں۔ کئی مرتبہ ایسے لوگ حکمران بن جاتے ہیں جنہیں عوام جانتی تک نہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی شہریت بھی پاکستان کی نہیں رکھتے، یا دوہری شہریت رکھتے ہیں۔ اب سمجھنا یہ ہے کہ جو شخص امریکی شہریت رکھتا ہو وہ پاکستان سے کیسے مخلص ہوسکتا ہے۔ وہ تو وہی کرے گا جو امریکہ چاہے گا۔اسے کیا غرض کہ ہمارے ملک پر کتنا قرضہ ہے، جبکہ ملک کا بچہ بچہ قرضہ میں ڈوبا ہوا ہے۔

ہاں ہم جب اپنی مرضی سے جی سکتے ہیں جب امریکہ یا آئی ایم ایف کی انکھوں میں انکھیں ڈال کر بات کرنے کے قابل بن جائیں۔ یہ اسی صور ت میں ہوسکتا ہے ۔جب ہم قرضے سے چھٹکارا حاصل کریں۔

اتنی بات تو سمجھ آگئی کہ ہماری کمزوری کہاں ہے۔ دوسری طرف اس دور میں ہمارے سیاستدان، سیاست میں کوئی خدمت کرنے نہیں آتے، وہ صرف اپنا پیٹ بھرنا اور ملک سے باہر زندگی گزارنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اسمبلی میں ایک روپے کی بریانی کھاتے ہیں اور انکی وجہ سے عوام کو اسی درجہ کی دو سو کی بریانی پڑتی ہے۔ ان لوگوں کو گاڑی بنگلہ سمیت تمام آسائیشیں حاصل ہیں اور بچوں کو تعلیم یورپ میں دلواتے ہیں۔ یہ میں پہلی مرتبہ نہیں لکھ رہا بلکہ اخبارات بھرے پڑے ہیں ان باتوں سے۔ میں صرف یاد دہانی کرارہا ہوں۔ اس میں ہماری دینی جماعتیں جو کبھی ان چوروں کا ساتھ دیتی ہیں اور کبھی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا کر احتجاج کررہی ہوتی ہیں۔ جبکہ انکی اپنی پوری فیملی امریکہ میں رہتی ہے۔ ان پارٹیوں کے بڑے کرتا دھرتا سب امریکہ میں مزے لوٹ رہے ہوتے ہیں اور سیاست پاکستان میں کررہے ہوتے ہیں۔ اسمبلی میں لڑائی جھگڑا مارکٹائی دکھاوے کے طور پر کرتے ہیں۔ اور باہر گروپ تصاویریں بنواتے ہیں۔ ہمیں ان دوغلے لوگوں سے بچ کر رہنا ہوگا جب ہم کامیابی سے ہمکنار ہوسکتے ہیں۔

ہم اب تک بھٹو کے سحر سے نہیں نکل سکے، نواز شریف کے چاہنے والے بھی پاکستان میں بہت ہیں، جیالے بھی اپنی سمجھ کے مطابق اپنے لیڈر کا انتخاب کرنے میں ناکام ہیں۔ انہیں ابھی تک یہ فیصلہ کرنا مشکل ہورہا ہے کہ وہ اپنا لیڈر کسی مرد کو چنیں یا اسی کو جو دستیاب ہے۔

ہم ان لیڈروں کو بار بار دیکھ چکے ہیں اور ہر بار وہ نئے طریقے سے ملک کو لوٹنے میں مصروف رہے۔ ان میں زیادہ تر غدار ثابت ہوئے ہیں ۔ہمارے پاس مخلص لوگ نہیں ہیں، کیونکہ سیاست میں کوئی شریف آدمی آنے کے لئے تیار نہیں، کوئی بھی باکردارشخص اس گند میں اپنے آپ کو شامل کرنا پسند نہیں کرتا۔
اس وقت موجودہ حکومت میں بھی وہی پرانے لوگ ہیں، اور آئینگے بھی کہاں سے، کوئی پاکستان سے باہر سے تو نہیں منگواسکتے۔ انہی لوگوں کو ٹھیک کرنا ہوگا۔ اور ساتھ ہی پاکستانی عوام کی بھی تربیت کی ضرورت ہے۔ ہم موجودہ حکومت کو مہنگائی کا ذمہ دار ٹھیرا رہے ہیں اتنی آسان سے بات سمجھ نہیں آرہی کہ کیا دھرا سب سابقہ حکومتوں کا ہے۔ عمران خان بیک وقت اپنی کرپٹ ٹیم کو بھی ٹھیک کرنے میں لگا ہے اورمزید اسکا سامنا کئی محاز پر ہے جیسے ،کرپٹ سیاستدان، کرپٹ بیوروکریٹس، کرپٹ میڈیا ، غلط پروپیگنڈا ، اورسرکاری اداروں کے وہ رشوت خور لوگ جو عوام میں منفی پروپیگنڈا کر رہے ہیں۔ اگر اس وقت اس حکومت کو چلنے نہیں دیا تو کبھی بھی کوئی مخلص شخص نہیں مل سکے گا۔ ہم ایرے غیرے تجزیہ نگاروں کو سن کر ان کی باتوں میں آجاتے ہیں۔ سنجیدہ اور مخلص تجزیہ نگاروں کو سننا پسند نہیں کرتے۔ اس وقت حکومت کو برا بھلا کہنے سے بہتر تھا کہ پہلے کی حکومتوں سے پوچھتے ، آج سب کو زبان میسئر آگئی ہے۔ اس وقت ساری قوم گونگی تھی، میڈیا کو بھی مال سے نوازا جارہا تھا ۔

ہمارے ملک کا میڈیا دوسری دنیا کے میڈیا کی طرح پاور فل ہے۔ لیکن یہ اپنی طاقت صرف اپنے لئے استعمال کررہے ہیں۔ یہ اسلام کی تقریبا مخالف سمت میں چل رہے ہیں۔ جن خبروں کی تشہیر اسلام نے منع کی ہے وہ اپنی دکان اسی پر سجا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ جبکہ دوسرے اسلامی ممالک میں خبریں حکومت سے چھٹ چھٹا کر اخباروں میں آتی ہیں۔ ہم ستر سالوں میں ایک قوم نہیں بن سکے۔ میڈیا یہ کام کرسکتا ہے۔ میڈیا کو اپنی طاقت اس پر صرف کرنا چاہئے کہ ہم سب ایک ہوجائیں، تعصب تو ختم نہیں ہوسکتا جب تک ہر شخص اپنے آپ کو ٹھیک کرنے کا ارادہ نہ کرے۔ تعصب ایک ایسا بیج ہے جو بڑے صوبے کا بویا ہوا ہے۔ اسے چاہئے کہ دوسرے چھوٹے صوبوں کو بھی اپنے ساتھ ملا کر چلائے۔ میڈیا اس کام میں دلچسپی لے تو یہ بہتر طریقے سے ہوسکتا ہے، ساتھ ہی ساتھ دشمن ملک کی جڑیں جو ہمارے ملک میں قائم ہیں انہیں ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔کراچی کے ساتھ ہونے والی ذیادتی کو بھی سنجیدگی سے حل کیا جائے۔ اس شہر پر بے پناہ بوجھ کو روکا جائے۔ہمارے ملک کی عدالتیں بھی اس ملک کی ترقی میں بڑی رکاوٹ ہیں۔میڈیا کا دانہ پانی رکنے سے وہ غلط اور منفی پروپیگنڈا حکومت کے خلاف کررہا ہے۔مہنگائی ہوئی ضرور ہے لیکن اتنی ہی جتنی ہمیشہ سے ہوتی آرہی ہے۔ لیکن پروپیگینڈا مہنگائی کے خلاف زیادہ کیا جارہا ہے۔مہنگائی سے وہ طبقہ پریشان نہیں جو ملٹی نیشنل کمپنیوں میں ، بینکوں میں یا حقوق دینے والے اداروں میں کام کرتے ہیں ۔ جو لوگ انڈسٹریز ، سرمایادار، صنعت کاروں کے پاس کام کرتے ہیں ان کے حقوق دینا تو درکنار ان کی بنیادی ضروریات بھی نہیں دے رہے۔ وہ کاروباری اور بزنس مین زیادہ ظلم کررہے ہیں جو اپنے ورکروں کو بنیادی تنخواہ ، میڈیکل ، سالانہ چھٹیاں ، بونس وغیرہ سے محروم رکھے ہوئے ہیں۔حکومت سے زیادہ یہ طبقہ عوام پر ظلم کررہا ہے۔اور ان کو چھوٹ دینے والے ہمارے ہی لوگ رشوتیں لے کر اپنا ا ور صنعتکاروں کا دوزخ بھر رہے ہیں۔بزنس مین کبھی نقصان میں نہیں رہتا وہ اپنا الو سیدھا کرلیتا ہے۔میڈیا جو اتنا مہنگائی پر شور کررہا ہے وہ اپنے ملازمین و ورکر کو کئی کئی مہینے تنخواہ سے محروم رکھتا ہے ۔زرا یہ اپنے گریبان میں بھی جھانکیں۔حکومت کو بلیک میل کرتے ہیں ۔آج ان کی آزادی بند کردی جائے تو ملک میں چین اور سکون ہوجائے گا۔

اب ہمارے پاس گھسے پٹے سیاستدانوں کے بعد ایک ہی راستہ ہے جو ہمیں بہ نسبت پچھلے حکمرانوں کے بہتر نظر آتا ہے اور اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی اور راستہ نہیں ۔ہمیں اس حکومت کو کچھ وقت دینا پڑے گا۔ اور ہماری پہلی ضرورت یہ ہے کہ ہم اپنا قرضہ کم کریں۔ جس کے لئے یہ حکومت اپنی کوششیں کر رہی ہے۔ ان سب ممالک میں جہاں ہمارے ملک جیسا یا اس سے برا حال تھا وہاں کئی سال لگے جب جاکر ان ممالک میں کرپشن ختم ہوئی مہنگائی انہوں نے بھی برداشت کی اور سالوں کی ۔ بس ایک بات وہاں مختلف تھی کہ انہوں نے کرپٹ لوگوں کو لٹکایا بھی اور سزائیں دیں، جو ہم یورپین ممالک اور عرب ممالک کے پریشر کی وجہ سے نہیں کرپارہے۔ اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم قرض کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں ،ہندوستان جیسا ملک بھی دوسرے ممالک کو نہیں ٹکرایا ۔ ہمیں اس سے بھی نبرد آزما ہونا ہے اور اسکے بوئے ہوئے بیج یہاں کے تمام سرکاری اداروں اور سیاسی تنظیموں اور میڈیا میں پھیلے ہوئے ہیں ۔ اور مزید یہ کہ کرپٹ سیاستدان علیحدہ ٹانگیں کھینچنے میں لگے ہوئے ہیں۔مجرموں کو سزائیں ہم جب ہی دے سکیں گے جب ہم اپنے قرض اور سود در سود سے جان چھڑالیں۔لیکن عوام جذباتی ہورہی ہے سمجھدار اورپڑھا لکھا طبقہ یہ بات سمجھ رہا ہے لیکن کچھ لوگ "میں نہ مانوں" پر بضد ہیں ۔تھوڑا انتظار کرنے میں کیا قباحت ہے ، ابھی بھٹو زندہ ہے، بلاول ، مریم نواز ہے۔فضل الرحمان ہے۔ اگلی مرتبہ پھر چوروں کو لے آئینگے۔پھر تباہی کے ذمہ دار حکمران نہیں بلکہ وہ عوام ہوگی جو آج زیادہ بڑ بڑ کر رہی ہے۔ ہمیں صرف دوسروں کا مذاق اڑانا آتا ہے ، خود کوئی صلاحیت ہے نہیں بس میڈیا کی بے فضول باتوں میں آکر گلی گلی عمران خان کو برا بھلا کہتے رہتے ہیں۔وہ ایک واحد شخص ہے جس کی اپنی جائدادیں باہر کسی ملک میں نہیں اور ملک سے مخلص بھی ہے۔ اس کی کامیابی اس کی ایمانداری اور ملک سے وفا داری ہے ، اسے قدرت کی طرف سے یہ موقعہ دیا گیا ہے اور وہی اسے کامیاب کرے گی ،اسے کھونے کے بعد عوام روئے گی۔آخری بات یہ کہ مہنگائی صرف ان کے لئے ہے جو تاجروں کے ملازم ہیں یا روزانہ کی دیہاڑی پر کام کرتے ہیں۔اور انکی دیہاڑی ان کے مالکان ضرورت کے مطابق نہیں دے رہے۔اصل مجرم صنعت کار ہیں۔

ہماری دینی تعلیم تو یہ ہے کہ ہم ہر لمحہ اپنے رب کا شکر ادا کریں ۔ جبکہ ہم میں سب سے زیادہ اسی چیز کی کمی ہے۔ اگر ہم اللہ کے شکر گزار بندے بن جائیں اور خرافات سے بچیں تو مہنگائی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ہم اپنے دوسرے فضول اخراجات سے پرہیز کرنا شروع کردیں تو بھی ہم مہنگائی پر قابوپاسکتے ہیں۔ زیادہ تر مہنگائی کا ڈرامہ کیا جارہا ہے۔اس میں درمیان کے لوگ اپنا منفی کردار ادا کر رہے ہیں ۔ہم اپنی ترقی کی راہ میں رکاوٹ کے ذمہ دارخود بھی ہیں۔

Abdul Razzaq
About the Author: Abdul Razzaq Read More Articles by Abdul Razzaq: 16 Articles with 10414 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.