انہونیاں
(یہ کالم ان دنوں لکھا گیا جب ٹرمپ اور کم جان کی ملاقات ہو نے والی تھی)
یوں تو دنیا میں ہمہ وقت انہونیاں وقوع پذیر ہوتی رہتی ہیں لیکن اکیسویں
صدی کے دوسرے عشرے کے اختتام پر عالمی حالات کچھ اس نہج پر جارہے ہیں کہ ہر
صاحب ِ شعور انگشت بدنداں ہے اور سوچنے پر مجبور ہے کہ کیا دنیا واقعی
تیسری عالمگیر جنگ کے دہانے پر کھڑی اس کے آنے کی ساعتوں کی منتظر ہے۔سال
2018 ء کے آغاز کے ساتھ ہی دنیا نے دیکھا کہ دنیا کے سب سے بڑے ٹھیکیدار
امریکہ کے صدرڈونلڈ ٹرمپ (Donald Trump)نے اپنے سب سے بڑے حریف شمالی کوریا
کے رہنما کِم جانگ اَن (North Korean leader Kim Jong) سے مئی میں ملاقات
کرکے دنیا کو حیران کر دینگے۔ شمالی کوریا(Democratic People's Republic of
Korea)دوسری جنگ عظیم کے بعدیکم مئی1948ء کومعرضِ وجود میں آیا۔اپنے قیام
کے بعد اس ملک نے فوجی میدان میں بے پناہ ترقی کی اور یہ پہلا ملک تھا جس
نے مارچ 1993ء میں جوہری عدمِ پھیلاؤ کے معاہدے Non-Proliferation Treaty)
(Nuclear سے نکلنے کا اعلان کیا۔نوے کی دہائی سے شمالی کوریا اور امریکہ کے
تعلقات نہایت گھمبیر رہے ہیں اور دونوں ملک ایک دوسرے کو دھمکاتے رہے ہیں
لیکن صدر ٹرمپ نے تو صدارت سنبھالتے ہی شمالی کوریا کو الٹی میٹم دے دیا کہ
”وہ شمالی کوریا کو ایسا سبق سکھائیں گے کہ وہ یاد کرے گا، شمالی کوریا کو
آگ و غصے کا سامنا کرنا ہو گا جسے دنیا نے پہلے کبھی نہیں دیکھا ہو گا“۔اس
بیان کے آتے ہی شمالی کوریا نے بھی ایسے میزائل بنانے کا دعوٰی کر دیا جن
سے بحر الکاہل میں امریکی جزیرے گوام (Guam) کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔اس
بیان کے منظرِ عام پر آتے ہی امریکی پالیسی میں تبدیلی آئی اور اب مئی میں
مذاکرات کے دروازے کھلنے جارہے ہیں۔ ایسا ہونا واقعی میں اپنی نوعیت کی ایک
انہیونی ہو گا۔ ایک انہونی تو پاکستان میں بھی وقوع پذیر ہونے والی ہے لیکن
ابھی اس کے تانے بانے بنے جارہے ہیں۔اس انہونی کو نہ صرف اہلیانِ پاکستان
دیکھیں بلکہ دنیا کے لیے بھی دھچکہ ہو گا۔ آثار بتا رہے ہیں کہ پاکستان کے
ایک ادارے کی ضرورت سے زیادہ فعالیت اس ملک کو کہیں ایک بار پھر۔۔۔چلیں اسے
آنے والے وقت پر چھوڑتے ہیں کہ کہیں ہم بھی توہین توہین کے کھاتے میں نہ
ڈال دیے جائیں کیونکہ آج کل پاکستان میں ہر روز توہین توہین کھیلا جاتا ہے۔
ابھی تو عافیت اس میں ہے کہ پاکستان جمہوریت کے لفظ کے ساتھ دنیا میں
پہچانا جاتا ہے وگرنہ اہلِ مغرب کوخوب معلوم ہے کہ پاکستان کی بامِ اقتدار
کہاں اور کس کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور ہو بھی کیوں نہ آخر پاکستان اسلام کے
نام پر معرضِ وجود میں آیا تھا تو اس ملک میں اسلام ہی کی حکمرانی ہونی
چاہیے۔ فیض آباد دھرنا بھی اپنی قسم کی ایک بڑی انہونی تھی اور اب وہی
دھرنا جس کا آغاز جہاں سے ہوا تھا وہیں پھر پہنچ چکا ہے۔ عدلیہ اور
انتظامیہ بے بس ہیں اور ہوں کیوں نہ کہ دھرنے والوں کے پاس اس کی مناسب
وجوہ بھی ہیں۔ ایک طرف عدلیہ کا فرمان تو دوسری طرف انتظامیہ کا وعدہ،اب
دیکھنا ہے کہ اس انہونی کا اختتام کیا اور کیسے ہو تا ہے۔ویسے جب اسلام
آباد کا معاہدہ لکھا جارہا تھا تو عدلیہ تو تب بھی پاکستان میں موجود تھی
اور یہ بھی سب پر اظہر من الشمس ہے کہ ضامن کون تھا؟
جب سے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے فلسطینیوں کے بہائے جانے والے
خونِ ناحق کو ایران دشمنی میں فراموش کرکے اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار
کرنے کا عندیہ دیا ہے اور یہ اعلان کیا ہے کہ اسرائیل کو اپنی سرزمین پر
رہنے کا حق ہے، تب سے عالم اسلام میں ایک اضطرابیت پائی جاتی ہے۔آزاد یئ
فلسطین کے بنا سعودی عرب کا اسرائیل کو تسلیم کرنے کا عندیہ ایک طرف امتِ
مسلمہ کو یہ سوچنے پر مجبور کر رہاہے کہ کیا خادمِ حرمین شریفین نے اپنے
سارے اختیارات ولی عہد کے حوالے کردیے یا ولی عہد نے ان اختیارات کو اپنے
ہاتھ میں لے لیا ہے؟ اگر سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کر لیتا ہے تو یہ اس
صدی کی سب سے بڑی انہونی ہو گی اور مملکتِ خداداد پاکستان کے حکمرانوں کو
بھی سوچنا ہو گا کہ آخر سعودی اتحاد میں شریک ہونے سے پاکستان کو کیا حاصل
ہوا؟ ایران ہمارے سرہانے بیٹھا ہے اور ہم نے خطے کے اس اہم ملک کو فراموش
کرکے اس کے خلاف بنائے جانے والے اتحاد میں شریک ہو کر امتِ مسلمہ کی کونسی
بھلائی کی ہے؟حالات بتا رہے ہیں کہ جس طرح آئے دن یمن سے سعودی سرزمین پر
میزائل داغے جارہے ہیں اگر ایک دن طیش میں آکر ایران نے یہ روش اختیار کر
لی تو پاکستان کہاں کھڑا ہو گا؟ کیونکہ پاکستان پہلے سے بھارت اور اس کے
ہمنوا افغانستان میں گرا ہو اہے۔
|