صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ فلسطین اسرائیل امن معاہدہ ایک بہت
بڑی کامیابی ثابت ہو گا جو اگلے 80 سال تک چلے گا، لیکن حیرت انگیز طور پر
زمینی حقائق کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ سوال خود بخود ذہن میں ابھرتا ہے
کہ یہ پلان اگلے 80 منٹ کے لئے بھی قابل عمل ہو گا یا نہیں۔ کیونکہ عالمی
مسائل پر گہری نگاہ رکھنے والے تجزیہ کاروں کے مطابق اس منصوبہ کا سیاسی
حصہ آتے ہی ختم ہو گیا کیونکہ فلسطینیوں نے اسے یکسر رد کر دیا اور وہ اس
میں حق بجانب بھی ہیں۔
اس نام نہاد امن منصوبے کی رہی سہی ساکھ اس طرح ختم ہو جاتی ہے کہ امریکی
سینٹ کے 100 سے زائد ارکان اسے مسترد کر چکے ہیں اور وائٹ ہاوس کے سابق
اہلکار اسے پہلے ہی فضول قرار دے چکے ہیں۔ ملائشیا، ترکی، فلسطین اور ایران
کے بعد او آئی سی،عرب لیگ نے بھی اسے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا ہے۔
اس مسترد شدہ منصوبے کے کوئی پچاس صفحات پر سیاسی حل تلاش کرنے کی کوشش کی
گئی ہے جو صدر ٹرمپ کے داماد جئرڈ کشنر کی ہے۔ کشنر نہ ہی کوئی پالیسی ساز
ہیں اور نہ ہی کہنہ مشق سیاستدان، محض 39 برس کے یہودی النسل بزنس مین ہیں
جنہیں داماد ہونے کے ناطے صدر ٹرمپ نے سینئر مشیر کی کرسی پیش کر دی۔ مسئلہ
فلسطین جو 72 سال پرانا مسئلہ ہے کتنی ہی قدآور شخصیات اس کو حل نہیں کر
پائیں ، اسے کارزار سیاست میں نئے داخل ہونے والے کشنر کیسے حل کر سکتے
ہیں۔لہذا جس بچگانہ اور غیر ذمہ دارانہ انداز میں اس پیچیدہ مسئلے کو حل
کرنے کا بھونڈا قصد کیا گیاہے ، اسے ایسے ہی ناکام ہونا تھا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مسئلہ فلسطین ان نازک مسائل میں سے ایک ہے جو
ریپلیکن اور ڈیموکریٹک دونوں پارٹیوں کے صدور کے لئے درد سر رہے ہیں۔چور
مچائے شور کے مصداق اسرائیلی واویلا کرتے ہیں کہ انہیں سکیورٹی کے مسائل کا
سامنا ہے جبکہ وہی اسرائیلی روزانہ کسی فلسطینی خاندان کو بے گھر کر رہے
ہیں ،قید کر کے شدید ترین تشدد کرتے یا پھر ویسے ہی مار دیتے ہیں۔ نہتے اور
لاچار فلسطینی سوائےاحتجاج کے کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ صدرٹرمپ کا امن کے نام
پر ظلم کا یہ مسودہ اسی خاموشی اور اسرائیلی ظلم و بربریت کو سہنے پر مہر
لگانے کے مترادف ہے۔
اس امن معاہدے کی سیاسی حکمت عملی اسرائیلی سکونت کے مستقبل کے بارے میں
اظہار خیال کرتی ہے، اس بات پر بھی روشنی ڈالتی ہے کہ کس طریقے سے فلسطینی
مشروط طور پر ایک ریاست بنائیں گے اور اسرائیل کے سکیورٹی خدشات پر امریکی
رائے کیا ہو گی؟اس امن معاہدے میں جس بات کا حل نہیں وہی اصل بات ہے۔ یہ
مسودہ اس بات سے انکاری ہے کہ مہاجر فلسطینی اسرائیل میں اپنے آبائی مقام
پرواپس لوٹیں گے۔ فلسطین کی آزاد ریاست کو اس بات کی اجازت نہیں ہو گی کہ
وہ اپنی فوج بنا سکیں کیونکہ اس سے وہ اسرائیل کو دھمکی دے سکتے ہیں یا
اسرائیلی مظالم کے خلاف اپنا دفاع کر سکتے ہیں۔ تیسری بات یہ کہ فلسطینیوں
کو یروشلم میں کوئی با معنی یا قابل ذکر علاقہ بھی نہیں دیا جائے گا یعنی
مسلمان قبلہ اول بیت المقدس سے بے دخل ہو جائیں گے۔
فی الحال یہ مسودہ ان تمام اصل باتوں کو نظر انداز کر گیا ہے جو فلسطینیوں
کے اصل مسائل ہیں۔ یہ سارا منصوبہ فلسطینیوں کی رائے کے بغیر ہی بنا لیا
گیا لہذا یہ اسرائیل ہی کے تمام مفادات کا تحفظ کرتا ہے ۔ اس کی رونمائی کی
تقریب میں نیتن یاہو اور ٹرمپ تھے ،کوئی فلسطینی نہںہ بلایا گیا ایسا
فلسطینی مطالبات کو دبانے کے لئے کیا گیا مگر مستقبل میں انہیں دبانا ممکن
نہ ہو گا۔
کچھ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ یہ سب کچھ اس لئے کیا گیا کہ نیتن یاہو کے
لئے مارچ میں انتخابات کا مشکل مرحلہ آرہا ہے اور یہ منصوبہ اس کے ووٹ بنک
میں اضافہ کا سبب بن سکتا ہے۔ اگر یہ’ صدی کا بہترین معاہدہ’ خلوص پر مبنی
ہوتا تو لازمی اس میں فلسطینی قیادت کو شامل کیا جاتا۔ ٹرمپ نے خود ہی اسے
اپنی بہادری قرار دیا اور نیتن یاہو نے ٹرمپ کو اس بات پر داد دی کہ وہ
دنیا کا پہلا لیڈر ہے جس نے اسرائیل کی ان علاقوں پر ملکیت کا اقرار کیا ہے
جو اس کی سکیورٹی اور اس کی ثقافت کے لئے مرکزی حیثیت کے حامل ہیں۔یاد رہے
کہ یہ وہی علاقے ہیں جو اسرائیل نے زبردست فلسطینیوں سے اور عربوں سے چھین
رکھے ہیں۔
ٹرمپ اور نیتن یاہو،دونوں کی ایک دوسرے کی بے جا تعریف کے بعد ابھی یہ واضح
نہیں کہ اس معاہدے کا حشر کیا ہو گا۔مڈل ایسٹ اور یورپ اسے تسلیم کریں گے
یا نہیں جب کہ فلسطینی اسے سنتے اور دیکھتے ہی رد کر چکے ہیں۔یہ ایک یک
طرفہ معاہدہ ہے جسے جئرڈ کشنر نے اسرائیل کی حمائت کے لئے پیش کیا ہے۔واضح
رہے کہ یہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے بھی خلاف ہے۔
اس معاہدے پر اگر عمل درآمد ہوتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ آج تک
اسرائیل نے جو بھی مظالم ڈھائے ہیں جتنے بھی فلسطینیوں کو بے گھر کیا ہے
جتنے بھی علاقوں پر ناجائز قبضہ کیا ہے وہ سب درست عمل تھا اور فلسطینی ایک
برائے نام ریاست تک محدود رہ جائیں جس میں انہیں خود کو ہی کوئی اختیار
حاصل نہ ہو۔ نہ ان کی فوج ہو نہ وہ اسلحہ رکھ اور خرید سکیں نہ ہی انہیں
اپنے غصب شدہ حقوق اور علاقے ملیں گے۔
قصہ مختصر کہ یہ معاہدہ فلسطینیوں کے مقاصد کو زک پہنچانے اور ان کے آزاد
فلسطین کے مشن کو ختم کرنے کا اوچھا ہتھکنڈہ ہو گا۔ اس منصوبے کی کامیابی
ہی در اصل امن کے لئے بہت بڑا خطرہ ثابت ہو گی کیونکہ فلسطینی اپنے جائز
حقوق کیلئے تمام تر مشکلوں کے باوجود ڈٹے ہوئے ہیں ، خواتین، بچے ، بوڑھے
اور جوان اپنا خون دینے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ کیا مستقبل میں اس منصوبے
پر عملدرآمد ممکن ہو گا، جیسا ٹرمپ یا نیتن یاہو چاہتے ہیں، یقینا نہیں،
یہ خطے کو ایک بڑی جنگ کی جانب دھکیلنے کی جانب قدم ہو گا جو انسانیت کیلئے
تباہی اور دنیا کے امن کو تہ وبالا کر دے گا کیونکہ دنیا بھر کے مسلمان
اپنے قبلہ اول کو کسی صورت دشمن کے حوالے نہیں کر سکتے۔
|