آہستہ آہستہ عوامی حلقوں میں یہ تاثر پھیلتا جا رہا ہے کہ
موجودہ حکومت اپنی پالیسیوں میں ناکام ہو چکی ہے۔ جن کی بنیادی وجوہات میں
مہنگائی ، بیڈ گورننس اور حکومتی عہدیداران کا غیر سنجیدہ رویہ شامل ہے۔
اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کا آسمان سے باتیں کرنا اور ہر معاملے پر حکومتی
یوٹرن جلے پر نون چھڑکنے کے مصداق ہیں۔ پچیس جولائی 2018 ء سے عوام کی
آنکھوں میں خوش حالی کا ایک ہی خواب بسا ہوا ہے ، وہخود کو اور معاشرے کو
خوش حال دیکھنا چاہتے ہیں کیوں کہ مسند اقتدار پر برا جمان ہونے کے بعد ہی
سے حکومت غریب عوام سے خوش حالی کے وعدے کرتی چلی آرہی ہے ، یعنی حکومت
عوام کی فلاح وبہبود اور خوش حالی کے لئے کچھ کرنا چاہتی ہے۔ وزیر اعظم
عمران خان کو آج کل یہ کہتے سنا جا سکتا ہے کہ اسے کم آمدن والے اور کم
تنخواہ دار طبقے کی مشکلات کا احساس ہے اور وہ ہر آنے والی سہہ ماہی ،
ششماہی ، نوماہی اور سال کو خوش حالی کی اُمید قرار دیتا ہے۔ جیسا کہ فیض
احمد فیض ؔ فرماتے ہیں۔
دل نااُمید تو نہیں ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے
لیکن بد قسمتی یہ شام تمام ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے۔اس سلسلے میں حکومت
کی تمام حکمت عملیاں اور کاوشیں ناکامی سے دوچار ہیں اور حکومت کے لئے
موجودہ حالات و واقعات واقعی پریشان کن ہیں کیوں کہ حالات آئے روز سلجھنے
کی بجائے الجھتے جا رہے ہیں اور عوام آنکھوں میں بسائے اُن خوابوں کو کچلنے
کا سوچ رہے ہیں۔ بقول شاعر۔
کچل کے پھینک دو آنکھوں میں خواب جتنے ہیں
اسی سبب سے ہیں ہم پر عذاب جتنے ہیں
بعض عوامی حلقوں کا یہ تاثر ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے پاس ’ اے ‘ ٹیم
موجود نہیں ہے اور وہ ’بی ‘ ٹیم کے ساتھ میدان میں کھیل رہی ہے جس کو
ناتجربہ کار یعنی بے بی ٹیم بھی کہا جاتا ہے۔ اگرچہ عمران خان الیون کو
دیکھا جائے تو بعض کھلاڑی نہایت سینئر اور تجربہ کار ہیں لیکن سیاست تو ہر
جگہ موجود ہوتی ہے اور شاید یہاں سیاست میں سیاست کا معاملہ ہے۔ پاکستان کی
تہتر سالہ تاریخ دیکھی جائے تو آپ کو ہر حکمران کے ساتھ ٹیمیں بدلتے کھلاڑی
نظر آئیں گے۔ یہ وہ حقیقت ہے جس سے چشم پوشی ممکن نہیں ہے اور یہ سب جانتے
ہیں بلکہ خوب جانتے ہیں۔ جیسا کہ داغ ؔ دہلوی فرماتے ہیں۔
کہوں حال دل تو کہیں اس سے حاصل
سبھی کو خبر ہے سبھی جانتے ہیں
اقتدار میں آنے سے قبل کا سو دن کا پلان ہو یا اقتدار میں آنے کے بعد کے
بیانات ہوں ،وزیراعظم کے ارادوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ وطن عزیز کے لئے بہت
کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ تعلیمی اصلاحات ، صحت و ہسپتالوں کی حالت زار کے حوالے
سے اصلاحات ، پٹوارخانے کے فرسودہ نظام کی کمپیوٹرائزیشن ، مختلف میگا
پروجیکٹس کی شروعات ،کھیل و سیاحت کا فروغ ، احتساب کا شفاف عمل ، اداروں
میں میرٹ کی بالادستی ، انتخابی اصلاحات اور بہت کچھ۔۔۔ لیکن گزشتہ اٹھارہ
ماہ کی حکومتی کارکردگی کو دیکھا جائے تو وہ نہ صرف ساکن و جامد کھڑی ہے
بلکہ گراؤٹ و تنزلی کا شکار ہے۔ عوام کو یہ پلان اور بیانات محض خواب لگنے
لگے ہیں جن کی تعبیر صرف مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن نظر آنے لگی ہے کیوں کہ
بقول منیر نیازی خواب دیکھنے کے لئے ہوتے ہیں ، رہنے کے لئے نہیں۔
خواب ہوتے ہیں دیکھنے کے لئے
ان میں جا کر مگر رہا نہ کرو
یہ بات ٹھیک ہے کہ خواب دیکھنے کے لئے ہوتے ہیں ، رہنے کے لئے نہیں اور
آنکھیں کھل جانے سے خواب میں پایا بھی کھو دیا جاتا ہے۔ جیسا کہ سراج
لکھنوی فرماتے ہیں۔
آنکھیں کھلیں تو جاگ اُٹھیں حسرتیں تمام
اس کو بھی کھو دیا جسے پایا تھا خواب میں |