رعونت کے پہاڑ امیت شاہ کا بہار، کرناٹک ،مدھیہ پردیش اور
راجستھان وغیرہ کی مثال دے کر یہ اعتراف کرنا کہ’’ نہ ہم پہلی بار لڑے ہیں
اور نہ ہمارے مخالف نتائج آئے ہیں‘‘ بہت اہم ہے ۔ انہوں نے بتایا دوسری
جماعتیں صرف اقتدار کے لیے انتخاب لڑتی ہیں لیکن ہم ایک نظریاتی گروہ ہیں ۔
ہم صرف فتح و شکست کے لیے نہیں لڑتے۔ یہ بات اگر درست ہے تو وہ بتائیں کہ
مفتی محمد سعید کے ساتھ پی ڈی پی کی حکومت میں شمولیت کیوں اختیار کی گئی؟
نتیش کمار کو بلیک میل کرکے اپنے خیمے میں کیوں داخل کیا گیا ؟ مہاراشٹر
میں اجیت پوار کے ساتھ حلف برداری کیوں کی؟اروناچل میں سارے کانگریسیوں کو
خرید کر ان کے ساتھ حکومت کیوں بنائی ؟ گوا اور کرناٹک میں حزب اختلاف میں
بیٹھنے کے بجائے سام دام دنڈ اور بھید کا استعمال کرکے ناجائز طریقہ پر
اقتدار پر کیوں قبضہ کیا ؟ امیت شاہ کو اپنے افکار بیان کرنے سے قبل اپنے
اعمال کا بھی جائزہ لینا چاہیے تاکہ قول و عمل کا تضاد خود ان کی اپنی ذات
پر واضح ہوجائے۔ امیت شاہ ایک طرف کہتے ہیں کہ نتائج سے نظریات غلط یا صحیح
نہیں ہوسکتے لیکن ایوان پارلیمان میں اپنی ہر دھاندلی کے حق میں یہی جواز
پیش کیا جاتا ہے کہ اکثریتی جماعت کاہر فیصلہ حق بہ جانب ہے ۔ اس کی مخالفت
کرنے والا ملک دشمن اورغدارِوطن ہے۔
امیت شاہ نے انٹرویو میں کہا کہ ہمارا کام پارٹی کے نظریات کو لے کر عوم کے
سامنے جانا ہے۔ دلائل کے ساتھ زیادہ سے لوگوں تک نظریات پہنچانا ہے اور
انتخاب کے ذریعہ اس کی توسیع کرناہے ۔ یہی کارِ خیر تو انہوں نے اور ان کے
ساتھیوں نے دہلی کے انتخاب میں زور شور سے کیا۔ کپل مشرا نے الیکشن کو
ہندپاک میچ بنادیا اور وہ ہارنے کے بعد بھی اس موقف پر قائم ہے۔ دہلی اکائی
کے صدر اور مرکزی وزیر نے شاہ کی موجودگی میں ’دیش کے غداروں کو گولی مارو
سالوں کو‘ کا نعرہ لگایا اور اسے سن کر وہ مسکراتے رہے۔ یوگی جی پاکستان ،
بریانی، گولی اور بولی کا راگ الاپ کر چلتے بنے ۔ کیا یہی تو سنگھ کے
نظریات ہیں جن کی ترویج و اشاعت کی گئی ؟ دلائل یہ دیئے گئے کہ کیجریوال
شاہین باغ کا حامی یا اربن نکسل ہی نہیں بلکہ دہشت گرد بھی ہے لیکن جب یہ
حربہ ناکام رہا تو شاہ جی کہتے ہیں کہ ایسا نہیں کیا جانا چاہیے تھا ۔ یہ
کیسی منافقت ہے کہ سیاسی فائدے کے لیے نفرت کی آگ بھڑکائی جائے اور جب اس
سے خاکستر ہوجانےبعد توبہ کرلی جائے ۔ ایسے لوگوں کی حالت پر معروف نغمہ
’سب کچھ لٹا کہ ہوش میں آئے تو کیا کیا ‘ صادق آتا ہے۔
امیت شاہ کو پرویش کمار کے اس بیان پر بھی اعتراض نہیں ہے کہ جس میں شاہین
باغ کے مظاہرین سے گھروں میں گھس کر ماں بہن کی عصمت دری کرنے کا اندیشہ
ظاہر کیاگیا ۔ شاہ کے خیال میں اگر پرویش کمار کسی کے گھر میں گھس کر ماں
بہن کی آبروریزی کرنے کے لیے کہتے تب جاکر وہ قابلِ مذمت ہوتا ۔ امیت شاہ
کو راہل گاندھی کے ذریعہ مودی کو ڈنڈا مارنے کے بیان پر افسوس ہے لیکن اس
کے بارے میں بھی یہی کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے خود ڈنڈے سے مارنے کے بارے
میں نہیں کہا بلکہ اس اندیشے کا اظہار کیا کہ ملک کا بیروزگار نوجوان وزیر
اعظم کو مارے گا۔ شاہ نے کہا اس طرح کے بیانات نہیں دیئے جانے چاہیے تھے ۔
پارٹی نے خود کو اس سے الگ کیا تھالیکن لوگ ان مگر مچھ کے آنسووں سے متاثر
نہیں ہوئے۔ پارٹی کا صرف ان بیانات سے اپنے آپ کو الگ کرنا کافی نہیں ہے
بلکہ بیان دینے والوں کو پارٹی سے یا کم ازکم مہم سے الگ کیا جانا ضروری
تھا لیکن ایسی کوئی کارروائی دکھائی نہیں پڑی ۔ الیکشن کمیشن نے تو ان
لوگوں پر پابندی لگائی لیکن پارٹی کی جانب کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔
امیت شاہ نے اس معاملے کو یہ کہہ کر ہلکا کرنے کی کوشش کی انتخاب میں ہر
کارکن کچھ نہ کچھ بول جاتا ہے لیکن کیا مرکزی وزیر مملکت برائے خزانہ منوج
تیواری جو نہ صرف پارٹی کے صوبائی صدر کوئی عام کارکن ہے۔ پرویش ورما جو فی
الحال رکن پارلیمان اور سابق وزیراعلیٰ کے بیٹے کے یہی سنسکار ہیں۔اترپردیش
کے وزیراعلیٰ چار دنوں تک دہلی میں گھوم گھوم کر اشتعال انگیزی کی اجازت
کیوں دی گئی؟پارٹی نے ان پر کارروائی تو دور منع تک نہیں کیا ۔ وہ تو خیر
بی جے پی ہار گئی ورنہ کامیابی کا سہرہ اسی شاہ ، تیواری اور یوگی کے
سرباندھا جاتا ہے۔ ساری بدمعاشی حق بہ جانب ٹھہرتی ۔ دوسروں پر تنقید کرنے
والے امیت شاہ نے شاہین باغ پر اپنے بیان کو جائز ٹھہراتے ہوئے کہاکرنٹ کے
معنیٰ کسی کو جھٹکا دینا نہیں ہوتا بلکہ عوام کو سمجھانے کے لیے یہ جملہ
کہا گیا کہ جیت کا تعلق ایک سوچ سے ہے ۔ اس لیے اپنے ووٹ کا خیال کریں ۔
عوام نے سوچ سمجھ کر شاہ سمیت بی جے پی کو جھاڑو کا جھٹکا دے دیا۔
شاہ جی نے تسلیم کیا کہ جس طرح شاہین باغ کی حمایت کرنے والوں کو اپنی رائے
رکھنے کا حق حاصل ہے اسی طرح مخالفت کرنے والوں کو اپنی بات رکھنا چاہیے
لیکن اس حوالے سے کی جانے والی بہتان طرازی کے بارے میں وہ کچھ نہیں بولے۔
امیت شاہ اگر یہ بھی بتاتے تو اچھا تھا کہ کیا شاہین باغ کے حوالے سے یہ
جھوٹ پھیلانا بھی درست تھا کہ وہ احتجاج پانچ سو روپیہ یومیہ پر چل رہا ہے۔
وہاں ملک کو توڑنے کی سازش رچی جا رہی ہے ۔ جناح والی آزادی کے نعرے لگائے
جارہے ہیں ۔ وہ منی پاکستان بنا ہوا ہے ۔ کیا یہی سنگھ کے اقدار ہیں اور بی
جے پی کارکنان کو اسی کی تربیت دی جاتی ہے؟ شاہ جی اسی گمراہ کن پروپگنڈے
کے ذریعہ مرکزی حکومت کی ناکامیوں کو چھپاکر پینالیس نشستوں پر کامیاب ہونے
کا خواب دیکھ رہے تھے لیکن بقول خود ان کا اندازہ غلط نکلا۔ ٹائمز ناو
والوں کو شاہ جی سے یہ سوال کرنا ہی چاہیے تھا کہ اب تو وہ پارٹی کے صدر
بھی نہیں ہے اور یہ کوئی قومی انتخاب بھی نہیں تھا اس کے باوجود انہوں نے
اس الیکشن میں اپنی جان کا ہلکان کر کے رسوائی کیوں مول لی؟ کیا وزارت
داخلہ میں ان کے کرنے کا کوئی کام نہیں ہے؟
سی اے اے پر ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹنے کی بات کرنے والے امیت شاہ نے اب
جاکرکہا کہ وہ بات چیت کے لیے تیار ہیں اور جو بھی گفتگو کا خواہشمند ہوگا
اس کو تین دن کے اندر وقت دیں گے ۔ امیت شاہ کا یہ اقرار کرنا قابلِ ستائش
ہے کہ پرامن طریقہ پر احتجاج کرنے کا حق سبھی کو ہے اور وہ اس کی حمایت
کرتے ہیں لیکن اس کےاندر سرکار کے بجائے بی جے پی کی مخالفت دیکھ کر گھبرا
جانا اور طرح طرح کے شکوک و شبہات پیدا کرنا کہاں تک درست ہے؟ وزیر داخلہ
کے لیے یہ سوال زیب نہیں دیتاکہ دیکھیے احتجاج کون اور کس سطح پر کر رہا
ہے؟ یہ فرد کا نہیں سوچ کا معاملہ ہے کیونکہ وزیر اعظم نے بھی یہی کہا تھا
کہ یہ اتفاق نہیں تجربہ ہے۔ تحریکات اتفاق سے نہیں اٹھتیں اور وہ تجربہ بھی
نہیں ہوتیں لیکن دن رات سیاست کرنے والے اس حقیقت کا ادراک نہیں کر سکتے ۔
اس لیے کہ ان کی ساری تگ و دو کا مرکزو محور اقتدار کاحصول ہوتا ہے۔
ویسےعآپ سے کراری شکست کے بعد بی جے پی علاقائی جماعتوں سے اتنا خوفزدہ
ہوگئی ہے کہ صرف کانگریس سے موازنہ کرنے کی تلقین کرنے لگی ہے۔
دہلی اسمبلی انتخابات میں شکست کے بعد کذب گوئی کے معاملےمیں وزیر داخلہ
امیت شاہ نے دہلی بی جے پی کے صدر منوج تیواری کو بھی مات دے دی ہے کیونکہ
جب ان سے شاہین باغ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے مانا ہے کہ حقیقی
معنوں میں کرنٹ انھیں کولگا ہے۔ اس ضمن میں منوج تیواری کی بزدلی اس وقت
طشت ازبام ہوگئی جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا اب وہ شاہین باغ جائیں گے؟ ان
کا جواب تھا کہ ’’میں کس حیثیت سے شاہین باغ جاؤں۔ وہاں مجھ پر حملہ ہو
سکتا ہے، اس وجہ سے میں وہاں نہیں جا وں گا۔ شاہین باغ کو ہم آج بھی درست
نہیں مانتے اور نہ کل مانیں گے‘‘۔ اپنی گلی میں دیش کے غداروں کو گولی
مارنے کا نعرہ لگانے والے تیواری کے بیان سے ظاہر ہے کہ یہ جعلی دیش بھکت
کس قدر بزدل ہے۔ پاگل پن کا ایک علاج بجلی کا جھٹکا ہے ۔ مشیت ان
سیاستدانوں کو ایک کےبعد ایک انتخابی جھٹکے دے رہی ہے لیکن ان کا دماغ ہے
ٹھکانے پر آنے کا نام ہی نہیں لیتا۔تیواری اور شاہ کی حالتِ زار پر اس
نغمہ کا یہ بند صادق آتا ہے کہ ؎
ہم کس لیےسرکار کی رسوائی بن گئے، خود ہی لگاکے آگ تماشائی بن گئے
دامن سے اب یہ شعلے بجھائے تو کیا کیا ،سب کچھ لٹا کے ہوش میں آئے تو کیا
کیا
|