94 سال کی شدید مشقت،لاکھوں کارکنوں کی قربانیاں، 51
ہزارشاخیں،18 ذیلی تنظیموں کے ساتھ اگر کوئی ملک بدلنے کی کوشش کرتا ہے تو
یہ حیرت کی بات نہیں ہے۔ہاں آج ہم بات کررہے ہیں آر ایس ایس کی جو اس وقت
ملک میں شہریت قانون لاکر بھارت کوجمہوری ملک سے بدل کر ہندو راشٹر بنانے
کیلئے تیاری کررہا ہے۔پچھلے تین مہینوں سے سی اے اے،این آر سی اور این پی
آر کی مخالفت میںشدید احتجاجات جاری ہیں اور ان احتجاجات سے جڑے ہوئے
لوگوں کا اکثر یہ سوال ہوتا ہے کہ کیا بھارتی حکومت اس قانون کو واپس لے لے
گی یا پھر ایک مرتبہ اس میں ترمیم کرنےکیلئے کسی طرح کی پیش رفت کریگی۔اوپر
جو اعداد و شمارات بتائے گئے ہیںاس سے یہ بات تو واضح ہوجاتی ہے کہ آر ایس
ایس نے جب پچھلے94 سالوں سے ہندو راشٹر کے ہی مقصد کو سامنے رکھ کر کام کیا
ہواور اسی مقصد کیلئے جابجا اپنی شاخوں کو پھیلایا ہو،کیسے ممکن ہے کہ
ہمارے چھوٹے موٹے احتجاجات کے سامنے آر ایس ایس کا سر خم ہوجائے اور وہ اس
قانون کوواپس لے لے۔یہ ہرگز ممکن نہیں ہے ،البتہ ہمیں ان کی94 سالہ محنت کو
کمزور کرنے کیلئے کم ازکم چار سال کی تو محنت کرنی ہوگی۔جس وقت بھارت پر
انگریزوںنے حملہ کیا تھا،اُ س وقت یہ بھارت اکھنڈ بھارت یعنی متحدہ بھارت
تھا۔افغانستان کی کئی ریاستیں،بنگلہ دیش،برما،نیپال،پاکستان یہ سب اکھنڈ
بھارت کے حصے میں ہی آتے تھے۔جبکہ ایسٹ انڈیا کمپنی یعنی برٹش کی فوجیں
اور حکومت ملک میں مٹھی بھر تھیں،اُ ن کا مقابلہ کرنے کیلئے اکھنڈ بھارت کی
عوام اکثر بے بس ہوجاتی تھی،باوجود اس کے ان کے پاس حوصلے اور مستحکم مزاجی
تھی۔ہم تو ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن سے احتجاج کی راہ اختیارکئے ہوئے ہیں،اس
سے پہلے احتجاج کس چڑیا کا نام ہے ہمیں معلوم نہیں تھا۔ہاں سیاست سے جڑے
ہوئے لوگ اس بات کو بخوبی جانتے تھے،لیکن کب عام مسلمان اورعام عورتیں
احتجاج میں شریک ہوئے تھے؟ابھی تو حکومت کے خلاف شروع ہوئی ہے،اس جنگ کے
نتائج آنے میں بہت وقت لگے گا اُس وقت تک ہمیں لڑنا ہوگا۔ہماری لڑائی امیت
شاہ،یوگی اور مودی سے نہیں ہے بلکہ سنگھ پریوارکے ساتھ ہے جہاں پر ہزاروں
مودی اور لاکھوں یوگی الگ الگ شکلوںمیں گھوم رہےہیں۔جس طرح سے دجال کی فوج
قرب قیامت آئیگی اُسی طرح سے یہ سنگھ پریوارکی فوج ہے،دجال کی فوج سے بھی
اہل ایمان والے ہی لڑینگے،اب سنگھ پریوارکی فوج سے بھی ایمان والوں کو ہی
لڑنا ہوگا۔یقیناً اس لڑائی کا طریقہ الگ ہے،ہمارے پاس حکمت برائے نام
ہے،شجاعت برائے نام ہے،طاقت برائے نام ہے،لیکن ایمان تو کم ازکم باقی ہے،اس
ایمان کوجب جوش دینگے تو سنگھ پریوار کے ہوش اڑ جائینگے۔بھارتیوں کو چاہیے
کہ اگلےپانچ سال تک کیلئے مزید تیاری کرلیں تاکہ ملک میں انقلاب آئے۔بھارت
میں اس سنگھی لڑائی کیلئے خوش ائند بات یہ ہے کہ ہم مسلمانوںکے ساتھ کئی
ابوطالب کی طرح رہنے والے لوگ بھی ساتھ ہورہے ہیںجبکہ ماضی میں ایسے حالات
نہیں تھے۔ملک کے حالات کوبدلنے کیلئے متحد ہوکر لڑنا ضروری ہے،اس دوران کچھ
لوگوں کا یہ اعتراض ہے کہ اللہ نے ہمیں خلافت سونپی ہے تو ہم نے غیروںکی
قیادت کو کیوں اپنایا ہے،ہمیں تو اپنے بازئوں پر یقین رکھتے ہوئے جنگ کے
میدان میں اترنے کی ضرورت ہے۔یقیناً ہمیں غیروں کی قیادت منظور نہیں کرنی
چاہیے ،لیکن کیا کبھی مسلمانوںنے یہ سوچا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول نے
انسانوں کو خلیفہ بننے کیلئے جو شرائط رکھے ہیں،اُن شرائط کے مطابق ہم نے
کتنی اطاعت کی ہے۔ایک مومن مسلمان کو اپنے بازئوں کویقین رکھنا چاہیے یہ
بھی درست ہے،لیکن ہم کس حد کے مومن مسلمان ہیں،اس بات کو بھی اپنے گریبانوں
میں جھانک کر دیکھنے کی ضرورت ہے۔جس وقت ہندوستان میں بسے ہوئے مسلمانوںکی
اکثریت مومن مسلمان ہوجائیگی،اُس وقت ہمیں غیروںکی ضرورت نہیں پڑیگی۔تب تک
کیلئے ہمیں غیروں کا سہارا لینا ہی ہوگا،غیروںکے ساتھ رہ کر دشمنوں سے لڑنا
ہی ہوگااور ملک کو بچانے کیلئے ایک دوسرے کا ساتھ دینا ہی ہوگا،جب ملک کا
دستور بچانے میں کامیاب ہوجائیں تو ہماری شریعت بھی محفوظ ہوجائیگی۔
|