آہ معین اختر: نایاب ہیں ہم

’’مجھے جب یہ پتہ چلا کہ مجھے ایک پروگرام میں جانا ہے اور وہاں ’’معین اختر ‘‘ میرا انٹر ویو کریں گے تو میں نے اس کو اپنے لئے ایک اعزاز سمجھا‘‘۔ یہ الفاظ ہیں برصغیر کے معروف فنکار یوسف خان المعروف دلیپ کمار کے۔ دراصل یہ الفاظ معین اختر مرحوم کے کمالِ فن کا اعتراف ہے۔جب ٹی وی پر یہ خبر چلی کہ معین اختر کا انتقال ہوگیا ہے تو پتہ نہیں کیوں ایسا لگا کہ کوئی اپنا ہم سے جدا ہوگیا ہے۔1950میں پیدا ہونے والے معین اختر مرحوم نے 1966کو سولہ سال کی عمر سے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا،اور اس کے بعد ان کے لئے یہ مثال پیش کی جاسکتی ہے کہ وہ آیا،اُس نے دیکھا اور وہ چھا گیا۔سولہ سال کی عمر سے اپنے سفر کا آغاز کرنے والے معین اختر مرحوم نے تھیٹر،ٹی وی،ریڈیو،اور فلموں میں اپنی اداکاری و صدا کاری کے جوہر دکھائے۔ وہ نہ صرف ایک اداکار بلکہ گلوکار،صدا کار،کمپئر ،اور میزبان تھے۔

میں معین اختر مرحوم کو کیوں پسند کرتا ہوں؟ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک ورسٹائل اور سچے فنکار تھے۔ جو لوگ اور اخبارات یہ کہہ رہے ہیں کہ ’’کامیڈین ‘‘معین اختر کا انتقال ہوگیا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ وہ مرحوم کے ساتھ زیادتی کر رہے ہیں کیوں کہ معین اختر مرحوم کامیڈین ہی نہیں تھے بلکہ وہ ایک صحیح معنوں میں اداکار تھے۔ رول چاہے سنجیدہ ہو،یا مزاحیہ انہوں نے ہر قسم کے کردار کو بڑی خوبی سے نبھایا۔میں آج تک ان کے لانگ پلے ’’ ہاف پلیٹ‘‘ کو نہیں بھولا جس میں انہوں نے ایک شاعر کا کردار ادا کیا تھا جو کہ اپنے فن میں تو استاد ہوتا ہے اور دور دور سے لوگ ان سے تربیت لینے اور کلام کی اصلاح کے لئے اس کے پاس آتے ہیں لیکن خود وہ شاعر بڑی کسمپرسی اور غربت کی حالت میں زندگی بسر کرتا ہے اور اکثر اوقات اس کے گھر میں فاقے ہوتے تھے۔یہ کردار انہوں نے جس خوبی سے ادا کیا اور جس طرح اس کردار میں ڈوب گئے وہ اپنی مثال آپ ہے۔

معین اختر مرحوم کو پسند کرنے کی ایک اور بڑی وجہ یہ ہے کہ آج کل جس طرح کامیڈی کے نام پر چھچھورا پن اور پھکڑ پن دکھایا جارہا ہے ،اس کے برعکس انہوں نے ہمیشہ معیاری اور اعلیٰ سطح کی کامیڈی سے لوگوں کے لبوں کو مسکراہٹ بخشی۔معین اختر مرحوم لوگوں کو ہنسانے کے لئے عامیانہ انداز اور ذاتیات کو نشانہ نہیں بناتے تھے بلکہ انتہائی صاف ستھرے اور نفیس انداز میں شائستہ طنز ومزاح کے ذریعے لوگوں کو ہنساتے تھے۔

معین اختر مرحوم کا ذکر ہو اور انور مقصود کا نام نہ لیا جائے تو یہ ناممکن ہے۔ دونوں کا ایک ساتھ ذکر لازم و ملزوم ہے۔ معین اختر مرحوم کے زیادہ تر ڈرامے اور لانگ پلے انور مقصود صاحب کے ہی تحریر کردہ تھے۔ انور مقصود صاحب کا اسکرپٹ،ان کے تیکھے جملے،اور مزاح کی تہہ میں چھپا ہوا گہرا طنز جو کہ ہمارے معاشرے میں پائی جانے والی کمزوریوں اور خرابیوں کی نشاندہی کرتا ہے اور اس پر معین اختر مرحوم کی بے ساختہ اور نیچرل اداکاری اس ڈرامے کو چار چاند لگا دیتی تھی۔ اب یہ کہنا مشکل ہے کہ کون کس کی ضرورت تھا؟ شائد اللہ تعالیٰ نے انور مقصود کو لکھنے کی صلاحیت اسی لئے دی ہے کہ وہ معین اختر کو سامنے رکھ کر اسکرپٹ لکھیں اور معین اختر مرحوم کو اسی لئے اداکاری کی صلاحیت بخشی کہ وہ انور مقصود کے تخلیق کئے ہوئے کرداروں کو امر کردیں۔وہ اسٹوڈیوں ڈھائی ہو، اسٹوڈیو پونے تین ہو یا موجودہ پروگرام ’’لوز ٹاک ‘‘ ہو۔ یہ بڑی ہمت اور صلاحیت کی بات ہوتی ہے کہ ایک تخلیق کار ہر ہفتے ایک نئے مسئلے کو اپنا موضوع بنائے ،ہر ہفتے ایک نیا کردار تخلیق کرے اور ایک ہی اداکار ان تمام کرداروں کا رول بڑی عمدگی سے نبھائے،ایک ہفتے اگر وہ حکومت کے کسی عہدے دار کا رول نبھاتے تھے تو اگلے ہفتے اس کے برعکس عوام کا رول بھی اسی عمدگی سے کرتے تھے،ایک ہفتے اگر وہ کسی مل اونر،کسی سیٹھ کا رول نبھاتے تھے تو اگلی دفعہ کسی مزدور کے کردار میں جلوہ گر ہوتے تھے۔اور انور مقصود صاحب کی تحریر اور معین اختر مرحوم کی اداکاری کی خوبی یہ ہوتی تھی کہ ناظرین کبھی بھی ان دو ہی چہروں کو دیکھ کر اکتاتے نہیں تھے۔

انکے فنی کئیریر کا یادگار ترین ڈرامہ ’’روزی ‘‘ تھا۔ جس میں انہوں نے ڈبل رول ادا کیا تھا خاص بات یہ تھی کہ ایک رول زنانہ تھا اور ایک رول مردانہ تھا لیکن انہوں نے اپنی جاندار اور بہترین اداکاری سے اس کردار کو یادگار بنا دیا تھا۔اس کے علاوہ عید ٹرین،ہاف پلیٹ اور طویل ڈرامہ سیریل’’سچ مُچ‘‘ میں ان کا مشہور کردار جو کہ بچے بچے کو یاد ہوگیا تھا یعنی ’’سیٹھ منجور دانہ والا‘‘انکے لازوال ڈرامے ہیں۔ معین اختر مرحوم کے انتقال سے پاکستان کے عوام ایک اچھے اور بہترین اداکار سے محروم ہوگئے ایک ایسا اداکار جس نے گلیمر کی چکا چوند میں بھی اپنے دامن کو اسکینڈلز سے بچائے رکھا اور خاص بات یہ کہ جب کوئی اداکار مشہور ہوتا ہے تو فلم اور ٹی وی کا کیمرہ ان کے گھر تک پہنچ جاتا ہے لیکن آپ نے کسی بھی پروگرام میں ان کے کسی فیملی ممبر کو نہیں دیکھا ہوگا، ان کی اہلیہ نہ بچوں کو انہوں نے اپنی نجی زندگی کو گلیمر کی چکا چوند سے دور رکھا ۔شائد وہ جانتے تھے کہ گلیمر کی اس دنیا میں نیک نامی اور عزت کمانا تو بہت مشکل ہے لیکن بدنام ہونا بہت آسان ہے اور انہو ں نے اپنے اہل خانہ کو ہمیشہ کیمرے کی آنکھ سے دور ہی رکھا۔معین اختر ایک ایسے فنکار جنہوں نے مزاح اور پھکڑ پن کے درمیان موجود نازک سی لکیر کا بہت خیال رکھا انہو ں نے کبھی بھی لچر پن یا چھچھورے پن سے لوگوں کو ہنسانے کی کوشش نہیں کی۔ ان کے ڈرامے اور پروگرامات اس قدر شاندار اور معیاری ہوتے تھے کہ آپ بلا خوف و خطر پوری فیملی کے ساتھ یعنی آٹھ سال کے پوتے سے لیکر اسی سال تک کے دادا ایک ساتھ بیٹھ کر ان کے پروگرام کو دیکھ سکتے تھے اور یہ خوف نہیں ہوتا تھا کہ یہ کوئی بازاری یا گھٹیا جملہ بولیں گے۔ 22 اپریل 2011بروز جمعہ کو یہ عظیم اداکار اور نفیس انسان اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔ معین اختر مرحوم جیسے انسان بہت کم ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے اللہ رب العزت مرحوم کے تمام صغیر و کبیرہ،دانستہ نادانستہ گناہوں کو معاف فرمائے اور انہیں اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔اور ان کے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ شائد اب کوئی دوسرا معین اختر پیدا نہ ہو ۔
ع ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 535 Articles with 1520141 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More