گھوڑا بنیں ۔ ۔ گدھا نہیں !!!

امولیہ نامی نوجوان جہد کار نے بنگلور میں ہونے والے ایک احتجاجی دھرنے میں اپنی تقریر کی شروعات پاکستان زندہ باد کے نعرےسے کرنے لگی جس کی وجہ سے جلسہ گاہ کے لوگ سکتے میں آگئے اور اسی جلسے میں مہمان خصوصی کے طورپر شرکت کرنے والے رکن پارلیمان اسدالدین اویسی نے فوری طورپر امولیہ کے بیان کو روک کر اسکی شدید تنقید کی اور کہا کہ پاکستان زندہ باد کے نعرے سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں ہے اور نہ ہی ہم امولیہ کی تائید کرتے ہیں ۔ کچھ سال پہلے بالی ووڈ میں ایک فلم آئی تھی جسکا نام غدر تھا، اس فلم کے ہیرو سنی دیول اپنے کردار میں پاکستان کی سرحد میں داخل ہوتے ہیں اور وہاں کی پولیس انہیں پاکستان زندہ باد کہنے کے لئے مجبور کرتی ہے ۔ سنی دیول جوش میں آکر کہتے ہیں کہ پاکستان زندہ باد ہے ، اور ہندوستان بھی زندہ باد ہے ، زندہ باد تھا اور زندہ باد رہیگا ، اس پر پاکستانی کہتے ہیں کہ ہندوستان مردہ باد کہو تو اس پر سنی دیول غصے میں آجاتے ہیں اور چیخنا شروع کرتے ہیں ۔ اب یہاں امولیہ کی بات کی جائے تو امولیہ جو ایک کم سن جہد کا ر ہے جس نے کم عرصے میں سی اے اے اور ین آر سی کی مخالفت میں تقریریں کرتے ہوئے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنالیا تھا اس نے اس تقریر کو پیش کرنے سے ایک ہفتہ قبل فیس بک پر ایک مضمون لکھا تھا جس کی شروعات میں اس نے لکھا تھا کہ ہندوستان زندہ باد، پاکستان زندہ باد ، بنگلہ دیش زندہ باد ، سری لنکا زندہ باد اور نیپال زندہ باد ۔ اسکے بعد اس نے لکھا کہ ہر ملک زندہ باد ہے کوئی ملک مردہ باد نہیں ہوسکتا۔ اسکی سوچ صحیح ہے اور اسمیں ملک سے غداری کی بھی کوئی بات نہیں ہے ۔ کسی ملک کو برا بھلا کہنا ہے بھی آئین کے خلاف ہی ہے لیکن امولیہ نے جس طرح سے جلد بازی میں بنگلور کے جلسے میں پاکستان کی تعریف کی ہے وہ ناقابل قبول ہے ۔ کچھ کم علم اور نیم حکیم قسم کے لوگ کہہ رہے ہیں کہ امولیہ کو اپنی بات کہنے کا موقع دے دینا چاہئے تھا کیونکہ وہ پاکستان زندہ باد کے بعد اپنی بات کو مکمل کررہی تھی ۔ ہوسکتاہے کہ امولیہ اس نعرے کے بعد اپنی وہی بات پوری کرتی جو اپنے فیس بک پر اس نے شیئر کی تھی لیکن سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ جس جلسے میں اسے مدعو کیا گیا تھا وہ ہندوستان کی سالمیت ، جمہوریت کی بقاء اور سی اے اے ، ین آر سی اور ین پی آر کی مخالفت میں منعقدہ پروگرام تھا وہاں کسی بھی ملک کی تعریف و مخالفت کے لئے کوئی گنجائش ہی نہیں تھی ۔ دراصل جب کسی نیم حکیم کو علاج کے لئے موقع دیا جاتاہے ایسے ہی حالات پیدا ہوتے ہیں ۔ مشہور قول ہے کہ شاگرد کے ہاتھ میں درس دینے کے لئے کتاب دینا اور مہاوت کے ہاتھ میں تلوار دینا دونوں خطرے کی نشانیا ں ہیں ، اسی طرح سے کچھ لوگ جو ین آر سی اور سی اے اے کے قانون کو نافذ ہونے کی بات کے بعد مقررین ہونے لگے ہیں انہیں ماضی ، حال اور مستقبل کی جانکاری نہ ہونے کے سبب اکثر اس طرح کی لاپرواہیاں برت رہے ہیں ۔ امولیہ اپنے نعروں کے بعد کچھ بھی کہہ لیتی لیکن جس مقام پر اس نے دشمن ملک کی تائید میں نعرے بلند کئے وہ نہ صرف اس پروگرام کے نظام کو درہم برہم کرنے کے لئے کافی تھا بلکہ پچھلے 3 مہینوں سے ملک بھر میں جاری سی اے اے اور ین آر سی کے خلاف احتجاجات کی رفتار ، اسی پہچان اور اسکے طریقہ کار پر سیاہ داغ لگانے کے لئے کافی ہے ۔ تین مہینوں کے طویل عرصے میں ملک کے کسی بھی حصے میں ہونے والے جمہوریت بچائو احتجاجات کی جگہ سے کسی نے بھی ملک کی سالمیت کو نقصان پہنچانے اور ملک کی عوام کے جذبات کو مجروح کرنے کے لئےکسی نے بھی نعرے بازی یا تقریریں نہیں کی ہیں ایسے میں امولیہ جیسی فکر رکھنے والے لوگ آگے پیچھے کی نہیں سوچتے بلکہ اپنے مفاد ، اپنی شہرت اور اپنی انا کوحاصل کرنے لئے کچھ بھی کہہ دیتے ہیں ۔ انکے بیانات اورحرکتوں سے سماج، ملک ، تحریکوں اور منصوبہ بندی پر کس طرح کا اثر ہوگا یہ بھی نہیں سوچتے ۔ کچھ دن قبل اسی امولیہ نے پٹنا نامی بزرگ جہد کا جنہوںنے اپنی پوری زندگی حقوق انسانی ، کسانوں کے حقوق، جمہوری حقوق کے لئے گنوادی ان پر اعتراض کرتے ہوئے کہا تھاکہ ہماری سوچ نئی ہے اور آپ لوگ پرانے لوگ ہیں ، اس جملے سے بڑے پیمانے پر لوگوں کو اعتراض ہوا تھا اور پیشن گوئی کی گئی تھی کہ ایسی سوچ والوں سے جدوجہد کے میدان میں نقصان زیادہ ہوگا ۔ صرف امولیہ ہی نہیں ہمارے اور آپ کے درمیان کچھ ایسے نیم حکیم بھی ہیں جنہیں نہ ماضی معلوم ہے نہ مستقبل ۔ جنہیں بڑوں کی قربانیاں معلوم ہیں نہ بزرگوں کی مصروفیات ، وہ اپنی انا کی خاطرکسی پر بھی انگلی اٹھالیتے ہیں ۔ انگلیاں اٹھانا، نعرے بلند کرنا ، مضمون لکھنا اور تنقید کرنا آسان ہے لیکن جو لوگ کام کرتے ہیں انہیں ہی معلوم کہ کسی کام کی کامیابی کے پیچھے کتنی محنت کرنی ہوتی ہے اور کام کا نتیجہ صحیح نکلے اسکے لئے کتنی حکمت اور صبر سے کام کرنا ہوتا ہے یہ بھی اہم بات ہے ۔ کام گدھا بھی کرتاہے ، گھوڑا بھی کرتا ہےلیکن گدھے پر سامان ہی لادا جاتاہے اور گھوڑے پر سواری بھی کی جاتی ہے ساما ن بھی لاد ا جاتاہے اس لئے گھوڑے بننے کی ضرورت ہے امولیہ اور اسکے جیسے سوچ والوں کی طرح گدھا نہیں بننا چاہئے ۔


 

Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 197628 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.