بابری مسجد کی باقیات اور قبرستان

۶ دسمبر 1992ء کو ہندو انتہا پسندوں نے بابری مسجد کو منہدم کر دیا تھا۔ مسلمانوں نے مسجد کے حصول کی خاطر 27 سالوں تک عدالتی جد و جہد کی تاہم عدالت عظمی نے بابری مسجد کے انہدام کو پوری طرح غیر قانونی تسلیم کرنے کے باوجود اراضی کی ملکیت قانون کو پامال کرنے والے ہندو فریق کو سونپ کر عدلیہ کے نابینا ہونے پر مہر ثبت کردی ۔ عدلیہ کا رویہ اس قدر جانبدارانہ تھا کہ اس نےمسلم فریق کی جانب سے نظر ثانی کی درخواست کو سماعت کے بغیر ہی مسترد کر دیا۔ اس طرح رام مندر کی تعمیر کا راستہ تو صاف ہوگیا لیکن اس راہ میں بابری مسجد کی باقیات پر سوالات کھڑے ہوگئے۔ بابری مسجد ایکشن کمیٹی نے اس بابت مسلمانوں کی طرف سے دعوی پیش کرنے کا فیصلہ کیا۔ کمیٹی کےکنونیر اور مسجد کے وکیل ظفر یاب جیلانی بابری مسجد کے ملبے کو اِدھر اُدھر پھینکے جا نے کو درست نہیں مانتے۔ ان کے مطابق مسجد کی باقیات کی بے حرمتی سے مسلمانوں کو ٹھیس پہنچےگی۔ سپریم کورٹ نے چونکہ اس سلسلے میں کوئی ہدایت نہیں دی، اس لیے وہ ایک عرضی داخل کرنا چاہتے ہیں تاکہ عزت و احترام کے ساتھ بابری مسجد کا ملبہ حاصل کیا جاسکے۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی جانب سے اس معاملے اب تک کوئی منفی یا مثبت پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ظفریاب جیلانی کے کی دلیل یہ ہے کہ شریعت کےمطابق مسجد کے ملبے کی بے حرمتی نہیں ہونی چاہئے اور نہ ہی مسجد کے ملبے کو کسی ناپاک جگہ ڈالا یا استعمال کیاجانا چاہئے۔ اس بابت وہ معروف وکلاء کے ساتھ مشورہ کرچکے ہیں ۔مسلم پرسنل بورڈ کے ترجمان قاسم رسول الیاس بھی ظفریاب جیلانی سے متفق ہیں ۔ان کے مطابق چونکہ عدالت نے بابری مسجد کے انہدام کو تعذیری جرم تسلیم کیا ہے لہذا زمین نہ سہی تو ملبہ مسلمانوں کو ملنا ہی چاہیے اور وہ اسے حاصل کرنے کی سعی کریں گےلیکن یہ طے نہیں کیا جاسکا ہے کہ یہ مقدمہ ہائی کورٹ میں داخل کرنا مناسب ہے یا پھر سپریم کورٹ سے رجوع کرنا بہتر ہے۔ اس پر فیصلے کے بعد عدالت میں درخواست داخل کی جائے گی ۔

ڈاکٹر قاسم رسول الیاس کے مطابق ابھی یہ بھی طے نہیں ہوا ہے کہ ملبے کا کیا کیا جائے ۔اس سے بابری مسجد کی یاد میں ایک مسجد کی تعمیر ہوسکتی ہے یا اسےآئندہ نسلوں کے لیے ایک یاد گار کے طور پر رکھا جاسکتا ہے تاکہ انہیں مسجد کے جبراﹰ چھین لیے جانے کا احساس رہے ۔ مستقبل میں مسجد کی بازیابی کے لیے جدوجہد کا دارومدار اس پر ہے۔ بابری مسجد مقدمے کے ایک اہم فریق آل انڈيا ملی کونسل کا موقف ہے چونکہ سپریم کورٹ کا فیصلہ بابری مسجد کی عمارت کو مسلمانوں سے منسوب کرتا ہے اس لیے ملبے پر انہی کا حق ہے۔ مسجد کی باقیات کو حاصل کرنے کے بعد اس کا مصرف بعد کی بات ہے۔ حیرت انگیز طور پر اس معاملے میں ہندو فریق کی جانب سے کوئی مخالفت سامنے نہیں آئی بلکہ مسجد سے متصل اکھاڑے کے مہنت ترلوکی ناتھ پانڈے مسلمانوں کی حامی نظر آئے۔ ان کے مطابق یہ ملبہ چونکہ مسلمانوں کا ہے، اس لیے وہ اس کے حق دار ہیں اور اگر انہیں دے دیا جائے تو باہمی بھائی چارے میں بہتری آئے گی ۔

باقایت کے بعد ایک اور تنازع بابری مسجد کے آس پاس موجود قبرستانوں کے حوالے سے سامنے آیا ہے۔ ایودھیا کے رہائشی صدام حسین، ندیم،محمد اعظم قادری،معین الدین، حاجی اچھن، حاجی محمد لئیق، خالق احمد خاں، محمد عرفان اور احسان علینے سپریم کورٹ کے وکیل ایم آر شمشاد کے توسط سے ایک خط شری رام جنم بھومی تیرتھ شیتر ٹرسٹ کو بھیج کر ٹرسٹ کے اراکین مثلاًرام للا کے چیف وکیل پی کے پراشرن، ایودھیا راج پریوار کے وملیندر موہن پرتاپ سنگھ، ڈاکٹرانل مشرا، یگ پروش پرمانند، سوامی گووند دیو گری، جگت رام شنکراچاریہ سوامی وشو پرسنا تیرتھ اورنرموہی اکھاڑہ کے مہنت دھریندر داس کے ساتھ ساتھ فیض آباد کے ضلع مجسٹریٹ کو بھیجا ہے۔ اس مکتوب میں مسلمانوں کی قبر پر رام مندر بنا نے سے منع کیا گیا ہےکیونکہ حکومت کے ذریعہ قبضے میں لی جانے والی اس وقف زمین کو رام مندر کے لئے استعمال کرنا مسلمانوں کی حق تلفی اور قانون کی خلاف ورزی ہے۔

ان حضرات کا دعویٰ ہے کہ مرکزی حکومت کے ذریعہ سال 1993 میں ایودھیا کے اندر ایکوائر کی گئی 67 ایکڑ زمین پر مسلمانوں کی قبریں تھیں۔ 1855 کے فسادات میں شہید ہونے والے 75 مسلمانوں کو گنج شہیداں قبرستان میں دفن کیا تھا۔ فیض آباد کے ضلع مجسٹریٹ اور رکن ٹرسٹ انوج جھااس حقیقت کا انکار کرتے ہیں ۔ کاش کے وہ تردید سے قبل اس کی تفصیل ایودھیا(فیض آباد) کے گزٹ (نزول) میںجانچ لیتے ۔ شری رام للا براجمان کا ٹرسٹسوٹ نمبر ۵؍میں تسلیم کر چکا ہے کہ بابری مسجد کا قطعۂ اراضی قبرستان کی جگہ پر بلکہ قبروں سے گھری ہوئی تھی ۔ اس مقدمہ کو الٰہ آباد ہائی کورٹ کے ۳؍ججوں نے منظور بھی کیا تھا۔ یہ تو قانونی پہلو ہیں مگر مرکز ی حکومت نے اس پہلو کو نظر انداز کردیا ہے کہ مسلمانوں کی قبر پر رام مندر بنانامذہب کے خلاف ہے۔ سناتن دھرم کی جانکاری رکھنے والےبیدار سماج سے تعلق ر کھنے والے ٹرسٹ انتظامیہ کو اس پہلو پر ضرور غور و فکر کرنا چاہئے کہ کیا رام مندر کی بنیاد مسلمانوں کی قبر پر رکھی جا سکتی ہے؟ یہ سوال ان لوگوں کے لیے اہم ہے جو مذہب اور قانون میں یقین رکھتے ہیں لیکن جن کے نزدیک یہ خالص سیاسی مسئلہ ہے وہ اس پر غور کرکے کوئی معقول موقف اختیار کریں اس کا امکان کم ہے۔ عدالت اگر اس معاملے میں کوئی معقول فیصلہ سنا دے تو کسی نہ کسی حدتک اس کا وقار بحال ہوسکتا ہے۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1220687 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.