وزیراعظم نریندر مودی نے رام مندر ٹرسٹ کا اعلان کرتے ہوے
بھی اپنی عادت کے مطابق ایک متضاد بیان دیا۔ پہلے تو کہا کہ ’’ ہماری حکومت
نے مندر کی تعمیر اور اس کی پلاننگ کے لیے ایک منصوبہ تیار کیا ہے ‘‘ اور
پھر بولے ’’ یہ ٹرسٹ مندر کی تعمیر اور اس سے متعلق تمام معاملات پر فیصلے
کرنے کے لیے مکمل طور پر آزاد ہوگا‘‘۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اگر
ٹرسٹ خودمختار ہے تو حکومت کومندر کی تعمیر کا منصوبہ بنانے کی ضرورت کیوں
پیش آئی ؟ اس دنیا میں جھوٹ کی چغلی اس کے اندر پوشیدہ تضاد ات کردیتے ہیں
۔ وزیر اعظم نے سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق کافی غور و خوص کے بعد اترپردیش
حکومت سے ایودھیا میں جو پانچ ایکڑ زمین سنی وقف بورڈ کو سونپنے کی بات کی
وہ بھی ایودھیا سے باہر ۱۸ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس طرح مودی جی دوسری
کذب گوئی بھی کھل کر سامنے آگئی ۔ جو شخص فیک نیوز کی ویب سائٹ سے بیان
اٹھا کر ایوانِ پارلیمان کے اندراپنے مخالف(عمر عبداللہ) کو بدنام کرنے سے
گریز نہ کرے اس سے آخر کیا توقع کی جائے؟
مودی جی کا لالی پاپ دہلی کے رائے دہندگان کو لبھا کر ان کا ووٹ لینے کے
لیے تھا لیکنعوام نے اس بدمزہ مٹھائی کو تھوک دیا ۔ ایک جائزے کے مطابق
دہلی کے ایک فیصد رائے دہندگان کو بھی رام مندر کی تعمیر میں دلچسپی نہیں
تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی کو منہ کی کھانی پڑی۔ مذکورہ اعلان کے بعد
مندر کی تعمیر کا پیچیدہ کام وزیر داخلہ کے حوالے کیا گیا۔ شاہ جی نے بتایا
کہ رام مندر ٹرسٹ میں پندرہ ٹرسٹی ہوں گے جن میں سے ایک کا تعلق دلت سماج
سے ہوگا۔ اپنے آپ کو ذات پات سے بالاتر کہنے والے سنگھ پریوار کا دلتوں کی
اس طرح خوشنودی (appeasement) حاصل کرنا اس کی منافقت کا روشن ثبوت ہے۔
جملہ ۱۵ میں صرف ایک رکن ۷ فیصد بھی نہیں ہوتا جو دلتوں کی آبادی کے تناسب
سے بہت کم ہے۔ ویسے دلتوں کو اول تو رام مندر میں کوئی دلچسپی نہیں ہے اور
سنگھ کے اندر پلنے بڑھنے والے دلت رہنماوں کو ان کا سماج اسی نظر سے دیکھتا
ہے جیسے مسلمان مختار عباس نقوی اور شاہنواز حسین وغیرہ کو دیکھتے ہیں۔ فی
الحال اترپردیش میں دلت سماج کی سب سےتوانا آواز چندر شیکھر اپنی عرفیت
راون لکھتے ہیں ۔
رام مندر کی تعمیر سے متعلق ٹرسٹ کے اعلان سےنام نہاد رام بھکت سادھو سنتوں
کے مابین ایک زبردست دھرم یدھّ چھڑ گیا ہے کیونکہ رام مندر تیرتھ چھیتر
ٹرسٹ میں کئی اہم سادھو سنتوں کا نام شامل نہیں کیا جاسکا اور وہممکن بھی
نہیں ہے۔ اس کے علاوہ سربراہی کو لے کر بھی شدید قسم کے اختلافات رونما
ہوگئے ۔ غیر سنگھی سادھو خاص طور پرٹرسٹ کی نامزدگیوں سے برہم ہیں ۔ ان میں
سب سے آگے رام جنم بھومی نیاس کے سربراہ مہنت نرتیہ گوپال داس نے ٹرسٹ میں
عدم شمولیت پر شدید برہمی کا ا ظہار کرتے ہوئےاس کو ایودھیا کے سادھو سنتوں
کی توہین قرار دے دیا ۔ ان کا الزام ہے کہ جن لوگوں نے اپنی پوری زندگی رام
مندر تحریک میں کھپا دیان کا اس ٹرسٹ میں کہیں نام ونشان نہیں ہے۔ مہنت کمل
نین داس نے ٹرسٹ میں شامل ایودھیا راج پریوار کے وملیندر مشرا پر اعتراض
کرتے ہوئے کہا کہ ان کا رام مندر تحریک سے کبھی کوئی واسطہ نہیں رہااور وہ
بی ایس پی کے ٹکٹ پر الیکشن بھی لڑ چکے ہیں ۔ سیاسی اختلاف سے آگے بڑھ کر
انہوں نے شیوا اور ویشنو سماج کے پرانے اختلاف کو چھیڑ دیا ۔ ان کے بقول
رام مندر تحریک کی شروعات ہی میں یہ طے ہوگیا تھا کہ اس ٹرسٹ کا سربراہ
ویشنو سماج کا سادھو ہو گا۔ حکومت نے اس وچن (عہد) کو توڑ کر ویشنو سادھو
سنتوں کی توہین کی گئی ہے۔
رام بھکتوں کے درمیان فی الحال اختلافات کا ایک پنڈورا بکس کھلا ہوا ہے ۔
مہنت نرتیہ گوپال داس نے اپنی شکایات کے پیش نظر ایک ہنگامی میٹنگ طلب کی
تھی جس کو امیت شاہ کی مداخلت نے ملتوی کروادیا ۔ وزیر داخلہ نے غالباً
ٹیلیفون پر یہ یقین دہانی کرائی کہ ٹرسٹ کےسربراہ وہی ہوں گے ۔ یہ عجیب بات
ہے کہ جو شخص سادہ رکن نہیں ہے وہ صدر ہوگا اور ایسا ہی ہو گیا۔ گوپال داس
اور نین داس کو تو کسی طرح مقامی رکن اسمبلی وید پرکاش گپتا وغیرہ کی مدد
سے منالیا گیا لیکن اس راہ کی ایک بڑی رکاوٹ تپسوی چھائونی کے معطل شدہ
مہنت پرم ہنس داس ہیں جنھوں نے چندولی میں بھوک ہڑتال شروع کردی ۔ مہنت
گوپال داس کے سخت مخالف مانے جانے والے مہنت پرم ہنس داس مقامی سادھو سنت
کی سربراہی اور روپیوں کی بندر بانٹ کےسخت مخالف ہیں ۔ اس طرح سادھو سنتوں
کی انا، عقیدے کا اختلاف اور مندر سےحاصل ہونے والی دکشنا کو لے کر سرپھٹول
کے معاملات بیک وقت چوراہے پر آگئے ۔ ہوسکتا ہے اب بی جے پی سوچ رہی ہو کہ
اگر یہ معاملہ عدالت معلق رہتا تو اچھا تھا۔
دہلی انتخابی نتائج کے ایک ہفتہ بعد بالآخر رام جنم بھومی تیرتھ شیتر ٹرسٹ
کی پہلی نشست منعقد ہوئی ۔ اس میں رام جنم مہنت نرتیہ گوپال داس کو صدر
بنائے جانے سے امیت شاہ کی ہیکڑی نکل گئی اور یہ بات ثابت ہوگئی کہ جب
انگلی ٹیڑھی کی جائے تو وہ سیدھے ہوجاتے ہیں ۔ نرتیہ گوپال داس اگر ہنگامہ
نہیں کرتے تو ان کو نظر انداز کردیا جاتا لیکن دباو بنا کر وہ وزیر داخلہ
کو بلیک میل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ وشو ہندو پریشد کے نائب صدر چمپت رائے
کو ٹرسٹ کا جنرل سکریٹری بنایا گیا ہے ۔ یہ دونوں بابری مسجد کو شہید کرنے
کی مجرمانہ سازش میں سی بی آئی کے ملزم ہیں ۔ فی الحال ان پرلکھنو کی
خصوصی عدالت میں مقدمہ چل رہا ہے اور وہ ضمانت پر باہر ہیں۔ اس تقرری سے
اندازہ لگایا جاسکتا ہے ہندو سماج میں اپنے مندر کی تعمیر کے لیے بھی اہم
ترین ذمہ داریوں پر فائز کرنے کے لیے بھی صاف ستھرےکردار کے دو عدد
افرادمہیا نہیں ہوسکے۔ بعید نہیں کہ حکومت کو ایسے بدنام ِ زمانہ لوگوں کی
نامزدگی اعتراض رہا ہو لیکن ان کی دھونس دھمکی کے آگے مودی سرکار نے سپر
ڈال دی۔
نرتیہ گوپال داس کو منالینے کے باوجود مسئلہ حل نہیں ہوا بلکہ دگمبر اکھاڑے
کے سربراہ سریش داس نے ٹرسٹ کے اندر یوگی ادیتیہ ناتھ اور گورکشناتھ پیٹھ
کو نظر انداز کرنے کا الزام لگایا۔ انہوں نے رام مندر تحریک میں دگمبر
اکھاڑے کے کردار کو سب سے زیادہ اہم بتاتے ہوئے کہا کہ وہ بھیک منگا نہیں
ہے جسے ٹرسٹ سے کچھ چاہیےہو۔ اس نشست میں ویشنو بیراگی اکھاڑوں کے مہنت اور
ہنومان گڑھی مہنت دھرم داس بھی بن بلائے پہنچ گئے۔ ان کا خیال تھا کہ اس
طرح جا دھمکنے سے کام چل جائے گالیکن وہ حربہ ناکام رہا ۔ ان کو میٹنگ میں
شمولیت سے محروم رکھ کر پڑوس کے ایک کمرے بیٹھا دیا گیا۔ دھرم داس کافی
عرصہ سے اپنے آپ کو نہ صرف ٹرسٹ میں شامل کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں بلکہ
وہ مندر کے پجاری ذمہ داری ادا کرنا چاہتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ ان نظر
دان دکشنا پر ہے۔ایک گروپ نے تو سنا ہےآن لائن چندہ جمع کرنے کا آغاز بھی
کردیا ہے۔ نرموہی اکھاڑے کا دعویٰ ہے جب رام کی مورتیاں پرکٹ(ظاہر) ہوئی
تھیں تو سب سے پہلےنرموہی اکھاڑے کے مہنت رام داس نے پوجا کی تھی۔ انہوں نے
دھمکی دی ہے کہ اگر ان کو رام للا کی سیوا کا اختیار نہیں دیا گیا تو وہ
عدالت کے دروازے پر دستک دیں گے۔ اس کے برعکس حکومت کے ذریعہ مقرر کردہ
آچاریہ ستیندر داس کو یقین ہے کہ دوبارہ انہیں کی لاٹری لگے گی۔ اس طرح
ایک انار اور دو بیمار کی کیفیت رونما ہوگئی ہے۔
|