جب کسی عوامی نمائندے کو یہ حق حاصل ہو جائے کہ وہ بھاری
مینڈیٹ سے منتخب ہونے کے بعد ایسا مطلق العنان حکمران بن جائے کہ جمہور کے
سوال کو گالی اور فریاد کو حریف کی چال سمجھے ، کشکول توڑنے کا دعوی کرے
مگر کشکول بردار بن کر ملکوں ملکوں گھومتا پھرے ،میرٹ کے دعوے بھلا کر آؤٹ
آف ٹرن بھرتیوں کووقت کی ضرورت اور مجبوری کہے، حلیفوں کے اللّوں تلّلوں پر
آنکھیں اور کان بند کر لے کہ جزا و سزا کا معیار ہی بدل دے ،بیروزگاری کے
واویلوں پر ڈھٹائی سے مضحکہ خیز بیانات داغے ، نقادوں کی تنقید کو اصلاح
نہیں بلکہ بغاوت قرار دے ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں کا ایسا بول بالا
ہو کہ ہر طرف افراتفری ، عدم برداشت اور نفسا نفسی کا عالم ہو اور وہ میڈیا
پرمعاشی خسارے کے قصے سنائے ، سرکاری نوکریوں سے بچنے کی تلقین کرے اور
سرکاری اداروں کو بند کرنے کا عندیہ دے تو یقین کر لینا چاہیے کہ ’’یہ وقت
بھی گزر جائے گا ‘‘! جن ریاستوں میں سب کچھ چلتا ہے پھر وہ ریاستیں نہیں
چلتیں کیونکہ رحمت خداوندی روٹھ جاتی ہے ۔اﷲ پاک مشکلوں،آزمائشوں اور خدائی
آفات کے ذریعے انسان کو جھنجھوڑتا ہے کہ وہ اپنی اصلاح کرلے اور بہتر حکمت
عملیاں ترتیب دے لے۔ایسے میں دور اندیش کانپ جاتے ہیں جبکہ غافل اور زبان
درازجواز تراشتے ہیں اور ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹھہرا کر وقت ٹالتے ہیں جتی
کہ اﷲ کا غضب نازل ہوجاتا ہے۔ایسوں کی داستانوں سے تاریخ بھری پڑی ہے۔
اس انداز حکمرانی کو کیا کہیں کہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی( کیمیاڑی)
میں زہریلی گیس کے اخراج سے ہلاکتیں ہوئیں جبکہ حکام گیس اخراج کے مقام اور
گیس کی شناخت نہ کر سکے اورکوئی ذمہ داری قبول کرنے کو بھی تیار نہیں سبھی
ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں جبکہ اس جرم میں وہ سب برابر شریک ہیں جو منصب دار
ہیں لیکن رہتے بیکار ہیں ۔ ترجمانوں کے پاس رٹا رٹایا جملہ ہے کہ ’’یہ پہلی
بار نہیں ہوا ‘‘ کوئی یہ نہیں کہتاکہ ایسا کیوں ہوا۔؟ مگرایسا تو مہذب
ملکوں میں ہوتا ہے کہ قدرتی آفات اور سانحات کو حکومتی سطح پر چیلنج سمجھا
جاتا ہے اپنی تمام خداداد توانائیاں اقدامات میں صرف کر دی جاتی ہیں جیسے
چین نے کرونا وائرس کو چیلنج سمجھ لیا ہے مگر ہماری حکومت یہاں بھی دروغ
گوئی سے کام لے آرہی ہے کہ دیگر ممالک نے اپنے شہریوں کو واپس بلا لیا ہے
حالانکہ پاکستانی سٹوڈنٹس مدد کے لیے پکار رہے ہیں، والدین بھی سراپا
احتجاج ہیں مگر کوئی ایکشن نہیں لیا گیا ۔مسئلہ یہ ہے کہ ہم جن کی مثالیں
دیتے ہیں وہ قومیں آپسی رنجشوں اور سیاسی اکھاڑ پچھاڑ میں وقت ضائع نہیں
کرتیں اور نہ وہاں فیوڈل سسٹمز ہیں کہ ذہنی غلام ہر ظلم و زیادتی پر خاموش
بیٹھے رہیں بلکہ بیکار منصب داروں کو اٹھا کر ڈسٹ بن میں پھینکتے ہیں
کیونکہ وہاں اخلاص پر مبنی جمہوریت ہے جس میں جمہور کو احتساب کا کماحقہ حق
حاصل ہے ۔خان صاحب نے وعدہ توکیا تھا کہ وہ تبدیلی لائیں گے مگر وہ تاحال
ناکام نظر آتے ہیں۔سنتے ہیں کہ کہا جاتا تھا کہ بی بی سنتی نہیں اور میاں
صاحب سمجھتے نہیں مگر آج ہم کہتے ہیں کہ خان صاحب نہ سنتے ہیں نہ سمجھتے
ہیں بس بولتے ہیں ۔یقینا خان صاحب کو اقتدار سنبھالنے کے بعد بہت سے مسائل
کا سامنا تھا مگر وہ ایسے مسائل تھے جو تمام برسر اقتدار حکومتوں کو درپیش
رہے اورمناسب حکمت عملی سے ان پر قابو پا لیا گیامگر خان صاحب نے ہر مسئلے
کی وجہ کرپشن اور ماضی کے حکمرانوں کی لوٹ مار کو قرار دے دیا اس پر
دوراندیش لکھاریوں کا ماتھا ٹھنکا او ر لکھا بھی مگر حکمران کان لپیٹے پڑے
رہے کہ ہم کرپٹ مافیا کو ختم کر دیں گے جس کے بعد ملک ترقی کی راہ پر گامزن
ہو جائے گا بس آپ نے گھبرانا نہیں!
کرپشن توختم نہ ہو سکی البتہ رشوت کے بغیراب کوئی کام نہیں ہوتا ۔تبدیلی
دعوے داروں کی خاموشی معنی خیز ہے جیسے سانپ سونگھ گیا ہوکوئی ڈیلیور نہیں
کر رہا ،کسی کو خوف بھی نہیں ہے لیکن غریب دلبرداشتہ ہو چکا ہے اور برملا
نفرت کا اظہار کر رہا ہے یہی وجہ ہے کہ جناب عمران خان نے اپنی تقریر میں
کہا کہ ٹی وی شوز پلانٹڈ ہیں آپ غریب کو مائک پکڑا دیتے ہیں وہ خلاف ہی
بولے گا ! وزیراعظم کی معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان بھی پیچھے نہیں رہیں
کہتی ہیں کہ غریب اتنا خوشحال ہوا جتنا 70 برسوں میں نہیں تھا بس مخالفین
کو ترقی ہضم نہیں ہو رہی اس پر سوشل میڈیائی عوامی نفرت لمحہ فکریہ ہے۔پی
ٹی آئی سوشل میڈیا طاقت کو سمجھتی ہے اسی لیے اسے جکڑنے کے لیے غورو فکرہو
رہاہے یہی وہ میڈیا ہے ناں! جس نے رائے عامہ ہموار کی اور سوشل میڈیا (جس
نے کرسی تک پہنچایا اور آپ نے شعور کا ذریعہ قرار دیا )کو لگام ڈالنے کے
لیے قوانین بنائے جا رہے ہیں کہ یہ آئینہ دکھا رہا ہے ۔کیا آئینے توڑنے سے
بد صورتی چھپ جاتی ہے ؟ کیا شعور کا گلہ گھونٹنے سے سوچ کا دھارا بدل جاتا
ہے ؟ کیا سچ کا سر قلم کرنے سے جھوٹ فتح یاب ٹھہرتاہے ؟ یہیں سے تو انقلاب
شروع ہوتا ہے ،یہی وہ منزل ہے ،جب ظلمت کدوں میں گھنٹیاں بجتی ہیں، بت ٹوٹ
گرتے ہیں، مؤذن کی صدا بلند ہوتی ہے اور ظالم پناہ مانگتا ہے پھر ایک
داستان جنم لیتی ہے جو دوسروں کے لیے عبرت ٹھہرتی ہے ۔وقت کا پہیہ تیز
گھومتا ہے جس میں سب سے کم وقت حاکم کے پاس ہوتا ہے کہ وہ اقتدار کو آزمائش
سمجھے اور ایسے کام کرے جو رہتی دنیا تک یاد رکھے جائیں تو آپ نے عام آدمی
کے لیے ابھی تک کیا کیا ہے ۔۔؟آپ کہتے ہیں غریب کو مائیک نہ دیں اگر غریب
اتنا غیر اہم ہوتا تو حضرت عمرؓ بھیس بدل کر رات کو گشت نہ کرتے ۔غریب ہی
تو کسی ریاست کا اصل چہرہ ہوتا ہے اگر وہ خوشحال ہو تو ریاست خوشحال ہوتی
ہے ۔ بے ضرر تحریریں اور سوشل میڈیائی شکوے آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے البتہ
غریب کی خاموش آہیں جو عرش الہی تک پہنچ رہی ہیں اس سے آپ سب کی دنیا و
آخرت پچھتاوا بن جائیں گی ۔اس لیے سوچیں کہیں دیر نہ ہوجائے |