صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہیوسٹن میں اپنی ہند شناسی کا ثبوت پیش
کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی کو ہندوستان کا بابائے قوم قرار دے دیا
تھا ۔ نریندر مودی کے لیے یہ اس لقب کا استعمال گاندھی جی کی پہلی تو ہین
تھا لیکن اسے ٹرمپ کی جہالت کے زمرے میں ڈال کر نظر انداز کردیا گیا۔ ٹرمپ
کی ہندوستان کے اندر آمد گاندھی جی کے آبائی صوبے گجرات میں ہوئی اور ان
کے قافلہ کو موٹیرا اسٹیڈیم میں لے جانے سے قبل گاندھی جی کے سابرمتی آشرم
میں لے جایا گیا جہاں انہوں نے ۱۵ منٹ گزارے۔ اس موقع پر ٹرمپ کو گاندھی جی
کی سوانح حیات ، چرکھا اور تین بندروں کا مجسمہ تحفے میں دیا گیا۔ کاش کہ
مودی جی سوانح حیات کا یہ نسخہ ہیوسٹن میں ٹرمپ کو دے آتے اور وہ اس کو
پڑھنے کی زحمت گوارہ کرتے تو انہیں پتہ چلتا کہ گاندھی کتنے بڑے مہاتما تھے
؟ اس صورت میں چرکھا چلانے کی اداکاری کرنے کے بعد سابرمتی آشرم سے واپس
لوٹتے ہوئے زائرین کی بیاض میں ٹرمپ یہ نہیں لکھتے کہ ’’ بخدمت ، میرے عظیم
دوست وزیراعظم مودی ، اس حیرت انگیز دورے کا شکریہ ‘‘۔
اس احمقانہ پیغام کے اندر گاندھی جی کے ذکر تک کی عدم موجودگی نہ صرف
بابائے قوم بلکہ پورے ہندوستان کی توہین ہے۔ اس حماقت کے بعد خود ٹرمپ بھی
گاندھی جی کے اس بندر کی مانند نظر آئے جو کل یگ میں کچھ نہیں سنتا اور
مودی جی اس کی طرح جو کچھ نہیں دیکھتا اور گجرات کے وزیر اعلیٰ وجئے روپانی
اس تیسرے کی مانند جو جس منہ پر یاتھ ہے اس لیے وہ سب کچھ سہہ لیتا مگر اُف
تک نہیں کرتا۔صدر ٹرمپ نے وزیراعظم نریندر مودی کو عظیم دوست اس لیے کہا کہ
انہیں ایسا بھکت کہاں ملے گا جو ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے امریکہ میں بسنے
والے ہندوستانی نژاد باشندوں پر ڈھائے جانے والے سارے مظالم کو نہ صرف
ہنستے ہوئے سہہ جائے بلکہ ہاؤ ڈی مودی کا نعرہ ٔ مستانہ بلند کر کے ان کی
خدمت میں پہنچ ہوجائے ۔ ہیوسٹن کے جلسہ میں اناونسر کی معمولی ذمہ داری
قبول کرکے ٹرمپ کا استقبال میں چاپلوسانہ قصیدہ پیش کرے۔ اس سے بھی آگے
بڑھ کرٹرمپ کو نمستے کرنے کے لیے انہیں ہندوستان آنے کی دعوت دے اور اس
دورے کے انتظامات پر اپنے سرکاری خزانے کے ۱۰۰ کروڈ سے زیادہ پھونک دے ۔
مودی جی نے اس دورے پر وزیراعلیٰ گجرات وجئے روپانی کی گاڑی کو روڈ شو کے
قافلہ سے نکال باہر کرنے کی ذلت آمیز شرط کو بھی بصد شوق قبول کرلیا گیا ۔
کیا یہ شرمناک بات نہیں ہے کہ کوئی غیر ملکی مہمان طے کرے کہ وہ اپنے ساتھ
چلنے والے روڈ شو میں صوبے کے وزیر اعلیٰ کورکھنا نہیں چاہتا؟ کیا وجئے
روپانی سے ان کو کوئی خطرہ تھا جو ان کے ساتھ کسی دہشت گرد جیسا سلوک کیا
گیا؟ اور تو اور امیت شاہ بھی اس قافلہ میں شامل نہیں تھے اور اسٹیڈیم پر
ان دونوں حضرات نے مودی اور ٹرمپ کا استقبال کیا ۔ ٹرمپ کے استقبال کی ذمہ
داری شہر کی میئر بیجل پٹیل کو سونپی گئی اور یہ خبر بھی آئی کی ٹرمپ کے
حفاظتی دستے نے وجئے روپانی کو اس لیے دور رکھا کہ ان کی انگریزی ٹھیک نہیں
ہے۔ یہ ریاستِ گجرات اور وہاں کے عوام کی توہین ہے لیکن افسوس کے اسے گورے
آقا کی خوشنودی کے لیے برداشت کرلیا گیا۔ اول تو مودی جی کو اس کے خلاف
احتجاج کرنا چاہیے تھا لیکن اگر ان سے یہ نہیں بن پڑا تو کم ازکم روپانی کو
اس تضحیک پر اپنا استعفیٰ دے دینا چاہیے تھا کیونکہ اس سے بڑی پراجئے کا
تصور بھی ممکن نہیں ہے لیکن اقتدار کے پجاریوں کے پاس عزت نفس نام کی کوئی
چیز نہیں ہوتی ۔
مودی کو پسند کرنے کی ٹرمپ کے پاس کئی وجوہات ہیں مثلاً یہ ایک ایسا وقت ہے
جبکہ ٹرمپ کی نامقبولیت اپنی انتہا پر ہے۔ مواخذے کے بعد ان کےلیے دوبارہ
ریپبلکن پارٹی کا امیدوار بننا بھی دشوار گذار ہوگیا ہے۔ مودی جی نے ان کو
مونگیری لال کے لیے حسین سپنے دکھاکر پکارا اور وہ چلے آئے۔ اس معاملے میں
مودی جی پرکوئی سبقت نہیں لے سکتا۔ ہندوستانیوں کو شیشے میں اتارتے اتارتے
انہوں امریکی صدر کو بھی اپنے دام میں گرفتار کرلیا۔ اس خواب کا اظہار خود
ڈونلڈ ٹرمپ نے کولوراڈو اسپرنگس کی ایک ریلی میں اس طرح کیا کہ ، ”وزیر
اعظم نریندر مودی نے مجھے بتایا کہ ہمارے پاس آپ کا خیرمقدم کرنے کے لیے
ایک کروڑ لوگ ہوں گے۔" ہندوستان کی جملہ آبادی ۱۳۵ کروڈ ہے اس میں سے ایک
کروڈ یعنی ایک فیصد سے بھی کم ہے ۔ یہ لوگ خیرمقدم کے لیے موجود تو ہیں
لیکن کیا بہ نفس نقیس استقبال کرنے کی خاطر حاضر بھی ہوں گے ؟ اس سوال کا
جواب ٹرمپ کے پاس یہ ہے کہ ’’ انہوں نے مجھ سے خود کہا ہے کہ ہوائی اڈہ اور
پروگرام کے مقام کے درمیان ستر لاکھ لوگ موجود رہیں گے۔"
نمستےٹرمپ دراصلہیوسٹن میں منعقدہ 'ہاوڈی مودی‘کا جواب ہے۔ ہیوسٹن میں صدر
ٹرمپ شامل ہوئے تھے احمد آباد میں مودی موجود تھے۔ دونوں مقامات پر 22
کلومیٹر کا روڈ شو ہوا تھا لیکن امریکہ میں شرکاء کی تعداد پچاس ہزار تھی
اور احمد آباد میں ایک لاکھ کیونکہ کہ احمد آباد کی کل آبادی مودی جی کے
سینے کی مانند 56 لاکھ ہے۔ ۷۰ لاکھ کے لیے اگر سارا شہر بھی سڑکوں پر آجا
تا تب بھی مزید لوگوں کو آس پاس سے لانا پڑتا۔ گجرات کا انتظامیہ یہ زحمت
نہیں کرنا چاہتا اس لیے احمد آباد میونسپل کارپوریشن نے خوابوں کو چکنا چور
کرتے ہوئے امریکی صدر کے روڈ شو میں ایک لاکھ تک لوگوں شرکت کرنے کی امید
ظاہر کردی ۔ اردو زبان میں تک کے معنیٰ زیادہ سے زیادہ کے ہوتے ہیں یعنی
تقریباً ۷۰ ہزار سمجھ لیں جو شہر کی آبادی سوا فیصد بنتا ہے۔ ہندوستان کے
باشندوں کو مودی جی کے بیان پر کوئی حیرت نہیں اس لیے کہ ۱۵ لاکھ میں سے ۱۵
پیسہ بھی ان کے کھاتے میں نہیں آیا۔
مودی جی اعدادو شمار کے معاملے میں کچے ّہیں۔ دو سال قبل انہوں نے داووس کے
عالمی فورم میں اعلان کیا تھا کہ انہیں 600 کروڈ لوگوں نے ووٹ دے کر منتخب
کیا ہے جبکہ۲۰۱۴ میں ملک کی کل آبادی ۱۲۵ کروڈ تھی ۔ اس میں سے بچوں کو
کم کردیں تو رائے دہندگان کی تعداد 100 کروڈ ہوجائے۔ کل رائے دہندگان کے
تقریباً پچاس فیصد نے ووٹ کا استعمال کیا تو یہ تعداد 50 کروڈ بنے گی اور
اس میں سے بی جے پی کے 30 فیصد ووٹ شمار کریں تو 15کروڈ۔ اب اگر کوئی
15کروڈکو 40 گنا بڑھا کر 600 کروڈ کرسکتا ہے تو ایک لاکھ کو 70 لاکھ کیوں
نہیں کرسکتا ؟ کیونکہ ووٹ کا توشمار ممکن ہے جبکہ استقبال کرنے والوں کو
گنا نہیں جاسکتا۔ اس لیے جتنا مرضی ہو بولو۔
ٹرمپ بھارت کو پسند نہیں کرتے کیونکہ ان کے بقول ہندوستان نے ان کے ساتھ
اچھا سلوک نہیں کیا، لیکن وزیراعظم نریندر مودی کو بہت پسند کرتے ہیں۔ یہاں
دو سوال پیدا ہوتے ہیں پہلا یہ کہ بھارت نے امریکہ کے ساتھ کیا برا سلوک
کیا اور کیوں؟ دوسرا یہ کہ اس کے باوجود وہ مودی کو کیوں پسند کرتے ہیں ؟
امریکی انتظامیہ کا طرز عمل یہ ہے کہ وہ خود زیادتی کرتاہے اور اس کے لیے
مخاطب کوموردِ الزام ٹھہرا دیتاہے ۔ دنیا بھر میں دہشت گردی کے معاملات میں
ملوث ہونے کے بعد اس کا شکار ہونے والے کو دہشت گرد قرار دے دیتے ہیں۔ اس
طرز عمل کا شکار جاپان، ویتنام ، ایران ، عراق اور افغانستان ہوچکے ہیں ۔
یہ زیادتی حربی اور معاشی دونوں سطح پر ہوتی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار سنبھالنے کے بعد سب سے پہلے امریکہ میں رہنے والے
ہندوستانیوں کے لیے ویزہ کے سخت قوانین وضع کرکے مسائل کھڑے کیے بلکہ جینا
دوبھر کردیا۔ اس وقت وزیراعظم مودی ان ہندوستانیوں کی حمایت میں ہمدردی کے
دو بول نہیں بول سکےجو بڑی تعداد میں آکر ان کے جلسوں کو کامیاب کرتے تھے
۔ اس کے بعد ٹرمپ انتظامیہ نے ہندوستان سے اشیاء برآمد کرنے والے تاجروں
پر قہر ڈھانے کے لیے بھارت کو پسندیدہ ممالک کی فہرست سے خارج کر کے اضافی
ٹیکس لگا دیا۔ اس کے جواب میں ہندوستان نے بھی وہی کیا تو وہ ناراض ہوگئے
لیکن اس دوران چونکہ مودی جی چپ چاپ بیٹھے رہے اف تک نہیں کیا اس لیے وہ ان
کو پسند کرتے ہیں ۔صدر ڈونلڈ ٹرمپ احمد آباد میں تین گھنٹہ گذارنے کے بعد
آگرہ جاکر تاج محل روانہ ہوگئے۔ اس انہیں احساس ہوا ہو گا کسی زمانے میں
مغل حکمراں کس طرح بے لوث محبت کیا کرتے تھے ۔ شاہجہاں نے اپنی زوجہ کے لیے
تاج محل تعمیر کیا اور بعد از موت بھی اس کے پہلو میں مدفون ہوا ۔ اس کے
برعکس نریندر مودی نے جیتے جی اپنی اہلیہ جسودہ بین سے کنارہ کشی اختیار
کرلی ۔ یہ کس قدر ستم ظریفی ہے کہ اس دورے پر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی اہلیہ ، بیٹی
اور داماد کے ساتھ ہیں لیکن وزیر اعظم نریندر مودی اپنی بیوی کی موجودگی کے
باوجود ان کے ساتھ نہیں ہیں۔
|