استخارہ: اﷲ تعالیٰ سے خیر طلب کرنے کا طریقہ

 جب کسی اہم کام کا ارادہ ہوتواستخارہ ضرور کرنا چاہیے ، حدیث شریف میں اس کی بہت ترغیب وارد ہوئی ہے ۔ علما نے لکھا ہے کہ جب کوئی کام کرنے کا ارادہ کرے تو اﷲ تعالیٰ سے صلاح لے ، اس صلاح لینے کو استخارہ کہتے ہیں۔ حدیث میں ا س کی بہت ترغیب آئی ہے ۔ حضرت نبی کریمﷺ نے فرمایا ہے کہ اﷲ تعالیٰ سے صلاح نہ لینا اور استخارہ نہ کرنا بد بختی او رکم نصیبی کی بات ہے ۔ کہیں منگنی کرے یا بیاہ کرے یا سفر کرے یا کوئی اور کام کرے تو بے استخارہ نہ کرے تو ان شاء اﷲ کبھی اپنے کیے پرپشماں نہ ہونا پڑے گا۔ [دیکھیے بہشتی زیور:37،دوسرا حصہ ، استخارے کی نماز کا بیان]حضرت سعد بن ابی وقاصؓسے مروی ہے ، رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ابنِ آدم کی سعادت ہے کہ وہ ہر معاملے میں اﷲ سے استخارہ کرے اور اس کے فیصلے پر راضی رہے ۔ اور ابنِ آدم کی بدنصیبی ہے کہ وہ اﷲ سے استخارہ کرنا چھوڑ دے اور اﷲ کے فیصلے پر ناگواری کا اظہار کرے ۔[مرقاۃ المفاتیح]

استخارے کی حقیقت
عموماً لوگ استخارے کی حقیقت نہیں جانتے ، سو استخارے کی حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک دعا ہے ، اس سے مقصود صرف طلبِ اعانت علی الخیر ہے یعنی استخارے کے ذریعے سے بندہ خدا تعالیٰ سے دعا کرتا ہے کہ [اے اﷲ] میں جو کچھ کروں اسی کے اندر خیر ہو اور جو کام میرے لیے خیر نہ ہو وہ [مجھے] کرنے ہی نہ دیجیے۔ [اغلاط العوام]

استخارے کا اہتمام
حضرت جابر بن عبداﷲ ؓ نے بیان کیا،رسول اﷲ ﷺ ہمیں تمام امور میں اس طرح استخارہ کرنا سکھاتے ،جس طرح قرآن کی سورت سکھاتے تھے۔ آپﷺ فرماتے تھے کہ جب تم میں سے کوئی شخص کسی کام کا ارادہ کرے تو فرض کے علاوہ دو رکعت [نفل نماز] پڑھے ، پھر کہے : اے میرے اﷲ میں تجھ سے تیرے علم کے ذریعے خیر اور تیری قدرت کے ذریعے قدرت طلب کرتا ہوں، اور تیرے فضلِ عظیم کی درخواست کرتا ہوں۔ تو قادر ہے ، میں قادر نہیں۔ تو علم رکھتا ہے ،مجھے علم نہیں۔ تو غیب کا سب سے زیادہ جاننے والا ہے ۔ اے میرے اﷲ اگر تیرے نزدیک یہ امر میرے دین اور معاش اور انجام کے لحاظ سے بہتر ہے تو اسے میرے لیے مقدر فرمادے اور میرے لیے اس میں آسانی پیدا کردے ،پھر اس میں میرے لیے برکت عطا فرما۔ اور اگر تیرے نزدیک یہ امر میرے لیے میرے دین، معاش اور انجام کار کے لحاظ سے برا ہے تو اس کو مجھ سے پھیر دے اور مجھ کو اس سے باز رکھ، اور میرے لیے بھلائی مقدر فرمادے ، جہاں بھی ہو۔ پھر مجھے اس پر راضی رکھ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: پھر اپنی حاجت بیان کرے ۔[بخاری]

خالی الذہن شخص کا استخارہ مفید تر
بعض لوگ کسی نئے کام کرنے کے لیے ہر حال میں استخارے کے لیے کہہ دیتے ہیں، سو یہ صحیح نہیں۔ بات یہ ہے کہ استخارہ [ہر شخص کے لیے نہیں بلکہ استخارہ کرنا] اس شخص کا مفید ہوتا ہے جو خال الذہن ہو، ورنہ جو خیالات دماغ میں بھرے ہوتے ہیں اُدھر ہی قلب مائل ہو جاتا ہے اور وہ شخص یہ سمجھتا ہے کہ یہ بات مجھ کو استخارے سے معلوم ہوئی ہے ، حالاں کہ خواب میں اس کے خیالات ہی نظر آئے ہیں۔[اغلاط العوام]

پہلے استخارہ، پھر ارادہ
استخارہ ہوتا ہے تردّد کے موقع پر اور تردّد کے معنی یہ ہیں کہ مصالح طرفین کے برابر ہوں اور جب ایک جانب کی ضرورت متعین ہو تو استخارے کے کیا معنی؟ پہلے سے اگر کسی جانب اپنی رائے کا رجحان ہو تو اس کو فنا کر دے [اور] جب طبیعت یک سو ہو جائے ، تب استخارہ کرے اور یوں عرض کرے کہ اے اﷲ! جو میرے لیے بہتر ہو وہ ہو جائے اور یہ دعا مانگنا اردو میں بھی جائز ہے ، لیکن حضورﷺ کے الفاظ بہتر ہیں۔یہ طریقہ استخارے کا نہیں کہ [کسی کام کا] ارادہ بھی کرو پھر برائے نام استخارہ بھی کر لو، استخارہ ارادے سے پہلے [کرنا] چاہیے ، تاکہ ایک طرف قلب کو سکون پیدا ہو جائے اور اسی طرف کا ارادہ کیا جائے ، اس میں لوگ بڑی غلطی کرتے ہیں۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ ارادے سے اول استخارہ کرنا چاہیے ، پھر استخارے سے جس طرف قلب میں ترجیح پیدا ہو جائے ، وہ کام کرنا چاہیے۔[اغلاط العوام]

سونا اور خواب دیکھنا
استخارے میں ضروری چیز دو رکعت نماز اور دعائے استخارہ ہے ، باقی سونا اور خواب کا دیکھنا ہرگز شرط نہیں۔ یہ سب کچھ عوام نے تصنیف کر رکھا ہے ، ہاں یہ ممکن ہے کہ بعض اوقات استخارے کا اثر خواب کی شکل میں بھی ظاہر ہو جائے ، لیکن اس میں اشتراط بالکل نہیں۔ بعض بزرگانِ دین سے جو بعضے استخارے اس قسم کے منقول ہیں، جس سے واقعہ صراحتاً یا اشارۃً خواب میں نظر آ جائے ، سو وہ استخارہ نہیں ہے بلکہ خواب نظر آنے کا عمل ہے ۔ پھر یہ اثر بھی اس عمل کا لازمی نہیں، [چناں چہ] خواب کبھی نظر آتا ہے کبھی نہیں۔ پھر خواب بھی اگر نظر آیا تو وہ محتاجِ تعبیر ہے ، اگرچہ صراحت سے نظر آئے ۔ پھر تعبیر بھی جو کچھ ہوگی وہ ظنّی ہے ، یقینی نہیں، تو اس میں اتنے شبہات تو بہ تو ہیں۔ پس اس کو استخارہ کہنا یا تو مجاز ہے ، اگر ان بزرگوں سے یہ تسمیہ [نام] منقول ہو، ورنہ اغلاطِ عامہ [میں]سے ہے ۔[اغلاط العوام]

استخارہ کبھی بھی اور کتنی بار بھی
رات کا وقت ہونا استخارے کے لیے ضروری نہیں، یہ صرف ایک رسم ڈال لی ہے ۔ صلوٰۃ الاستخارہ کے بعد سونا ضروری ہے اور نہ رات کی قید ہے ، کسی وقت مثلاً ظہر کے وقت دو رکعت نفل پڑھ کر دعاے مسنونہ پڑھے اور تھوڑی دیر قلب کی طرف متوجہ رہے [تو بھی استخارہ ہو جاتا ہے]۔ایک دن میں چاہے کتنی ہی بار استخارہ کرے اور ایک دفع بھی کافی ہے ۔ حدیث میں تو ایک دفع ہی آیا ہے [ہا ں کئی دفع کی ممانعت نہیں آئی]۔[اغلاط العوام]

ماضی یا مستقبل جاننے کے لیے
بعض کو خاص استخارہ اس غرض سے بتلاتے دیکھا ہے کہ اس سے کوئی واقعۂ ماضیہ یا مستقبلہ معلوم ہو جائے گا، سو استخارہ اس غرض کے لیے شریعت میں منقول نہیں،بلکہ وہ تو محض کسی امر کے کرنے نہ کرنے کا تردّد رفع کرنے کے لیے ہے ، نہ کہ واقعات معلوم کرنے کے لیے ۔ ایسے استخارے کے ثمرے پر یقین کرنا بھی نا جائز ہے۔[اغلاط العوام]

استخارے کا مندوب طریقہ
جب کسی کو کوئی اہم کام در پیش ہو اور اس کے کرنے یا نہ کرنے میں تردّد ہو اور کام کرنا مباح ہو یا اس میں تردّد ہو کہ وہ کام کس وقت کیا جائے تو تازہ وضو کرکے دو رکعت نمازِ اسخارہ [فرضوں وغیرہ کے علاوہ] پڑھے اور بہتر ہے کہ پہلی رکعت میں سورۂ کافرون اور دوسری میں سورۂ اخلاص پڑھے ۔۔۔ان دو رکعت کا سلام پھیرنے کے بعد دعاے استخارہ پڑھے اور اس دعا کے اول و آخر حمد و صلوٰۃ کا پڑھنا مستحب ہے ۔ اس لیے سورۂ الحمد شریف یا صرف الحمد ﷲ اور درود شریف پڑھ لیا کرے ۔[دیکھیے عمدۃ الفقہ]

استخارے کی دعا
استخارے کی دعا سے متعلق احادیث میں یہ الفاظ وارد ہوئے ہیں: اَللّٰھَمَّ اِنِّیْ اَسْتَخِیْرُکَ بِعِلْمِکَ وَاَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ وَاَسْئَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِیْمِ، فَاِنَّکَ تَقْدِرُ وَلَآ اَقْدِرُ، وَ تَعْلَمُ وَلَآ اَعْلَمُ، وَاَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبُ…… اَللّٰھَمَّ اِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ اَنَّ ھٰذَا الْاَمْرَ،خَیْرٌلِّیْ فِیْ دِیْنِیْ وَمَعَاشِیْ وَعَاقِبَۃِ اَمْرِیْ[وَعَاجِلِ اَمْرِیْ وَ آجِلِہٖ] فَاقْدِرْہُ لِیْ وَیَسِّرْہُ لِیْ ثُمَّ بَارِکْ لِیْ فِیْہِ، وَاِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ اَنَّ ھٰذَا الْاَمْرَ، شَرٌّ لِیْ فِیْ دِیْنِیْ وَ مَعَاشِیْ وَ عَاقِبَۃِ اَمْرِیْ [وَ عَاجِلِ اَمْرِیْ وَآجِلِہٖ] فَاصْرِفْہُ عَنِّیْ وَاصْرِفْنِیْ عَنْہُ وَاقْدِرْلِی الْخَیْرَ حَیْثُ کَانَ ثُمَّ رَضِّنِیْ بِہٖ۔[بخاری، ابوداؤد]دعا پڑھتے ہوئے جب ھذا الامر پر پہنچے تو دونوں جگہ اس کام کا دھیان جمائے جس کے لیے استخارہ کررہا ہے ،یا پوری دعا پڑھنے کے بعد اس کام کا ذکر کرے ۔

بعض مشائخ کا قول
بعض مشائخ سے منقول ہے کہ یہ دعا پڑھنے کے بعد با وضو قبلہ رو ہو کر سو رہے ، اگر خواب میں سفیدی یا سبزی دیکھے تو سمجھ لے کہ یہ کام اچھا ہے ، کرنا چاہیے ، اور اگر سیاہی یا سرخی دیکھے تو سمجھ لے کہ یہ کام برا ہے ، نہ کرنا چاہیے ۔ اگر دو رکعت معمولی نوافل و سنن مثلاً تحیۃ المسجد یا تحیۃ الوضو میں سے بھی پڑھ کر یہ دعا کرے ، تو جائز ہے ، لیکن اولیٰ یہی ہے کہ دو رکعت الگ استخارے کی نیت سے پڑھے اور اوقاتِ مکروہہ کے سوا جس وقت چاہے پڑھے ۔ اگر کسی وجہ سے نماز نہ پڑھ سکتا ہو مثلاً عجلت کی وجہ سے یا عورت حیض و نفاس کی وجہ سے یا اوقاتِ مکروہہ کی وجہ سے ، تو صرف دعا پڑھ کر استخارہ کرے ۔حج اور جہاد اور دیگر عبادات اور نیک کاموں میں یعنی فرض و واجب و سنت و مستحب کے کرنے اور حرام و مکروہ کے چھوڑنے کے لیے استخارہ نہ کرے یعنی اس طرح نہیں کرنا چاہیے کہ یہ کام کروں یا نہ کروں، کیوں کہ ان کاموں کے لیے تو وہ مامور ہے ۔ [عمدۃ الفقہ]

دلی رجحان کے خلاف عمل
بہتر ہے کہ استخارہ سات دن تک کیا جائے اور اگر سات دن میں بھی کسی جانب رجحان نہ ہو تو مسلسل استخارہ کرنے کے بعد جس جانب دلی رجحان ہو اس پر عمل بہتر اور خیر ہے ، لیکن اگر کوئی شخص کسی وجہ سے اس کے خلاف پر عمل کرلے تو شرعاً کوئی گناہ نہیں ہے ۔ اس لیے کہ دلی رجحان کوئی شرعی دلیل نہیں ہے ، بہر صورت اﷲ تعالیٰ سے خیر کا طالب رہنا چاہیے۔[امداد الفتاویٰ]
(مضمون نگار الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا کے ڈیریکٹر ہیں)



 

Maulana Nadeem Ahmed Ansari
About the Author: Maulana Nadeem Ahmed Ansari Read More Articles by Maulana Nadeem Ahmed Ansari: 285 Articles with 347167 views (M.A., Journalist).. View More