حالات کے درست ہونے کا تعلق حکاّم سے نہیں احکام سے ہے ۔فرائض
کو چھوڑ کر وظائف سے کبھی بھی حالات درست نہیں ہوسکتے۔حالات کا تعلق اعمال
سے ہے اور اعمال کا تعلق ایمان و یقین سے مربوط ہے۔ اﷲ کی مدد ہمیشہ مظلوم
کے ساتھ ہوتی ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ ہم مظلوم ہیں یہ بڑی غلط فہمی ہے، جبکہ
احادیث میں نماز چھوڑنے والے کو ظالم کہا گیا ہے۔مفہوم و خلاصہ ہے کہ سراسر
ظلمہے ، کفرہے اور نفاقہے اُس شخص کا فعل جو اﷲ کے منادی (یعنی موذن)کی
آواز سنے اور نماز کو نہ جائے۔ مسلمانوں کی اکثریت آج پنج وقتہ نمازکو ترک
کئے ہوئے ہے۔ نماز جیسے مہتم بالشان عمل کو ترک کرکے دُکان و مکان کی خیر و
برکت والی ہزاروں فریم لگوا کربھی برکت نہیں مِل سکتی۔ صلوۃ الحاجۃ اور دعا
جو عبادت کا مغز ہے، ان مسنون اعمال پر یقین ختم اور غیر مسنون بلکہ مشکوک
وظائف رٹنے پر حق الیقین ہو گیا ہے۔ معاملہ گویا بہت آسان ہو گیا۔ کون گناہ
چھوڑنے کی مشقت میں نفس کو ڈالے ۔کون شیطان و نفس سے جنگ کر کے نماز، دعا
اور صدقات کی طرف آئے۔مختلف پریشانیوں اور مصیبتوں سے بچاؤ کا اصل طریقہ
اور اُن کا حقیقی علاج صرف ایک ہی ہے کہ اپنے آپ کو گناہگار،خطاکار،
نافرمان اور قصوروار سمجھتے ہوئے اﷲ تعالیٰ سے معافی مانگی جائے اور گناہوں
کو چھوڑ کر اﷲ تعالیٰ کو راضی کرلیا جائے۔ کیونکہ سکون وراحت کے سب خزانے
اﷲ تعالیٰ کے پاس ہیں،وہی ان کا مالک ہے، جب مالک راضی ہوگا تو خوش ہوکر
اپنی مملوکہ چیز(سکون وراحت) اپنے فرمانبردار بندوں کو عطا کرے گا اور وہ
مالک راضی ہوتا ہے نافرمانی اور گناہوں کو چھوڑنے اور فرمانبرداری
اختیارکرنے سے۔اور اعمال صالحہ کی قبولیت لقمہ حلال پر موقوف ہے ۔آج حالات
کا تقاضہ ہے کہ مسلمان اپنی سمت اور منہج کو سمجھیں، خوابِ غفلت سے بیدار
ہوں اور شریعتِ الٰہی و سنتِ نبوی پر عمل پیرا ہونے میں کی جانے والی
کوتاہی کا خاتمہ کریں۔
|