پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ”ق“
دونوں کے درمیان اتحاد انوکھی بات نظر آرہی تھی لیکن اب خبروں کے مطابق کسی
بھی وقت متوقع ہے۔ چودھری برادران کو سینئر وزیر سمیت 8 سے زائد وفاقی
وزارتوں، 3 سے 4 وزرائے مملکت لینے اور دیگر اہم عہدوں کی پیش کش کی گئی ہے۔
دونوں جماعتوں کے رہنماﺅں نے اس بات کے قوی اشارے دیے ہیں کہ ان کے درمیان
اتحاد طے پا جائے گا۔ ملک کی اہم جماعتوں پر مشتمل قومی حکومت کی تشکیل کے
لیے سیاست دانوں کے درمیان از سر نو رابطے شروع ہوگئے ہیں۔ وزیراعظم گیلانی
کے مطابق سیاست لمحہ بہ لمحہ بدلتی صورتحال کا نام اور روز مرہ کا کام ہے،
اس میں کوئی بات حتمی نہیں ہوتی۔ صدر مملکت جناب آصف علی زرداری پر 3 سال
بعد یہ حقیقت آشکارا ہوگئی ہے کہ ”قاتل لیگ“ سے اتحاد پیپلزپارٹی کی بھی
ضرورت ہے۔ پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین کا موقف ہے کہ محاذ آرائی یا تصادم
نہیں، مفاہمت کی سیاست چاہتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ 3 سال گزرنے کے بعد ہی قومی حکومت بنانے کی ضرورت کیوں پیش
آئی، تو اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ پی پی نے اتحادی جماعتوں کے سہارے کسی
نہ کسی طرح مذکورہ عرصہ گزار تو لیا اب باقی ماندہ مدت پوری کرنے کے لیے
انہیں ”قومی حکومت“ کی نئی اصطلاح متعارف کرانا پڑ رہی ہے۔ دوسری وجہ یہ
نظر آتی ہے کہ حکومت فیصلے کرنے میں آزاد نہیں، انہیں عوام کا خون چوسنے کے
لیے ”فری ہینڈ“ چاہیے، جیسے آئی ایم ایف کا حکم ہے کہ پیٹرول کی قیمتیں
مزید بڑھائی جائیں، نیز آر جی ایس ٹی اور فلڈ سر چارج نافذ کریں گے تو قرض
کی اگلی قسط ملے گی۔ تیسری وجہ یہ دکھائی دیتی ہے کہ حکومت نے ایم کیو ایم
کے روز روز کے مطالبات سے جان چھڑانے کے لیے ”قاتل لیگ“ کی طرف دوستی کا
ہاتھ بڑھایا۔ ق لیگ کے پاس 50 اراکین ہیں اگر وہ حکومت کا حصہ بنتی ہے تو
پی پی کا آئے روز کا درد سر ختم ہوجائے گا۔ چوتھی وجہ یہ محسوس ہوتی ہے کہ
جون میں بجٹ آرہا ہے جبکہ حکومت کے لیے موجودہ پوزیشن میں بجٹ منظور کرانا
مشکل تھا۔ پانچویں وجہ یہ ہے کہ صدر زرداری اور مونس الٰہی کے خلاف مقدمات
زیر التوا ہیں اگر فیصلہ ان کے خلاف آتا ہے اور اس سے سیاسی منظر نامہ
ممکنہ طور پر تبدیل ہوتا ہے تو پیپلزپارٹی اور ق لیگ کا اتحاد دونوں کے
مفادات کے لیے معاون ثابت ہوگا۔
دوسری جانب جے یو آئی (ف) نے وفاقی کابینہ میں شمولیت سے ایک بار پھر انکار
کردیا ہے جبکہ ایم کیو ایم ”دیکھو اور انتظار کرو“ کی پالیسی پر عمل پیرا
ہے۔ بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو سیاسی اعتبار سے تنہا کرنے
کے لیے یہ ساری بھاگ دوڑ کی جارہی ہے اور وہ آئندہ کے سیاسی منظر نامے میں
تنہائی کا شکار ہوتے نظر آرہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نواز لیگ نے اس صورتحال پر
احتجاجی لائحہ عمل اختیار کرنے اور کھل کر حکومت کے خلاف میدان میں آنے کا
فیصلہ کرلیا ہے، اس سلسلے میں میاں نواز شریف کی لندن سے واپسی پر بھر پور
عوامی رابطہ مہم شروع کر کے حکومت کو جواب دیا جائے گا۔ ن لیگ کے ذرائع کا
کہنا ہے کہ نواز شریف کی وطن آمد کے ساتھ ہی ملک کے سیاسی ماحول میں تیزی
اور تبدیلی کی ہوا چل پڑے گی۔
حکومت میں شمولیت کے معاملے پر ق لیگ کے ارکان قومی اسمبلی دو حصوں میں
تقسیم ہوگئے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کم از کم 20 ارکان قومی اسمبلی نے
پیپلزپارٹی سے اتحاد کی کھل کر مخالفت کردی ہے جس کی وجہ سے چودھری برادران
کو حتمی فیصلے تک پہنچنے میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ذرائع
بتاتے ہیں کہ مسلم لیگ ق کی قیادت کی خواہش ہے کہ پی پی سے اتحاد کو آئندہ
انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جائے۔ ق لیگی قیادت کے
لیے سب سے اہم چیز بجٹ کے بعد کی صورتحال ہے جس میں امکانی الیکشن کے ساتھ
ساتھ اگلی حکومتوں اور انتخابی حلقہ جات کے بارے میں ابھی سے یہ طے کرنا ہے
کہ کسی حلقے سے آئندہ ٹکٹ کا حق دار قرار دینے اور نہ دینے کے لیے معیار
کیا ہوگا۔ ان ساری چیزوں پر اعلیٰ سطحی مشاورت جاری ہے۔
کہا جارہا ہے کہ پی پی اور ق لیگ کے اتحاد کا فائدہ دونوں جماعتوں کو ہوگا
اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت کرے گا کہ کس نے کیا پایا اور کیا کھویا تاہم
اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو اس ممکنہ اتحاد کے ذریعے پیپلزپارٹی، ق لیگ کو
استعمال کر رہی ہے۔ مفاہمت کا زیادہ فائدہ پی پی کو اس طرح ہوگا کہ روٹی،
کپڑا اور مکان کا نعرہ لگا کر برسر اقتدار آنے والی جماعت نے گزشتہ 3 برسوں
میں غریبوں سے جینے کا حق بھی چھین لیا ہے، موجودہ حکمران انتہائی غیر
مقبول ہوچکے ہیں سو اس وقت جو بھی پی پی کے ساتھ چلنے کی کوشش کرے گا یا ان
کا سہارا بنے گا وہ ان کی ساری کوتاہیوں اور غلطیوں میں شریک سمجھا جائے
گا۔ سب سے بڑھ کر بات یہ ہے کہ یہ وہی ق لیگ ہے جو 3 سال سے موجودہ
حکمرانوں کے کرپٹ ہونے کا ڈھنڈورا پیٹ رہی ہے۔3 سال سے ان کا مؤقف تھا کہ
ملک میں کوئی گورننس نہیں ہے، امن و امان کی صورتحال بہت خراب ہے۔ یہی
جماعت 3 سال سے کہہ رہی ہے کہ ڈرون حملے بند ہونے چاہئیں۔ اسی جماعت کے
سیکرٹری جنرل مشاہد حسین سید کہتے رہے ہیں کہ پیپلزپارٹی ”لُٹو اور پھٹو“
کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اب اسی نے پی پی سے اتحاد کی باتیں شروع کردی
ہیں تو کیا ق لیگی رہنما 3 سال سے جھوٹ بول رہے تھے؟
گزرے برسوں میں پیپلزپارٹی حکومت ملک و قوم کا کوئی ایک بھی بنیادی مسئلہ
حل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ پورے ملک میں امن و امان کی صورتحال ناگفتہ بہ
ہوچکی ہے۔ تمام تر بلند بانگ حکومتی دعوؤں کے باوجود کراچی میں روزانہ
لاشیں گر رہی ہیں۔ معیشت آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے سود خور اداروں کے
سہارے چلائی جارہی ہے۔ اتائی وزیر خزانہ امداد کے لیے در در بھیک مانگتے
پھررہے ہیں۔ مہنگائی اوربے روزگاری نے شہریوں کا جینا دوبھر کردیا ہے۔ غیر
اعلانیہ اور طویل لوڈشیڈنگ پر عوام ”بل بلا“ اٹھے ہیں۔ ان حالات میں بھی
حکمران ”مفاہمت اور قومی حکومت“ جیسے تماشوں میں لگے ہوئے ہیں۔ اب مسلم لیگ
ق بھی پیپلزپارٹی کی اتحادی بننے کے لیے پر تول رہی ہے تو قومی مفاہمت کے
اس نئے کھیل میں عوام کو تو کچھ نہیں ملے گا البتہ تمام سیاسی جماعتوں اور
ان کے رہنماﺅں کے ذاتی مسائل ضرور حل ہوجائیں گے۔ |