حسب سابق موسم گرما کی آمد کے
ساتھ ہی لوڈشیڈنگ میں اضافہ ہوچکا ہے۔پاکستان میں گرمی کی شدت اور بجلی کی
عدم دستیابی اب لازم ملزوم بن چکے ہیں۔اخباری اطلاع کے مطابق کے ایس سی کا
شارٹ فال 550میگاواٹ سے تجاوز کرچکا ہے۔کراچی الیکڑک سپلائی کمپنی کی جانب
سے شدید گرمی کے دوران شہر کے بیشتر رہائشی وتجارتی علاقوں میں اعلانیہ
وغیراعلانیہ طور پر 6سے 8گھنٹے کی مرحلہ وار لوڈشیڈنگ کے باعث اہل کراچی کو
شدید ذہنی کوفت اٹھانا پڑ رہی ہے۔
ملک میں موجود بحران در بحران کی کیفیت نے جس طرح ایک عام شہری کو نفسیاتی
طور پر ماﺅف کر رکھا ہے، وہ اہل اقتدار کے لیے کوئی نیگ شگون نہیں۔حالات
وواقعات اس بات کا بین ثبوت پیش کر رہے ہیں کہ اقتدار کے ایوانوں ،حکومت کے
بالاخانوں اور کرسی کے چاہنے والوں میں قوم کو درپیش مشکلات ومصائب کا
حقیقی ادراک نہیں پایا جارہا ہے۔بے شک ایسے لمحات میں جب خود ساختہ توانائی
بحران کو ختم کرنے کے لیے ایک سے زیادہ حل اور امکانات موجود ہیں،ارباب بست
وکشاد کا لیت ولعل کئی سوالات جنم دے رہا ہے۔ یہی وجہ کہ اہل وطن حاکمان
وقت کے دل خوش کن دعوؤں، نعروں اور وعدوں کو طفل تسلی تک ہی محدود سمجھتے
ہیں۔
اس تناظر میں معاشی احوال کو حقائق ومشاہدات کی کسوٹی پر پرکھنے کی ضرورت
ہے۔ توانائی کی دگرگوں صورتحال نے جہاں عام آدمی کو ہر لحاظ سے بے چین کر
رکھا ہے ،وہاں ملک کی تاجر برادری بھی ہاتھ پر ہاتھ دہرے بیٹھی ہے۔ایف پی
سی آئی کے صدر سینیٹر غلام علی نے اپنے تازہ بیان میں کہا ہے:”ملکی صنعت
اور کاروباری مراکز بجلی،گیس کے بحران اور امن وامان کی مخدوش صورتحال کے
باعث مشکلات سے دوچار ہیں،لیکن حکومت اپنے سیاسی مسائل میں مصروف عمل
ہے۔حکومتی مشیروں کو بیرونی ممالک کے دورے اور آئی ایم یف سمیت دیگر بین
الاقوامی مالیاتی اداروں کو خوش کرنے کے علاوہ کوئی کام نہیں ہے۔ جس سے
ملکی کارخانوں پر تالے لگ رہے ہیں جبکہ صنعتیں پیداواری عمل کی بجائے بڑھتی
ہوئی پیداواری لاگت کے سبب ،برآمدی آرڈر کی تکمیل کرنے سے قاصر ہیں۔“
سوال یہ ہے کہ ملک کی معیشت کا دیوالیہ نکل جانے کے باوجود حکومتی منصب
داروں کا مجموعی طرزعمل کیا ہے؟غیروں کے سامنے ایڈ نہیں ٹریڈ کا نعرہ بلند
کرنے والے خود اپنی اقتصادیات کی بحالی کے لیے کس قدر کوشاں ہیں؟اس سوال کے
جواب کے لیے کسی خاص زائچہ کی ضرورت نہیں۔سردست بھارتی آبی جارحیت کے حوالے
سے، سندھ طاس واٹر کونسل کے چیئرمین حافظ ظہور الحسن ڈاہر نے چیف جسٹس اور
چیف آف آرمی اسٹاف سے جو حالیہ اپیل کی ہے ۔وہ بہت سے چہروں کا نقاب الٹنے
کے لیے کافی ہے۔ظہورالحسن ڈاہر کا کہنا ہے :”سندھ طاس دنیا میں ایک ایسا بے
مثال قدرتی آبی نظام ہے کہ اگر صحیح سطح پر اس کی واٹر مینجمنٹ کی جائے تو
جنوبی ایشیا کی 30فیصد آبادی کو غلہ فراہم کیا جاسکتا ہے۔لیکن ہمسایہ ملک
بھارت محض جنگی حکمت عملی کے تحت یہودی لابی کے بھرپور اشتراک سے دنیا کے
اس بے مثال آبی نظام کو تباہ کر رہا ہے۔ہماری کرپٹ اسٹیبلشمنٹ اور سول
سوسائٹی کے کچھ پردہ نشین بھارت کے ساتھ ملے ہوئے ہیں اور بیرون ملک اپنی
تجوریاں بھر رہے ہیں۔اس معاملے میں تاحال پاکستان کی طرف سے کوئی اعتراض
نہیں اٹھایا گیا ہے جبکہ وزیر پانی وبجلی اور وزیر ماحولیات اپنے آپ کو ”بے
قصور“ثابت کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔“
بلاشبہ ملک عزیز میں موجود معدنی ذخائراور قدرتی وسائل سے بڑی حد تک برقی
توانائی کے حصول میں مدد لی جاسکتی ہے۔موجودہ بحران سے عمدہ طریقے سے نکلا
جاسکتا ہے۔اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیے کہ صرف تھر کوئلے سے بغیر کسی
ماحولیاتی آلودگی کے 50ہزار میگاواٹ بجلی 8سو سال تک پیدا ہونے کا قوی
امکان ہے۔واضح رہے پاکستان کوئلے کے ذخائر کے اعتبار سے دنیا میں تیسرے
نمبر پر ہے۔
ممتاز ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر ثمر مبارک مند کے بقول:”اس وقت ملک میں صرف
2.5فیصد توانائی کوئلے سے حاصل کی جارہی ہے۔دنیا کے کئی ممالک 40سے60فیصد
توانائی کوئلے کے ذخائر کو بروئے کار لا کر حاصل کر رہے ہیں۔نیز جدید
ٹیکنالوجی کے ذریعے کوئلے سے روزانہ بڑی مقدار میں ڈیز ل حاصل کیا جا رہا
ہے۔“ ایک اور رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہوا سے 3لاکھ 46ہزار ،سمال
ہائیڈرو پاور پراجیکٹس سے 4ہزار 500اور بائیوماس سے 4000میگاواٹ بجلی پیدا
کی جاسکتی ہے۔اس وقت ملک میں تیل کی ضروریات کا 90فیصد درآمد کیا جارہا
ہے۔موجودہ صورتحال کا تقابل مستقبل سے کرتے ہوئے ”متبادل توانائی بورڈ“ کے
چیف ایگزیکٹو عارف علاﺅالدین کا کہنا ہے کہ اگر متباد ل توانائی کی پیداوار
میں اضافہ نہ کیا گیا تو 2015ءتک تیل کا درآمدی بل 11ارب ڈالر سے بڑھ کر
38ارب ڈالر ہوجائے گا۔
مندرجہ بالا اعدادوشمار اور زمینی حقیقتوں کو دیکھا جائے تو واضح طور پر یہ
بات سامنے آتی ہے کہ موجودہ حکومت عوامی مسائل کے حل میں مکمل طور پر ناکام
ہوچکی ہے۔ملک میں دستیاب سستی،معیاری اور اضافی بجلی کے تمام وسائل کو چھوڑ
کر رینٹل پاور جیسے مہنگے ترین منصوبوں کو ترجیح دینا کونسی قومی خدمت
ہے؟کیا یہ حقیقت کسی صاحب منصب سے چھپی ہوئی ہے کہ کرائے کے بجلی گھروں سے
ایک میگا واٹ بجلی کے لیے 1.4ملین ڈالر کی لاگت آتی ہے جبکہ اتنی رقم
موجودہ ذرائع پر خرچ کر کے 10ہزار میگاواٹ بجلی پیداکی جاسکتی ہے ؟آپ بے
حسی کی انتہا دیکھئے کہ تھرکول منصوبے تحت جس بجلی یونٹ کی قیمت کم
ازکم3.90 روپے ہونا چاہیے تھی ،آج صاحبان اقتدار کی ناقص تدبیروں کے سبب اس
سے کئی گنا اضافے کے ساتھ قوم کو بھگتنا پڑ رہی ہے۔تاحال یہ سلسلہ رکا
نہیں۔بجلی کی قیمتوں میں آئے روز ظالمانہ اضافہ اس پر مستزاد ہے۔
یادش بخیر سال گزشتہ میڈیا رپورٹوں میں یہ بات منظر عام پر آچکی ہے کہ
18ارب روپے میں رینٹل پاور سے صرف 90 میگاواٹ بجلی پیدا کی گئی۔یہ امر بھی
پیش نظر رہے کہ ملک میں بجلی کی کل طلب 15سے16ہزار میگاواٹ ہے ۔جبکہ
پیپکو19500میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔رہ گیا یہ سوال کہ اس
تمام گورگھ دھندے کے پس پردہ کن لوگوں کا ہاتھ کار فرما ہے؟اس بابت رکن
قومی اسمبلی مخدوم فیصل صالح حیات کا وہ حوالہ ہی دینا کافی ہوگا،جو انہوں
نے گزشتہ برس عدالت عظمیٰ کے روبرو رینٹل پاور سرکاری پالیسی کیس میں دلائل
کے دوران دیا تھا کہ:”کرائے کے بجلی گھروں کے منصوبے میں 400ملین ڈالر کی
کک بیکس شامل ہیں اور اس میں دو ٹاپ سیاسی شخصیات کو فائدہ ہوا۔جس پر جسٹس
غلام ربانی نے استفسار کیا ان دو شخصیتوں کے نام بتائیں جائیں۔درخواست
گزارنے کہا کہ اتنا بتا سکتا ہوں کہ یہ دونوں شخصیات حکومت چلا رہی ہیں۔“
قارئین !بدعنوانی،اختیارات کے ناجائز استعمال اور قومی مفادات کو نظرانداز
کرنے کا جو رویہ ،موجودہ ارباب حکومت کی طرف سے مسلسل اختیار کیا جا رہا ہے
۔اس نے عوام کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ ملک میں بجلی کا بحران
حقیقی نہیں فرضی ہے۔ |