وطنِ عزیز کو قائم ہوئے 72سال بیت چکے ہیں ،کسی بھی
ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لئے یہ ایک طویل عرصہ ہے مگر افسوس کہ
ہم ان ممالک سے بھی بہت پیچھے ہیں جو ہم سے کافی عرصہ بعد آزاد ہوئے۔یہاں
جو بھی حکمران آیا ،وہ بلند باگ دعوے ضرور کرتا رہا مگر نتیجہ تمام
حکمرانوں کا صفر رہا ۔ اس وقت عمران خان پاکستان کے وزیرا عظم ہیں ، عمران
خان نے بھی ماضی کے حکمرانوں کی طرح پاکستان میں تبدیلی کے دعوے تو کئے ہیں
مگر لگتا یہی ہے کہ وہ بھی اپنے اس دعویٰ میں بری طرح ناکام ہو نگے۔ وجہ یہ
نہیں کہ عمران خان کی نیّت خراب ہے یا ماضی کے حکمرانوں کو پاکستان کو ترقی
کی راہ پر چلنا گوارہ نہیں تھا بلکہ ان تمام نا کامیوں کے پیچھے ایک ہی وجہ
ہے اور وہ وجہ ہے ’’ خوف کا نہ ہونا ‘‘ اﷲ تعالیٰ نے جب انسان کی تخلیق کی
تو وہ اس کے نفسیات اور جبلتوں کو خوب جانتا تھا، یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید
میں جہاں انعام و اکرام کا ذکر ہے وہاں سزا کا بھی ذکر ہے ،جہاں جنّت کا
ذکر ہو وہاں دوزخ کا بیان بھی ہے۔ اس لئے کہ انسان کی اصلاح کے لئے ’خوف ‘
کا ہونا لازمی ہے ۔ اﷲ تعالیٰ نے جہاں انسان میں پیدائشی طور پر خیر اور شر
کی قوتیں پیدا کی ہیں ،وہاں جزا و سزا کا تصور بھی رکھ دیا ہے۔ اگر کسی
معاشرے میں سزا کا تصور مفقود ہو جائے تو وہاں کسی خیر کی توقع رکھنا
دیوانے کا خواب تو ہو سکتا ہے مگر عملا ایسا ممکن نہیں۔
اب آئیے ! ذرا اپنے ملک پاکستان کے ماضی یا حال پر ٹھنڈے دل سے غور کیجئے،
کیا یہاں کوئی بھی شخص غلط کام کرتے ہو ئے ملکی قانون کے گرفت سے ڈرتا ہے ؟
ہر گز نہیں، پاکستان کا قانون مکڑی کا جالہ ہے جس میں طاقتور تو پھنستا ہی
نہیں، البتہ بعض کمزور لوگ اس میں پھنس جاتے ہیں۔اس ملک کے دولت کو
باختیاار لوگوں نے بار بار لوٹا مگر کیا کسی کو سزا مِلی ؟ نہیں،، نچلی سطح
پر بھی دولت کے حصول کے لئے ہم جتنی بے ایمانی کر سکتے ہیں، کر لیتے ہیں،
کیا کسی کو سزا مِلتی ہے، نہیں ، گویا پاکستان ایک ایسا جنگل بنا ہوا ہے جس
میں کوئی قانون نہیں، کسی کا خوف نہیں ، اﷲ کا خوف ہے نہ ملکی قانون کا خوف
ہے۔یہی بڑی وجہ ہے جس کی وجہ سے ملک ترقی نہیں کر رہا ہے۔
آپ ملک کی موجودہ صورتِ حال پر نظر دوڑائیں، عمران خان ، ’ نہیں چھوڑونگا ،
نہیں چھوڑونگا ‘‘ کا رّٹ لگا رہا ہے ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہمارا عدالتی
نظام اس قابل ہے کہ وہ ان لوگوں کو سزا دلوا سکے جن کے پاس ملک کے بڑے بڑے
وکیل ہیں، دولت کی فراوانی ہے ؟
ہر گز نہیں، اس طرح کے مقدمات تو ماضی بھی مخالفین پر یا ملکی خزانہ کو
لوٹنے والوں پر بنتے رہے ہیں مگر کسی کو قابلِ ذکر سزا ملی؟۔ نہیں، بلکل
نہیں ‘‘ یہی وجہ ہے کہ عوام اور خواص، خصوصا ، خواص کے دلوں میں کسی قسم کا
خوف موجود نہیں، وہ غلط کام کرتے ہوئے بالکل کسی قسم کا خوف محسوس نہیں
کرتے اور خوف نہ ہو تو انسان پھر انسان نہیں،لٹیرا بن جاتا ہے ۔
سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ ان حالات میں وطنِ عزیز کے باسیوں کو کس طرح راہِ
راست پر ڈالا جائے تاکہ یہ ملک ترقی کرے ، ذلّت کے گڑھے سے کس طرح اس قوم
کو نکالا جائے ؟ میرے خیال میں اس کا ایک ہی حل ہے اور وہ حل ہے ’’ سخت
ترین سزاؤں کا نفاذ ‘‘ اس بات کو اگر یقینی بنایا جائے کہ جو بھی شخص غلط
کام کرے گا ،اسے سخت سزا ضرور ملی گی تو کسی کی یہ ہمّت نہیں ہو گی کہ وہ
غلط کام کا ارتکاب کرے۔ چین، فرانس اور روس کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں،
وہاں بھی بالکل ایسی صورتِ حال تھی جیسے اس وقت وطنِ عزیز میں ہے،جس کی
لاٹھی اس کی بھینس، والی صورتِ حال تھی مگر جب وہاں سر کٹے تو تبدیلی آئی
اور آج وہاں لوگ خوشحال زندگی گزار رہے ہیں ۔ اس وقت پاکستان کی آبادی
تقریبا21کروڑ ہے ہے،روز ایکسیڈنٹ اور بیماریوں سے سینکڑوں لوگ اس دنیا سے
انتقال کر جاتے ہیں اگر ملک کو سیدھے راہ پر ڈالنے اور حقیقی معنوں میں
تبدیلی لانے کے لئے دو چار ( 4 2) یعنی صرف بیالیس افراد کی قربانی دی جائے
تو یہ مہنگا سودا نہیں ہو گا، یعنی پچاس لاکھ میں صرف ایک فرد کو غلطکام
یعنی کرپشن ، ذخیرہ اندوزی اور دیگر جرائم کے جرم پر لٹکا دیا جائے تو یقین
جانیئے کہ ملک میں ’’خوف ‘‘ کی ایک ایسی صحت مند فضا قائم ہو جائے گی کہ
کسی کو اس مملکتِ خدا داد میں غلط کام کرنے کی جراء ت نہیں ہو گی ۔ملک خود
بخود سیدھے ٹریک پر رواں دواں ہو جائے گا۔سخت ترین سزا کے خوف کے بغیر
پاکستان میں تبدیلی کا خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔اب اس ملک
کو ترقی وخوشحالی کی راہ پر گامزن کرنے کے لئے ایک ہی طریقہ رہ گیا ہے کہ
بڑے مگر مچھوں میں سے ’’ دو چار کو لٹکا دو، پاکستان کو بنا دو ‘‘ |