فضاؤں کی بلندیاں ہوں یا زمین کی گہرائیوں میں چھپے
دشمنوں کے ٹھکانے، ہماری پاک فضائیہ کی عقابی نگاہوں سے کوئی نہیں بچ سکتا
۔ماضی سے حال تک کے زمانوں میں ہماری پاک فضائیہ نے نہ صرف آسمان کی وسعتوں
میں دشمن سے جھڑپوں کے دوران ان پر اپنی دھاک بٹھائی بلکہ دنیا پر افواج
پاکستان کی برتری اور بہادری کو بھی ثابت کیا ہے ۔پاکستانی افواج کے شیر دل
جوانوں کی دھاڑ اور مار نے ہر محاذ پر ہمیشہ دشمنوں کے چھکے چھڑا دئیے اور
یہ کاروائیاں ابھی تک جاری ہیں کیونکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری ہے ۔تاہم
دشمن پر واضح ہو گیا ہے کہ خطہء پاک کے محافظوں اور اقبال کے شاہینوں کی
پلٹ ،جھپٹ اور پکڑ سے بچنا نا ممکن ہے کیونکہ ہمارے عسکری جوان یہ عزم لیکر
پیدا ہوتے ہیں کہ ’’اے وطن تو نے پکارا تو لہوکھول اٹھا ۔۔ترے بیٹے ترے
جانباز چلے آتے ہیں ‘‘ ۔یہ میرے غازیان شعلہ نوا ،میرے شہیدان وطن ،
بلندیوں کے شہسوار ،عظمتوں کے شاہکار ،دشمنوں کے لیے تلوار اور ملک و قوم
کے ایسے جانثارہیں کہ جن کی ہیبت سے صحرا و دریا سمٹ جاتے ہیں اورکوہسار
کانپتے ہیں ۔ خاک شہداء سے ارض وطن کا ذرہ ذرہ آفتاب کی طرح روشن ہے کہ
ریگزاروں میں شہدائے ملت کے لہو کی سیرابی اور وطن عزیز میں ہر طرف گلوں کی
شادابی ہے اور ہمیں کوئی ڈر نہیں کیونکہ ہمارے شاہین جری جوان اڑے جا رہے
ہیں زمیں سے آسماں تک ،مکاں سے لا مکاں تک ، افق تا افق پورے فلک پر چمکتے
،دھمکتے تاروں کی مانند پھیلے ہوئے ہیں کہ جو ٹوٹ کر گریں تو دشمن کے
آشیانے راکھ کر دیں اور اڑان بھریں تو غاصبوں کے دل دہل جائیں ۔ اقبال نے
ایسے ہی تو نہیں کہا تھا کہ ’’ پرے ہے چرخ نیلی فام سے منزل مسلماں
کی،ستارے جس کی گرد راہ ہوں وہ کارواں تو ہے ‘‘۔ بے شک جن کے دلوں میں قرآن
ہو ، لبوں پر خدا کا نام ہو اور وطن عزیز سے وفا و جانثاری کا پیمان ہو
ایسے کلمہ گو پروانوں کو بھلا کون جلا سکتا ہے ۔۔! پاک فضائیہ کی مہارت اور
جانبازی کی تو دنیا معترف ہے ۔کون نہیں جانتا کہ پاک فضائیہ کے ایم ایم
عالم نے ایک منٹ سے کم وقت میں بھارت کے پانچ جنگی طیارے مار گرائے اور
دنیا کی فضائی جنگی معرکہ آرائی میں ایک ناممکن ریکارڈ قائم کر دیا کہ دنیا
کے دفاعی ماہرین نے اسے دفاع کی بہترین حکمت عملی قرار دے دیا ۔ہر لمحہ
دشمن کو نیست و نابود کرنے میں محوِ حرکت، جانبازی اور سر فروشی کی تمنا دل
میں لیے، دشمن کے قبیح عزائم کو خاک میں ملاتے، میرے شاہینوں نے ہر جنگ میں
جرات اور بہادری کی لازوال داستانیں رقم کیں کہ جب کبھی بھی پاکستان کے
ازلی حلیف بھارت نے مذموم پیش قدمی کی تو ہمارے جانبازوں سے منہ کی کھائی
جیسا کہ اس بار بھی بھارت نے پاکستان کو ترنوالہ سمجھتے ہوئے پیش قدمی کی
کہ اپنا ایک اہم ترین ، قابل ترین اور ماہر فوجی ’’ابی نندن‘‘ کو جنگی
طیارہ دیکر فضا میں چھوڑدیا جس کا جہاز مار گرایا گیا اور و ہ موقع پرپکڑا
گیا مگر اداروں نے متفقہ فیصلوں کے بعد بلند حوصلے کا مظاہرہ کرتے ہوئے،
امن کی آشا کی نیت اور مصلحت خیر سے اسے بھارتی حکومت کو واپس سونپ دیا مگر
بھارتی کرتا دھرتا کی طرف سے نفرت اور تخریبی کاروائیاں عروج پر رہیں جن کا
مقابلہ ہماری افواج دن رات سرحدوں پر کر رہی ہیں در حقیقت مودی سرکار اس
خطے کا سب سے بڑا دہشت گرد ہے اور پورے خطے کے لیے خطرہ ہے جس کے عزائم کھل
کر دنیا کے سامنے آچکے ہیں لیکن یہ بات بھی سب پر عیاں ہو چکی ہے کہ
پاکستان نا قابل تسخیر ہے کیونکہ پاکستان کا دفاع مضبوط ہے۔ پاک آرمی دنیا
کی ایسی جری فوج ہے کہ جس کا مقابلہ تو درکنار ، اگر کوئی دکھاوے کے طور پر
بھی کوئی کاروائی کرتا ہے تو اُس کاچہرہ خاک آلود ہوجاتا ہے ۔ دشمن پر
ہماری جری فوج کی ہیبت کا تو یہ حال ہو چکا ہے کہ اگر کوئی کبوتر بھی سر حد
پار چلا جائے تو بھارتی سینا کانپنے لگتی ہے کہ ڈرون یا کوئی ہوائی حملہ تو
نہیں ہوگیا ۔ اس سے بڑھ کر عسکران پاکستان کا ڈر اور خوف کیاہوگا ۔
پاکستان کی نظریاتی اور جغرافیائی حدود کے دفاع کی ہماری ذمہ دار مسلح
افواج وطن عزیز کا سب سے بڑا منظم ، جانثار اورشفاف ادارہ ہے ۔جو کہ اپنے
فرائض تندہی اور ذمہ داری سے سر انجام دے رہا ہے ۔قیام پاکستان سے لیکر آج
تک افواج پاکستان نے اپنے حریف بھارت سے چار جنگیں لڑ ی ہیں۔ جس میں دشمن
کو دندان شکن جواب دیا گیا اور کامیابی کے جھنڈے گاڑے گئے ہیں اور اب بھی
ملک دشمنوں کے خلاف جنگ جاری ہے جس میں افواج پاکستان کی خدما ت قابل تحسین
ہیں ۔سیاسی شعبدہ باز شعبدہ بازیاں دکھا کر مفادات کی جنگ لڑتے ہوئے عوام
الناس کے جذبات سے کھیلتے ہیں اور ان سر بکف مجاہدین کے خلاف بولتے ہیں
جبکہ ہماری سرحدوں کے محافظوں کی قربانیوں سے ہی ملک و قوم کو استحکا م
حاصل ہے اور راوی جو تھوڑا بہت چین لکھ رہا ہے اس کی وجہ ہمارے جانباز ہی
ہیں کیونکہ نظریہ پاکستان اور اسلام کے تقاضوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے خطہ
پاک کے شہریوں کے مفادات، سلامتی اور وقار کے منافی سرکشی اور بغاوت کرنے
والے افراد اور گروہوں کو معلوم ہے کہ انتہائی لا قانونیت اور لوٹ مار کے
نتیجہ میں اگر بات پاک آرمی کے سپرد ہوگئی یا آرمی کو مداخلت کے لیے بلایا
گیا تو پاک وطن کے رکھوالے اس خطہ پاک اور اس کے شہریوں کے خلاف کوئی منفی
سرگرمی جاری نہ رہنے دیں گے ۔حتی کہ اگر دہشت گردی جیسے انتہائی اقدام بھی
نظر آئے تو ایسے نیٹ ورک بھی تباہ و برباد جائینگے۔
یہ بات سوچنے کی ہے کہ ہم سب ایک ہیں اور اس ملک کے شہر ی ہیں ۔کوئی بزنس
مین ،کوئی سرکاری یا غیر سرکاری ملازم ،کوئی شاعر و ادیب یا پرنٹ میڈیا یا
الیکٹرانک میڈیا یا نشر و اشاعت پر مامور ہے ، کوئی قانون و انصاف کے شعبوں
سے وابستہ ہے ، کوئی اپنے ملک کی مسلح افواج کا حصہ بن کر دفاع وطن اور
خدمت خلق کیلئے خود کو وقف کئے ہوئے ہے جبکہ کچھ لوگ سیاسی سرگرمیوں میں
مشغول ہیں اور ان میں بعض اپنی ہو شیاری چالاکی سے عہدے دار منتخب ہوتے ہیں
اور عوام سے خدمت ملک و ملت کا وعدہ کر کے ووٹ لیتے ہیں اور اپنا ووٹ دیتے
وقت ہی اکثر بک جاتے ہیں اور عہدے ملنے پر ہر بات بھول جاتے ہیں اور بعد
ازاں جب اپنے مفادات پر ضرب پڑتی ہے تو پھر ایک دوسرے کے مخالف ہو جاتے ہیں
۔۔اگر قیام پاکستان سے لیکر آج تک کے ملکی سیاسی اور تاریخی حالات کا جائزہ
لیا جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ جس میں جتنا دم تھا اس نے
اتنا ملکی ذرائع کو لوٹا اور جو مخلص تھا وہ مسلسل محروم رہا ۔حتی کہ ایسے
حالات و واقعات بھی سامنے آئے کہ ملکی یاغیر ملکی ناجائز اور غیر قانونی
مداخلت سے وقتاً فوقتاًہر کیٹگری کے لوگ عہدوں سے ہٹائے گئے اور سزا یافتہ
بھی ہوئے اور جب ذاتی مفادات میں نفع بخشی یا کوئی دلکش عہدہ ملتا ہوا نظر
آیا تو پھر ہر کسی نے یعنی صحافی ، وکیل ،جج ،ادیب ،بزنس مین ، سیاست دان
اور بیوروکریٹ نے اپنا بیانیہ تبدیل کر لیا اور عملی طور پر اپنے عہد و
پیمان ،حلف اور سابقہ بیانات کو یکسر فراموش اور چشم پوشی کر کے کسی مشین
کے پرزے کی طرح کوشاں ہو گئے ،حتی کہ بعض بے انتہا ہو شیار ،مکار ،دغا باز
،عیار اور ڈھیٹ سیاسی لیڈران نے بار بار اپنا نظریہ ،بیان اور وطیرہ بدلا
اور اپنی زندگی اور سیاست کا مقصد صرف اور صرف عہدے حاصل کرنا کہ جن سے
اختیارات اور ہر طرح کی منفعت حاصل ہو ، کھل کر کیا ۔
حالانکہ ان کی تگ و دو اور کوشش صرف اور صرف حصول اقتدار اور حصول مفاد کا
تسلسل تھا ۔مگر جس نے بھی اعتراض کیا انھوں نے اسے اپنے راستے کی دیوار
جانا کہ کبھی غائبانہ اور کبھی کھل کر سرگوشیاں اور سازشیں تک کیں کہ نہ
اپنے حلف کا خیال کیا نہ ملک و ملت کے وقار اور دفاع کے مقاصد پیش نظر رکھے
۔جس سے ملکی سیاست بدنام اور بے وقار ہوئی کہ بعض سمجھدار لوگ سیاسی فرد
کہلانا ایک گالی سمجھتے ہیں ۔افسوس کہ مذہبی لوگوں نے بھی اس میدان میں
کوئی اچھی روایت قائم نہیں کی ۔ایسے میں اگر ملک کی مسلح افواج پر کوئی
مداخلت کرنے کی بات بھی ہوئی تو مخلص پاکستانیوں کو برداشت ہے کیونکہ وہ تو
ہر وقت سینہ سپر ہیں اور جان ہتھیلی پر لئے پھرتے ہیں جبکہ ہر دوسرا طبقہ
اکثریتی طور پر ہر وقت بد نیت اور مفادات کا متلاشی رہتا ہے اور اس کی کوئی
حد نہیں ہوتی ۔
بہر حال یہ سب تو چلتا رہے گا مگر یہ خوش آئیند ہے کہ ہماری پاک فضائیہ کے
سپوت جہاں آسمان کی وسعتوں میں ملک کی جغرافیائی سرحدوں پر عقابی نگاہیں
گاڑے ہوئے ہیں وہاں دیگر سرگرمیوں میں بھی پیش پیش ہیں جیسا کہ ایک مدت سے
پاک فضائیہ ادبی تقریبات کا اہتمام کررہی ہے جوکہ ایک قابل تعریف اور قابل
تحسین کام ہے ۔بلاشبہ ذمہ دارانہ فرائض کی بجا آوری کے ساتھ صحت مند
سرگرمیاں بہت ضروری ہیں اور خاص طور پر شعر و ادب اور موسیقی سے بڑھ کر طما
نیت بخش تفریح کوئی نہیں ہو سکتی ۔اس روایت کو بر قرار رکھتے ہوئے شہر
اقتدار میں پاک فضائیہ کے زیر اہتمام ایک شعر و سخن اور موسیقی کی ایک شام
سجائی گئی ۔جس میں ملک کے نامور شعراء کرام کی شمولیت نے محفل کو چار چاند
لگا دئیے ۔ اس تقریب میں محترم جناب ائیر چیف مارشل جناب مجاہد انور خان
،پاک فضائیہ کے ریٹائرڈ و حاضر افسران اور ان کی شریک حیات نے بڑی تعداد
میں خصوصی شرکت کی ۔ تقریب کے اختتام پر محترم جناب ائیر چیف مارشل نے داد
و تحسین اور یادگاری شیلڈز سے تقریب کو مزید یادگار بنا دیا ۔ائیر فورس
مشاعرے میں شریک تمام شعرائے کرام نے اعتراف کیا کہ ان کے لیے جغرافیائی
فضائی سر حدوں کے محافظوں کی محفل میں شریک ہونا کسی اعزاز سے کم نہیں اور
وہ اس پر شاداں و فرحاں ہوئے۔ تمام شعراء حضرات نے مزاح ،شگفتگی اور سنجیدہ
شعری شہ پاروں کو انتہائی شائستہ انداز میں پیش کیا ۔یقینا مجموعی تاثر یہی
ہے کہ ہلکا پھلکا طنز سیاست اور معاشرت کی عکاسی ضرور کرتا ہے مگر کسی کی
دل شکنی نہیں کرتا اور اچھے مزاح نگار کی یہی خصوصیت ہونی چاہیے ۔جنا ب
زاہد فخری کی نظامت میں ظرافتی چٹکلوں اور سنجیدہ مزاح نے حاضرین محفل کو
خوب مسحور کیا اوراپنے من موہنے انداز بیاں سے خوب داد سمیٹی جوکہ ہمیشہ سے
ان کا خاصہ ہے۔ ’’کدی تے پیکے جا‘ نی بیگم ،آوے سکھ دا ساہ‘ نی بیگم
۔کھٹیاں رہ رہ‘ اک گئے آں ہن ، لاگے بہ بہ تھک گئے آں ہن ‘‘۔جناب ڈاکٹر
انعام الحق جاوید مزاحیہ شعری ادب کے شہسوار ہیں انھوں نے اپنے مشہور زمانہ
اشعار سنائے ۔’’ادھر ناکے پہ ناکہ چل رہا ہے ،ادھر ڈاکہ پہ ڈاکہ چل رہا ہے
۔ ادھر منصوبہ بندی کے ہیں چرچے ادھر کاکے پہ کاکے چل رہا ہے ‘‘۔جناب
ڈاکٹرمرلی چوہان کے مزاحیہ قطعات نے خوب سماں باندھا ’’نجانے کب کوئی ایسا
لوکیشن میپ نکلے گا ۔ترے دل تک پہنچنے کا جہاں سے میپ نکلے گا ‘‘۔جناب
ڈاکٹرسعید اقبال سعدی ،’’بیوی بولی جب کبھی بازار کو جاتی ہوں میں ،مجھ کو
اس کھوکھے کا مالک دیکھتا ہے گھور کر ،بولا شوہر جان من ! وہ ہے کباڑی اصل
میں ،ڈالتا ہے وہ پرانی شے پہ ایسے ہی نظر ‘‘ جناب ڈاکٹر ادریس قریشی ،
’’شعر کہتا ہوں میں روانی سے ، بات کرنی ہو جب زنانی سے ۔اس کا چشمہ اتار
کر سمجھا ، عشق کرتا رہا ہوں کانی سے ‘‘ جناب ڈاکٹرمحمد طاہر شہیر ’’جو ہر
بات میں میہنے ہے مارے ،ہر گھر میں اک ایسی ہی بیوی ہے پیارے ۔نگاہوں
نگاہوں میں شوہر کو تولے ،کرے چیک موبائیل اور جیبیں بھی پھرولے ،ہر گھر
میں اک ایسی ہی بیوی ہے پیارے‘‘ اور من مسمی ’’رقیہ غزل ‘‘نے سنجیدہ اور
جذباتی مگر اعتراف عظمت کے انداز میں پاک فضائیہ کی خدمات کو خراج تحسین
پیش کیا اور اپنے اشعار پر داد پائی ۔’’جس کو چاہا تھا وہ ملا ہی نہیں اس
سے بڑھ کر کوئی سزا ہی نہیں ۔زندگی اس کے نام کر دی ہے ،پیار کیا ہے مجھے
پتہ ہی نہیں ‘‘اور میں اپنی نظم ’’میرے شاہین تجھ پر خدا کا کرم ‘‘سے ہی
کالم کا اختتام کرونگی جو کہ ہر پاکستانی کے دل کی آواز اور افواج پاکستان
کی عظمتوں کا بیان ہے ۔
تو وطن کی فضاؤں کا نگران ہے ۔۔دشمنوں کے لیے ایک طوفان ہے
تیری رفتار آواز سے تیز تر ۔۔ ۔تیری نظریں ہیں شہباز سے تیز تر
ہر ہدف پر جمی ہیں نگاہیں تری۔۔اور دشمن کی گردن پہ باہیں تری
ایک پل میں عدو زیر تو نے کیا ۔۔ ۔دیکھتے دیکھتے ڈھیر تو نے کیا
سارے اہل وطن تیرے مشکور ہیں ۔۔میرے دشت و دمن تیرے مشکور ہیں
دشمنوں کے عزائم ملے خاک میں ۔۔ پھول تیرے لیے ہی کھلے خاک میں
تیرے ہوتے ہوئے ہم نڈر ہوگئے ۔ ۔ پرسکوں ہوگئے ، بے خطر ہوگئے
برتری تیری ثابت ہے سیا ر پر ۔۔ دھاک تو نے بٹھائی ہے اغیار پر
گونجتی ہیں فضا میں اذانیں تری۔۔ ہیں پہاڑوں سے اونچی اڑانیں تری
میرے شاہین تجھ پر خدا کا کرم ۔۔ اس میں شامل ہے میری دعا کا بھرم |