بھائی ایک سرجیکل ماسک دینا، ایک صاحب نے میڈیکل اسٹور
والے سے کہا،
جی یہ لیں، میڈیکل اسٹور والے نے سرجیکل ماسک نکال کر صاحب کے ہاتھ میں رکھ
دیا،
کتنے ہوئے؟ صاحب نے کہا،
40 روپے ، میڈیکل اسٹور والے نے جواب دیا،
40 روپے، یہ تو 2 روپے کا تھا پرسوں تک ؟؟ صاحب نے حیران ہو کر کہا،
میڈیکل اسٹور والے نے ایسی نظروں سےصاحب کو دیکھا جیسے وہ مریخ سے بس ابھی
اتر کر آئیے ہیں،
بھائی کہا رہتے ہو، مارکیٹ میں شورٹ ہے، یہ بھی ابھی 40 کا مل رہا ہے، کل
یہ بھی نہیں ملے گا، کرونا وائرس آ گیا ہے ناں،
پاکستان ہے بھائی۔۔۔۔
۔۔
کچھ لوگ سڑکوں پر کھڑے ہیں، ہاتھوں میں ماسک کے ڈبے پکڑے ہوئے ہیں،
ایک موٹر سائیکل سوار والے نے بائیک روکی، نوجوان نے کوئی سوال کئے بغیر ،
ایک ماسک اس کے ہاتھ میں تھما دیا، اور آگے جانے کے لئے بڑھا،
موٹر سائیکل سوار، بھائی یہ کیا کر رہے ہیں؟
نوجوان، جناب مارکیٹ میں لوگوں کو ماسک نہیں مل رہے، ہم لوگوں میں مفت ماسک
تقسیم کر رہے ہیں، تاکہ وہ اپنے آپ کو کرونا وائرس سے محفوظ کر سکیں۔
موٹر سائیکل سوار ، او اچھا، بہت اچھا کام کر رہے ہیں، اللہ آُپ کی مدد
فرمائے۔ آمین
۔۔۔۔۔
کسی بھی قسم کی ایمرجنسی صورتحال سے نمٹنے کے لئے ہم نے ٹاسک فورس بنا دی
ہے، ہیلپ لائن نمبرز بھی جاری کر رہے ہیں، لوگوں کو پریشان ہونے کی ضرورت
نہیں ہے، ہم تیار ہیں ۔ وزیر صاحب بہت پرجوش انداز میں ٹی وی پر اظہار خیال
کر رہے تھے،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ہمارے پاکستانی معاشرے کے تین پہلوں ہیں، اور اسی طرح کے کئی اور پہلوں
ہر ایمرجنسی صورتحال میں ہمیں عام طور پر نظر آتے ہے، کہ کہیں کچھ لوگ اس
صورتحال کا غلط فائدہ اٹھانے کی پوری کوشش کرتے ہیں، اور وہیںپر ایسے افراد
بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں جو ایسی کسی بھی صورتحال میں اپنے محدود وسائل
کے ساتھ لوگوں کے درمیان موجود ہوتے ہیں اور جس حد تک ہو سکے لوگوں کو
فائدہ پہچانے کی کوشش کر تے ہیں۔
حکومت ایسی صورتحال میں زیادہ تر بیان بازی میں، پوائینٹ اسکورنگ میں لگی
نظر آتی ہے، اور حکومت کی رٹ ایسی صورتحال میں بہت کم یا نا ہونے کے
برابرنظر آتی ہیں، جبکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ پہلی قسم کے لوگوں پر نظر
رکھنے کے لئے سخت نگرانی کا نظام رائج ہونے کی ضرورت ہے تاکہ ایسی کوئی
صورحال پیدا ہی نا ہوں، اور دوسری قسم کے لوگوں کو اپنے ساتھ ملانے، انہیں
سہولیات دینے ، ان افراد کا ایک منظم ڈیٹابیس بنانے کی ضرورت ہے، تا کہ کسی
بھی قسم کی ایمرجنسی صورتحال سے نمٹنے کے لئے ایسے افراد سے فوری رابطہ کیا
جا سکے اور ان کی خدمات سے فائدہ حاصل کیا جا سکے۔ ساتھ ہی ایسے افراد کی
اس احساس ذمہ داری کومناسب طور پراعتراف کیا جائے، تاکہ یہ حکومت کے موثر
بازوبن سکیں۔
ایمرجنسی صورتحال میں بجائے بیان بازی کے، ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے ،
سیاسی اختلافات الگ رکھ کر لوگوں کی خدمت کے جذبے کو سیکھنے اور سکھانے کی
ضرورت ہے۔
ایمرجنسی صورتحال میں ایمرجنسی سے زیادہ خوف لوگوں کو نقصان پہنچاتا ہے، اس
سلسلے میں شوشل میڈیا چینلز کو زیادہ سے زیادہ استعمال کر کے لوگوں کو
آگاہ رکھنے سے ایمرجنسی پر بہتر انداز میں قابو پایا جا سکتا ہے، کیونکہ
حکومت صرف اپنے طور پر سب کچھ نہیں کر سکتی، لوگوں کی شمولیت لازمی ہے۔
کچھ دن پہلے ہی کراچی میں کیماڑی کے گیس لیک والے واقعے نے جہاں ایک طرف
کئی معصوم انسانوں کی جانیں لے لیں وہی پر پیٹرول کی مصنوعی قلت کی افوہ نے
لوگوں کو پریشان کر کے رکھ دیا تھا،اور یہ شوشل میڈیا کی وجہ سے ہوا۔
کوشش کریں، اپنے اردگردموجود افراد میں منفی سوچ ، کے بجائے مثبت پہلووں پر
بات کریں، ہم بحثیت قوم بہت مختلف مزاج رکھتے ہیں، منفی ہوں تو اتنا منفی
ہو جاتے ہیں کہ کسی کو برداشت بھی نہیں کر پاتے اور مثبت ہو جائیں تو پورا
رمضان روڈ پر لوگوں کو افطار کرواتے، ایدھی، چھیپا، سیلانی، انڈس جیسے
اداروں کو سپورٹ کر کے ہزاروں لوگوں کو فائدہ پہنچا دیتے ہیں۔
ہمیں انہیں مثبت رویوں کو مزید پھیلانے کی ضرورت ہے۔
کرو، نا۔۔ کے بجائے، کرتے ہیں، والے رویوں کو اپنانے کی ضرورت ہے۔
ورنہ ہمیں کسی کرونا وائرس کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔
اللہ آپ کا میرا اور اس پاکستان کا حامی و ناصر ہو، آمین
|