کشمیر کی دفع ۳۷۰ کوخٖتم کرنے کے بعد وہاں حالات پر معمول
پر آگئے ہیں یہ دکھانے کے لیے ایوان پارلیمان میں گرجنے برسنے والے امیت
شاہ کو وادی میں جانا چاہیے تھا لیکن وہ نہیں گئے اور قومی سلامتی کے مشیر
اجیت دوبھال کو اس خدمت پر مامور کیا گیا۔ کشمیر چونکہ صحیح معنیٰ میں قومی
مسئلہ تھا اس لیے کسی نے توجہ نہیں دی لیکن دہلی کے اندر فسادات کے بعد
عوام کا اعتماد بحال کرنے کی خاطر بھی جب دوبھال کی میدان عمل میں اتارا
گیا تو یہ بات ثابت ہوگئی کہ وزیر داخلہ صرف انتخابی اکھاڑے میں دہاڑنے
والے سرکس کا شیر ہیں ۔ فسادات کے بعد دہلی کی بدترین صورتحال اس حقیقت کی
جانب اشارہ کرتی ہے کہ انسان اگر کسی پیشے سے طویل عرصہ تک منسلک رہے تو اس
کے عادات و اطوار متاثر ہوجاتے ہیں مثلاً اساتذہ ٔ کرام وقت بے وقت لکچر
دینے لگتے ہیں اور پولس والے بلا وجہ ڈانٹ ڈپٹ کرتے رہتے ہیں۔
ورن آشرم کی لعنت نے برسہا برس تک مختلف قوموں کو مخصوص پیشوں سے وابستہ
کردیا اس لیے ان کا مزاج اسی کے مطابق ڈھل گیا۔ بنیا لوگ صدیوں سے تجارت
کررہے ہیں اور جوڑ توڑ کرکے نوٹ گنتے رہتے ہیں ۔ شاہ جی سیاست میں آئے تو
یہاں نوٹ کے ساتھ ووٹ گننے لگے ۔ ویسےکہنے کو وہ ملک کے وزیرداخلہ ہیں مگر
ملک کا نظم و نسق چلانے میں نہ تو ان کو دلچسپی ہے اور نہ یہ ان کے بس کا
روگ ہے۔ وہ تو اچھا ہے ملک بھر کی پولس صوبائی حکومتوں کے ماتحت ہے اور صرف
دہلی کی پولس شاہ جی کی نگرانی میں کام کرتی ہے ورنہ نہ جانے عوام کس مصیبت
میں گرفتار ہوجاتے؟ دہلی کے فسادات کا قابو سے باہر ہوجانا شاہ جی کی پہلی
ناکامی نہیں ہے بلکہ گزشتہ ۹ ماہ میں وہ کئی بار اپنی ذمہ داری نبھانے میں
ناکام ہوچکے ہیں۔
جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے طلباء کو نومبر۲۰۱۹ میں دہلی پولس کے تشدد کا
شکار ہونا پڑا کیونکہ وہ فیس میں اضافہ کے خلاف احتجاج کررہے تھے اور پھر
دوبارہ جنوری میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا کیونکہ وہ صدارتی محل کی جانب
مارچ کررہے تھے ۔ اس بربریت کی اور بھی وجوہات تھیں مثلاً حکومت کی نظر میں
وہ اربن نکسل ہیں ۔ ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے نعرے لگاتے ہیں ۔ وہ غدارِ
وطن ہیں اور ودیارتھی پریشد کو ووٹ نہیں دیتے۔ اس لیے ان پر نقاب پوش غنڈوں
سے بھی حملہ کروایا گیا۔ افسوس کی بات یہ ہے اس حملے میں ’آج تک چینل‘
نےاے بی وی پی کی خاتون کارکن کومل شرما کو حملہ آور کے طور پر پہچان لیا۔
جامعہ کے طلباء نے سی اے اے اور این آر سی کے خلاف آواز اٹھائی تو ان کے
حوصلے پست کرنے کے لیے پولس کے ذریعہ کارروائی کی گئی۔ جامعہ کے طلبا نے
ایوان پارلیمان کی جانب جلوس کی شکل میں جانے کی کوشش کی تو طلبہ اور
طالبات کے خلاف ایسی درندگی کامظاہرہ کیا گیا کہ جس کا کسی مہذب معاشرے میں
تصور بھی محال ہے۔جامعہ میں بھی بندوق بردار غنڈوں کی مدد سے دہشت پھلیانے
کی ناکام کوشش کی گئی اس میں ایک طالب علم کو زخمی تو ہوا لیکن دہلی کی
پولس خاموش تماشائی بنی رہی ۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ کیمپس میں دہلی پولس کے ذریعہ15 دسمبر2019 کو کی جانے
والی توڑ پھوڑ کی ویڈیو بھی منظر عام پر آچکی ہے۔ اس سلسلے میں یونیورسٹی
انتظامیہ نے وزارت برائے فروغ انسانی سے ڈھائی کروڑ روپے کا ہرجانہ طلب کیا
ہے۔ یہ کس قدر شرمناک بات ہے کہ پولیس نے اپنے کالے کرتوت چھپانے کے لیے
کارروائی کے دوران ۲۵؍ سی سی ٹی وی کیمروں کو توڑ دیا تاکہ نہ رہے بانس اور
نہ بجے بانسری لیکن جو بچ گئے انہوں نے شاہ جی کی شہنائی بجا دی۔ جامعہ
انتظامیہ کے مطابق پولیس نے لائبریری کے دروازے ، وہاں رکھیں میزیں اور
کرسیاں ، ٹیوب لائٹس ، پنکھے، کچھ کمروں کے اے سی یونٹس ،کوریڈور میں رکھا
گیا سامان ، لائبریری کا مختلف اشیاء ،سی سی ٹی وی کیمرے ، کانچ کے ٹیبل
اور ایسی ہی دیگر چیزوں کو وحشیانہ کارروائی سے نقصان پہنچایا ۔ جامعہ
انتظامیہ نے سامان کا پنچ نامہ کے بعد تخمینہ بنا کر اسے وزارت کو سونپا
۔مرکزی حکومت اور یو پی کی سرکار کو عوامی ملکیت کے نقصان کی چنتا بہت ہے۔
جامعہ انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ سیکورٹی اہلکار بغیر اجازت کیمپس میں داخل
ہوئے تھے اور لاٹھی،ڈنڈوں سے طلبا پر حملہ کرنے کے بعد عوامی ملکیت کو تباہ
کیا۔ جامعہ کی ویڈیوز اور سی سی ٹی وی فوٹیج کے منظرِ عام پر آنے کے بعد
انتظامیہ کو یہ اقدام کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔
شاہین باغ کی تحریک نے ملک بھر میں عزم و حوصلے کے بے شمار چراغ روشن کیے
لیکن افسوس کہ دہلی کے گارگی کالج سانحہ نے دارالخلافہ کے چہرے پر کالک پوت
دی۔ یوم نسواں کے ایک ہفتہ قبل دہلی یونیورسٹی کے گارگی کالج کی طالبات کے
ساتھ کھلے عام فحش ترین انداز میں چھیڑخانی کی گئی۔ وہ بیچاری نہ تو
اشتراکی تھیں کہ جن پر ہندو راشٹر میں اربن نکسل ہونے کا الزام لگا کر ہر
طرح کا ظلم جائز قرار دےدیا جائے اور نہ جامعہ کے طالبات کی مانند لباس سے
پہچانی جاتی تھیں کہ جن پرقوم دشمنی کا لیبل لگا کر سرکاری زیادتی مباح
کردی جائے۔ گارگی کالج کی طالبات تو اپنے سالانہ تقریب میں شریک تھیں ۔ ان
کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ مودی یگ میں دہلی کے اندر زندگی گزار رہی ہیں
نیزدہلی کی پولس ایک ایسے وزیر داخلہ کے ماتحت کام کرتی ہے جس کے سر پر
انتخاب جیتنے کا جنون اس طرح سوار ہے کہ اسے کچھ اور نہیں سوجھتا۔
گارگی کالج میں 6 فروری 2020کو سالانہ جشن کا انعقاد کیا گیا ۔ اس دوران
نشے کی حالت میں کچھ بدمعاشوں نے کالج کے صدر دروازے پر ہنگامہ کیا اور
اندر گھس گئے۔ ان لوگوں نےطالبات کے ساتھ ’ریپڈ ایکشن فورس‘ اور دہلی پولس
کی موجودگی میں چھیڑچھاڑ کی۔ ان کے ساتھ دست درازی اور ہاتھا پائی بھی کی
گئی۔اس طوفانِ بدتمیزی کے خلاف وکیل ایم ایل شرما سپریم کورٹ پہنچ گئے لیکن
وہاں سے دہلی ہائی کورٹ جانے کی ہدایت لے کر ناکام لوٹے ۔ شرما نے اپنی
عرضی میں گزارش کی ہے کہ گارگی کالج احاطہ کے آس پاس کےکیمروں کی جانچ ہو
اور سی سی ٹی وی ریکارڈنگ کی مدد سے مجرموں کو گرفتارکیا جائے۔ انھوں نے
دعویٰ کیا کہ مجرمانہ سازش کے پیچھے کچھ لیڈروں کا ہاتھ ہے۔ یہ الزام اگر
درست ہے تو شاہ جی کی دہلی میں یہ جرأت زعفرانیوں کے علاوہ کون کرسکتا ہے؟
مفاد عامہ کی عرضی داخل کرنے والےوکیل ایم ایل شرما نےدورانِ سماعت اس
معاملے کی تفتیش سی بی آئی سے کرانے کا مطالبہ کرتے ہوئے یہ دلیل پیش کی کہ
ہائی کورٹ سماعت میں وقت لگ سکتا ہے اس دوران الیکٹرانک شواہد کو یا تو ختم
کیا جاسکتا ہے یا پھر ان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ ہو سکتی ہے۔ یعنی ملزمین کی
رہائی کو سہل بنایا جاسکتا ہے۔ عدالت نے سی بی آئی کو ملوث کرنے کا مطالبہ
تسلیم تو کیا مگر اس کے باوجود ڈھائی ماہ کا وقت دے دیا۔ان سنگین الزامات
کے باوجود عدالت نے کالج کا دروازہ توڑ کر زبردستی کالج کے کیمپس میں گھسنے
والے سبھی دس ملزمین کو 10-10 ہزار روپے کے مچلکے کی ضمانت پر رہا کردیا
مگر ساتھ ہی مرکزی حکومت، دہلی پولس اور سی بی آئی کو ۳۰ اپریل تک جواب
داخل کرنے کے احکامات جاری کیے۔ ایسے میں ’بیٹی بچاو ، بیٹی پڑھاو ‘ کا
نعرہ لگانے والی پاکھنڈی سرکار کے سارے وعدے اور یقین دہانیاں ہوا ہوگئیں ۔
امیت شاہ نے جب سے وزارتِ داخلہ کا قلمدان سنبھالا ہے دہلی میں یہ معمول
ہوگیا ہے کہ پولس یاتو خود زیادتی کرتی ہے یا پھر غنڈوں کے سامنے خاموش
تماشائی بنی رہتی ہے۔ دہلی کے فساد کے چار دنوں تک جاری و ساری رہنے کا
بنیادی سبب یہی ہے۔ دہلی کے اندر تین مرتبہ جے این یو کے طلباء پر حملہ
ہوا۔ دو مرتبہ پولس نے ان پر تشدد کیا ایک مرتبہ پولس نے حملہ آوروں کو
تحفظ فراہم کیا۔ جامعہ کے طلباء پر بھی دو بار پولس نے بدترین تشدد کیا اور
تیسری بار گولی چلانے والے کو گلے میں ہاتھ ڈال کر لے گئی۔ اس کے بعد گارگی
کالج کی طالبات کے ساتھ غنڈوں نے بدسلوکی کی گئی پولس والے خاموش تماشائی
بنے رہے ۔ شمال مشرقی دہلی میں ۱۹۸۴ک کے بعد بدترین فرقہ وارانہ فساد ہوا
لیکن امیت شاہ کی پولس وہاں بھی ناکام ہوگئی۔ اب تورام راجیہ یا ہندو راشٹر
پر بھی سوالیہ نشان لگ گیا ہے؟ سچ تو یہ ہے امیت شاہ کو پہلی فرصت میں
استعفیٰ دے کر پرچون کی دوکان کھول لینی چاہیے اس لیے کہ ایسا لگتا ہے ملک
چلانا ان کے بس کی بات نہیں ہے۔
|