مہاراشٹر کی سرکار اور این پی آر ؟

ہندوستان ایک دفاقی ریاست ہے جہاں مرکزی حکومت صوبائی سرکاروں کی مدد سے چلتی ہے۔ یہ حسن اتفاق ہے ۶ سال تک حکومت کرنے کے باوجود خالص بی جے پی کی صوبائی حکومتوں کے تحت ملک کے صرف 38فیصد عوام ہیں اور 62فیصد لوگ ایسے صوبوں میں رہتے بستے ہیں جو اس براہ راست اختیار عمل خارج ہے اور اس دائرہ پھیلنے کے بجائے ہر انتخاب کے بعد سکڑ تاجارہا ہے۔بہار کا شمار ان صوبوں میں ہوتا ہے جہاں پر ریاستی حکومت میں بی جے پی جونیر پارٹنر کے طور پر شامل ہے۔بہار جیسی ریاستوں کو جوڑ لیا جائے تب بھی بی جے پی کا حلقۂ اثر پچاس فیصد سے کم پر محیط ہے ۔ اسلیے اگر ساری غیر بی جے پی صوبائی حکومتیں اس فیصلے کی خلاف ورزی پر آمادہ ہوجائیں تو مرکزی حکومت کے فارم پر پچاس فیصد سے کم لوگ این پی آر کی معلومات دیں گے۔ حکومت وقت کی یہ رسوائی اس کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے۔

بہار وہ پہلی ریاست ہے جہاں بی جے پی کے اقتدار میں شامل ہونے کے باوجود این پی آر کو اس کی موجودہ شکل میں عمل کرنے قرار داد منظور کرنے میں ناکام رہی ۔ اس قرارداد کی متفقہ منظوری نے (کہ جس میں بی جے پی کے ارکان اسمبلی کی حمایتبھی شامل تھی ) مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ ادھو ٹھاکرے کے لیے آسانی فراہم کردی ہے۔ بی جے پی کے اس فیصلے نے یہ بات واضح کردی ہے کہ سیاست دانوں کے نزدیک سب سے زیادہ اہمیت کی حامل شئے انتخاب میں کامیابی اور اقتدار کا حصول ہوتا ہے۔ بہار میں بی جے پی کے سامنے جو مسئلہ تھا وہی مہاراشٹر کے اندرکانگریس اور این سی پی کے لیے ہے۔ ادھو ٹھاکرے کی حکومت کا دارومدار کانگریس اور این سی پی پر ضرور ہے لیکن اگر آج یہ لوگ اپنی حمایت واپس لے لیں تو جس طرح نتیش کو بچانے کے لیے آر جے ڈی حاضر ہے اسی طرح ادھو کی حمایت میں بی جے پی موجود ہے۔

فی الحال نتیش کمار کی طرح ادھو ٹھاکرے کے بھی دونوں ہاتھوں میں لڈو ہے۔ اس کے باوجود ادھو ٹھاکرے اپنے رائے دہندگان اور حامی جماعتوں کے درمیان توازن قائم رکھتے ہوئے دو فروری کو اعلان کیا کہ وہ صوبے میں این آر سی نافذ نہیں ہونے دیں گے لیکن این آر پی میں انہیں کوئی قابلِ اعتراض بات نظر نہیں آئی ۔ ادھو نے یکم مئی سے این پی آر کرانے کا عندیہ دیا۔18 فروری کو مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے نےضلع سندھو درگ میں ایک اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شہریت ترمیمی قانون سی اے اے ، شہریوں کا قومی رجسٹر این آر سی اور این پی آر تینوں کلیتاً الگ تھلگ معاملات ہیں ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کسی کو بھی سی اے اے کے نفاذ سےڈرنا نہیں چاہیئے کیونکہ اس سے کسی کی شہریت چھینی نہیں جائے گی۔

ادھو نے واضح کیاکہ ان کی سرکار کوقومی آبادی رجسٹر یعنی این پی آر کے نفاذپر کوئی اعتراض نہیں ہے کیونکہ یہ رائےشماری کا ایک حصہ ہے۔ اس کے برخلاف کانگریس اور این سی پی نے اس قواعد کی کھلے عام اس پر اعتراض کر تے ہوئے اسے این آر سی کا مکھوٹا قرار دیا۔این سی پی رکن پارلیمان مجید میمن نے یہ واضح کیا کہ ان پارٹی این پی آر کی حمایت نہیں کرتی۔ اس معاملہ میں ایسا فیصلہ کیا جائے گا جو تینوں پارٹیوں کو قابل قبول ہو۔

ادھو ٹھاکرے اور این سی پی کے درمیان یہ دوسرا اختلاف ہے۔ اس سے قبل این سی پی سربراہ شرد پوار نے بھیما کورے گاوں کی یلغار پریشد معاملہ کی جانچ کومہاراشٹر پولیس کے بجائے این آئی اے کو سونپنے کے فیصلے پر تنقید کی تھی ۔ پوار نے کہا تھا چونکہ نظم و نسق کا قیام ریاستی حکومت کی ذمہ داری ہے اس لیے مرکز کا اس معاملہ کی جانچ پولیس سے لے کر قومی جانچ ایجنسی کو سونپنا درست نہیں ہے۔

مہاراشٹر میں شیو سینا کی قیادت والی مہاراشٹر وکاس اگھاڑی میں اقلیتی امور کے وزیر نواب ملک کامسلمانوں کو تعلیم میں پانچ فیصد ریزرویشن سے متعلق بیان اس حقیقت کا اشارہ کرتا ہے کہ ریاستی حکومت مسلمانوں کا عتماد حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہے ۔مہاراشٹر میں 2014 کے اندر منعقد ہونے والے اسمبلی انتخابات سے قبل ریاست کی کانگریس و این سی پی حکومت نے مسلمانوں کے لئے پانچ فیصد ریزرویشن کا نظم کیا تھا لیکن اس کو عدالت میں چیلنج کردیا گیا جس سے معاملہ تعطل کا شکار ہوگیا۔ عدالتی کامیابی کے بعد بی جے پی و شیوسینا حکومت نے بدمعاشی کرتے ہوئے آرڈیننس لا نے سے انکار کردیا ۔نواب ملک کے مطابق بجٹ اجلاس میں مذکورہ آرڈیننس لایا جائے گانیز ملازمت میں ریزرویشن کے حوالے سےقانونی صلاح ومشورہ کیا جارہا ہے اورجلد ہی اس پربھی فیصلہ ہوگا۔کانگریس کےرکن اسمبلی ذیشان صدیقی نے حکومت کے اس فیصلےکی تائید میں کہا کہ اس سے نوجوانوں کو اچھی تعلیم ملےگی اور روزگارکے بہتر مواقع پیدا ہوں گے۔ شیوسینا کے انل پرب نے اس فیصلے کی حمایت کی مگر بی جے پی رہنما رام کدم نے کہا کہ مذہب کے نام پر ریزرویشن ممکن نہیں ہے اور یہ سرکار کی سیاسی شعبدہ بازی ہے۔

مہاراشٹر قانون ساز اسمبلی کے بجٹ اجلاس سے قبل 24 فروری کووزیر اعلیٰ کی جانب سے روایتی چائے پارٹی کے بعد سی اے اے اور این پی آر کے تعلق ادھو ٹھاکرے نے اپنا تبدیل شدہ موقف پیش کیا ۔انہوں نے اخبار نویسوں کو بتایا کہ ’’ این پی آر کے تعلق سے حکومت میں شامل تینوں پارٹیوں کے رہنماوں کی مشترکہ نشست میں این پی آر کے سوالات پر غور و خوض کیا جائیگا تاکہ اگر کوئی غیر ضروری اور متنازع سوال ہوتو اس کا جائزہ لیا جاسکے۔ اس کے بعد اس پر فیصلہ لیا جائے گا البتہ مردم شماری ضرور ہوگی‘‘۔ ادھو ٹھاکرے کو بی جے پی کی جانب سے مخالفت کا جو خوف لاحق تھا وہ بہار میں تبدیل شدہ این پی آر کی تجویز کو سشیل کی حمایت کے بعد دور ہوگیا ہوگا اور بعید نہیں کہ مہاراشٹر میں بھی سرکار بچانے کے لیے اسی طرح کا کوئیراستہ نکالا جائے جس میں متنازع اضافی سوالات نہیں ہوں ۔ سچ تو یہ ہے اس مسئلہ پر نتیش کمار نے ادھو ٹھاکرے کی مشکل آسان کردی ہے۔ بہوجن وکاس اگھاڑی نے اپنے اختلافات کو وقار کا مسئلہ بنا کر انتشار میں بدلنے سے جس طرح احتراز کیا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ این پی آر کےمعاملے میں کوئی درمیانی شکل نکالی جائے گی تاکہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے ۔ مہاراشٹر میں اگر خدا نخواستہ بی جے پی اور شیوسینا کا اتحاد پھر سے قائم ہوجائے تو اترپردیش یا کرناٹک جیسی صورتحال کا بن جانا این سی آر کے خلاف چلائی جانے والی تحریک کے لیے نیک فال ثابت نہیں ہوگی۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1451111 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.