این پی آر پر بہار کی سرکار کا وار

بہار میں اس سال انتخاب ہے اور ایسے میں حزب اختلاف کے رہنما تیجسوی یادو نے ایک قرار داد منظور کروا کر بی جے پی کو چونکا دیا ۔ وہ ایسا فیصلہ ہے جس پر امیت شاہ ایک انچ ہٹنے تیار نہیں تھے ۔ بھارتیہ جنتا پارٹی سی اے اے ، این آر سی اور این پی آر کی مدد سے ملک کے عوام کو تقسیم کرنا چاہتی تھی لیکن اس مسئلہ پر پہلے تو قومی سیاست دو حصوں میں منقسم ہوگئی ۔ ایک طرف بی جے پی والی صوبائی حکومتیں جو اسے من و عن نافذ کرنا چاہتی ہیں اور دوسری جانب دیگر جماعتوں کے تحت چلنے والی ریاستی سرکاریں ہیں جو اس کے نفاذ میں مانع ہیں ۔ یہ معاملہ آگے بڑھا تو ایک ایسی حکومت نے بھی مرکزی حکومت سے اختلاف کرلیا جس میں بی جے پی شامل ہے۔ اس طرح مودی سرکار پر غالب کا یہ شعر صادق آگیا؎
ہزاروں خواہشیں ایسی کے ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے میرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

مسلمانوں کے ملک گیر احتجاج نے بی جے پی کو عالم سکرت میں مبتلا کردیا اور اب ٹھہر ٹھہر کر اس کا دم نکل رہا ہے۔ بہار کا یہ چمتکار اپنے آپ نہیں ہوا بلکہ اس کے پیچھے سی اے اے اور این آر سی کے خلاف چلائی جانے والی شاہین باغ جیسی تحریکوں اور ملک بھر میں ہونے والے مختلف قسم کے احتجاج کا بڑا حصہ ہے۔ دو ماہ قبل 21 دسمبر 2019 کواین آر سی کے خلاف جے ڈی یو کے نائب صدر پرشانت کشور نے کانگریس کی عبوری صدر سونیا گاندھی کو مشورہ دیا تھا کہ وہ این آر سی پر کھل کر سامنے آئیں۔ پرشانت کشور کی مخالفت کا اثر یہ ہوا کہ جے ڈی یو کے صدر نتیش کمار کو اعلان کرنا پڑا کہ وہ کسی بھی صورت میں این آر سی لاگو نہیں کریں گے۔سیاسی حلقوں میں پرشانت کشور کے بیان یہ مطلب نکالا گیاکہ بہار اسمبلی انتخابات سے قبل پلٹو رام نتیش کمار پھر سے کانگریس کے ساتھ فاصلہ کم کرنے کےلیے کوشاں ہیں۔ مرکزی حکومت کے خلاف عوامی ناراضگینے انہیں فکر مند کردیا ہے اور وہ انتخاب سے قبل پھر سے عظیم اتحاد میں شامل ہوناچاہتے ہیں ۔

دہلی کے انتخابات میں چونکہ پرشانت کشورعآپ کے لیے حکمت عملی وضع کررہے تھے اور انہوں نے کیجریوال کے بجائے سونیا گاندھی کو یہ مشورہ دیا تھا اس لیے اسے کانگریس کو گھیرنے کی ایک سازش سے تعبیر کیا گیا۔ خیر آگے چل کر دونوں قیاس غلط نکلے ۔ پرشانت کشور اپنے موقف میں مخلص تھے۔ نتیش کمار کے عتاب کا شکار ہونے کے باوجود وہ اپنے موقف پر ڈٹے رہے اور کانگریس نے جب واضح موقف اختیار کیا تو اسے کھلے دل سے سراہا۔پرشانت کشور نے آگے چل بی جے پی اور جے ڈی یو کے درمیان جھگڑا لگانے کی ایک بہت موثر کوشش کی ۔ ہوا یہ کہ بہار میں بی جے پی کے خیمہ سے آنے والے نائب وزیر اعلیٰ نے ایک بیان دے کر پرشانت کشور پر احسان فراموشی کا الزام لگا دیا ۔مودی نے کہا ’’سال 2020 کا بہار اسمبلی الیکشن وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر اعلی نتیش کمار کی قیادت میں لڑا جائے گالیکن جو لوگ کسی نظریے کے بجائے انتخابی ڈیٹا جمع کرنے اور نعرہ گڑھنے والی کمپنی چلاتے ہوئے سیاست میں آ گئے ہیں ، وہ اتحاد کے اصولوں کی خلاف ورزی کر کے مخالفین کو فائدہ پہنچا رہے ہیں۔ ایک پیشہ ور تاجرقومی مفاد پر اپنے معاشی فائدے کو فوقیت دیتا ہے‘‘ ۔

پرشانت کشور کی شخصیت پر یہ نہایت رکیک قسم کے الزامات تھے ۔ اس کے جواب میں پرشانت نے ٹوئیٹر پر لکھا کہ کیرکٹر سرٹیفکیٹ دینے میں سشیل کمار مودی کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ دیکھئے پہلے بول کر بتا رہے تھے اور اب نائب وزیر اعلی بنا دئیے گئے تو لکھ کر دے رہے ہیں۔ ان کی كرونولوجی بالکل واضح ہے۔اسی فقرے کے ساتھ انہوں نےسشیل مودی کی وہ ویڈیو منسلک کردی جس میں آر جے ڈی کے ہمراہ نتیش کمار کی حکومت سازی کے بعد مودی نے کہا تھا’’نتیش کمار اپنے آپ کو بہار کا مترادف سمجھنے لگے ہیں۔نتیش کے ڈی این اے میں خیانت ہے، فراڈ ہے۔ انہوں نے جیتن مانجھی کے بعد بی جے پی کو اور بہار کے لوگوں کے مینڈیٹ کو دھوکہ دیا ہے۔ اس شخص نے شیوانند تیواری، جارج فرنانڈیز سے لے کر لالو یادو تک کے ساتھ بھی دھوکہ کیا ہے۔ یہ دھوکہ اور فراڈ بہار کے لوگوں میں نہیں نتیش کمار کا ڈی این اے میں ہے ‘‘۔

بی جے پی کی خوشنودی کے لیے ایوان ِ پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں شہریت ترمیمی بل (سی اے بی) کی حمایت کرنے والے نتیش کمار کے لیے جب پرشانت کشور کے ذریعہ قومی شہریت رجسٹر (این آر سی) اور قومی آبادی رجسٹر (این پی آر) کی مخالفت ناقابلِ برداشت ہوگئی تو انہوں نے ایک ماہ کی چپقلش کے بعد پارٹی کے نائب صدر اور قومی جنرل سکریٹری پون ورما کو جے ڈی یو سے نکال باہر کیا ۔ نتیش کمار نے اپنے اس انتہائی اقدام کا یہ جواز پیش کیا کہ ’ امیت شاہ نے مجھے پرشانت کشور کو جے ڈی یو میں شامل کرنے کے لئےکہا تھا ، تب جاکر میں نے انہیں پارٹی میں شامل کیا۔ اب پی کے (یعنی پرشانت کشور) سے پوچھ لیجئے (پارٹی میں ) رہنا ہے یا نہیں؟ اگر رہنا ہے تو پارٹی خطوط پر کاربند رہنا ہو گا، ورنہ جہاں جانا ہے جائیں۔ ہم کسی کو پکڑ کر نہیں رکھتے ہیں‘۔ اس رعونت آمیز رویہ نے سشیل مودی کے مذکورہ بیان کی تصدیق کردی ۔ پون ورما کو سی اے اے اور این پی آر وغیرہ پر نہیں بلکہ دہلی الیکشن میں بی جے پی کے ساتھ اتحاد پر اعتراض تھا ۔ اس طرح نتیش کمار نے بی جے پی کی خاطر اپنے دونوں بازو کھودیئے جو کوئی معمولی نقصان نہیں تھا ۔

پرشانت اور پون کے نکل جانے سے سشیل کا حوصلہ بلند ہوگیا اور انہوں نے این پی آر کا نوٹیفکیشن جاری ہونے کا اعلان فرما دیا لیکن وقتکے ساتھ جے ڈی یو پر این پی آر کے خلاف چلنے والی تحریک کا دباوبتدریج بڑھ رہا تھا۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ سب سے زیادہ شاہین باغ جیسے مظاہرے بہار میں ہور ہے ہیں ۔تعداد کے معاملے میں دہلی دوسرے نمبر پر ہے۔ اس دوران جے ڈی یو کے دوسینئررہنما للن سنگھ اورآرسی پی سنگھ بار بار یہ بات دوہراتے رہے کہ شہریت ترمیمی قانون،این پی آراوراین آرسی پرافواہ پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔اس تناظر میں اچانک حزب اختلاف کےقائد تیجسوی یادو کے ذریعہ ایوان اسمبلی میں ان موضوعات پر ایک تحریک التواء کا پیش ہوجانا حیرت انگیز تھا ۔ اس قرار داد کو پڑھ کر سنانے کی ذمہ داری خود صدر مجلس (یعنی اسپیکر) وجئے کمار چودھری نے ادا کی اور یکلخت ایوان کے سارے ارکان نے میزیں تھپتھپاتے کر اتفاق رائے سے اسےمنظور کرلیا ۔ اس قرار داد میں صاف طور پر کہا گیا ہے کہ ریاست میں این آر سی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ایک ایسی ریاست میں جہاں بی جے پی حکومت کا حصہ ہو اس طرح کی قرار داد کا منظور ہوجانا اپنے آپ میں ایک چمتکار ہے اور بی جے پی کے ذریعہ ا اس کی حمایت اعلیٰ ترین ابن الوقتی اور موقع پرستی نہیں تو اور کیا ہے؟
ایوانِ اسمبلی میں وزیراعلیٰ نتیش کمار نے واضح کیا کہ وہ این پی آر کے اندر شامل شدہ اضافی اندراجات کے مخالف ہیں۔ اس بابت انہوں نے مرکزی حکومت کو روانہ کردہ مکتوب کی اطلاع دی ۔ یہ خط ریاست کے جس محکمہ مال و لینڈ ریفارمس کے پرنسپل سکریٹری نے روانہ کیا ہے وہ بی جے پی سے تعلق رکھنے والے وزیر کے تحت ہے ۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس تعلق سے سرکار کے اندر کوئی الجھن یا عدم اتفاق نہیں پایا جاتا۔ نتیش نے بتایا کہ این پی آر کی مشق کے دوران کسی سے بھی اس کے والدین کا مقام پیدائش یا تاریخ پیدائش نہیں پوچھا جائیگا ۔ وزیراعلیٰ نے خود اپنے بارے میں کہا کہ وہ خود والدین کی تاریخ پیدائش نہیں جانتے اور کتنے لوگ ہونگے جنہیں وہ تاریخ یا دہوگی۔ دیہی علاقوں میں پیدائش کے تعلق سے موسم گرما یا سرما یاد رکھا جاتا تھا۔اندراج کا رواج پہلے نہیں تھا ۔وزیراعلیٰ نتیش کمار نے کہا کہ اضافی اندراجات چونکہ غیر ضروری ہیں ، ان سے مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں اس لئے انہیں ختم کرکے 2010 کے طرز پر این پی آر بنایا جانا چاہئے ۔ نتیش کمار نےاین پی آر کے فارم میں زنخون کے جنس کا کالم بڑھانے اورمردم شماری میں ذات کے اندراج کو شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ دیگر پسماندہ ذاتوں کےاس قدیم مطالبہ کوبہار کی اسمبلی نے تسلیم کرکے کا انقلابی فیصلہ کیا ہے۔

بی جے پی کے مخالفین یہ توقع کررہے تھے کہ ڈپٹی وزیر اعلیٰ سشیل کمار مودی کے لیے اس تجویز کی حمایت ناممکن ہوجائے گی اور اس مسئلہ پر نتیش سرکار گر جائے گی لیکن آر جے ڈی کے لیے اپنے مسلمان رائے دہندگان کو ناراض کرکے اس کی مخالفت ممکن نہیں تھی ۔ نتیش کمار کی حمایت کرنا تیجسوی یادو کی مجبوری تھی ۔ دہلی میں ہندووں کی ناراضگی سے بچنا جس طرح کیجریوال کی مجبوری ہے اسی طرح بہار میں مسلمانوں کو خوش رکھنا تیجسوی یادو کے لیے لازم ہے۔ بی جے پی نے جب یہ دیکھا کہ اس کی مخالفت کے باوجود نتیش کمار کی سرکار نہیں گرے گی تو اس نے گرگٹ کی مانندرنگ بدلتے ہوئے کہا کہ این پی آر کے تعلق سے اپنا موقف بدل کر اعلان کردیا کہ اب این پی آر کی بابت کوئی الجھن نہیں ہے ۔ ریاست میں یہ عمل 15 تا 28 مئی کے دوران 2010 کے طرز پر ہوگا اور کسی سے دستاویز نہیں پوچھے جائیں گے ۔ویسے حزب اختلاف راشٹریہ جنتادل نے اس قرار داد کا سہرہ اپنے سرباندھتے ہوئے کہا ہے کہ ہم بہار میں سی اے اے پر عمل آوری بھی ہونے نہیں دینگے ۔ سی اے اے کے خلاف چلنے والی تحریک کی یہ بہت بڑی فتح ہے اور مسلمانوں کی سیاسی بے وزنی کا رونا رونے والوں کے لیے تازیانۂ عبرت ہے۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1450382 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.