مسئلے کا حل جنگ نہیں بلکہ مذاکرات ہیں

بچپن سے ایک ہی بات سننے میں آرہی ہے کہ ہر مسئلے کا حل لڑائی یا جنگ نہیں بلکہ مل بیٹھ کر مذاکرات کے ذریعے ہی مسائل کا حل نکالا جا سکتا ہے آج ایک بار پھر وہی بات ثابت ہوئی افغانستا ن میں کب سے حالات خراب ہیں اور آ ج تک کتنے نقصانات ہو ئے ہیں مگر ان مشکلات اور نقصانات کے باوجو د دونوں فریقین بالآخر مذاکرات کی میز پر آگئے سال 2001سے افغانستان اور امریکہ کے حالات کشیدہ رہے جس کے نتیجے میں افغانستان کا امن خراب ہونے لگا تھا افغانیوں نے سال2001سے پہلے جو آزادی کی سانس لے رہے تھے وہ سال 2001کے بعد نہ لے سکے کیونکہ سال 2001کے بعدافغانستان میں امریکی فوج اورطالبان کی جھڑپیں شروع ہوگئیں طالبان تو پہلے سے موجودتھے لیکن نائن الیون کے بعد امریکی فوج افغانستان میں داخل ہوگئی دونوں فریقین نے اپنے اپنے ہداف کو پورا کرنے کیلئے کوششیں شروع کیں جن کی وجہ سے افغانستان کی صورتحال روز بروز خرا ب ہوتی گئی یہی وجہ تھی کہ 2001سے لے کر 2020تک افغانستا ن سے اچھی خبر نہیں آئی ہے جو بھی خبرافغانستان سے آتی تھی وہ دکھ سے بھری خبر ہوتی تھی مثلاً فلاں جگہ خودکش دھماکہ ہوا ہے فلاں جگہ فائرنگ ہوئی ہے فلاں جگہ یہ ہوا ہے اور فلاں جگہ وہ ہوا ہے جس کے نتیجے میں نقصان اتنا ہوتا تھا کہ انسان سوچ بھی نہیں سکتا تھا ہر دھماکے اور فائرنگ کے نتیجے میں قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوتیں تھیں اسی طرح مالی نقصان بھی ہوتا تھا بین الاقوامی خبر رساں ادارہ کے مطابق آج تک 2400سے زائد امریکی فوجی,ہزاروں طالبان اور عا م شہری ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ اب بھی افغانستا ن میں 12000امریکی فوجی تعینات ہیں اتنے نقصان کے باوجود ددنوں فریقین مذاکرات کی میز پر آگئے اور قطر کے شہر دوحہ میں امن معاہدے پر دستخط کئے اس تقریب میں پچاس ممالک کے نمائندوں نے شرکت کی یہ مذاکرات کا سلسلہ2007سے شروع تھا جو اب 13سال بعد پایہ تکمیل تک پہنچادونوں فریقین کے مابین امن معاہدے پر دستخط توہوگئے لیکن دیکھیں گے کہ آگے کیا ہوتا ہے آیا یہ امن معاہدہ برقرار رہے گا۔ ؟کچھ لوگ شکست کی بات کرتے ہیں کہ شکست کس کو ہوئی ہے اور کریڈٹ کس کو جاتا ہے اگر اندازہ لگایا جائے تو صاف ظاہر ہے کہ مذاکرات کی خواہش کس نے ظاہرکی تھی ۔؟ قطر کے شہر دوحہ میں کئے گئے معاہدے کے تحت امریکہ کی جانب سے طالبان پر لگائی گئی پابندیاں اُٹھائی جائیں گی اور امریکہ کی حراست میں پانچ ہزار سے زائدطالبان رہا کئے جائیں گے اور اسی طرح ایک ہزار کے قریب افغان فوجیوں کو دس مارچ تک رہا کردیا جائے گا تو قع ہے کہ اس تاریخ تک افغان حکومت اور طالبان کے مابین بات چیت کا آغاز ہوجائے گا اگر معاہدے پر عملدرآمد نہیں ہوا تو ایک بڑی جنگ چھڑ سکتی ہے پھر اس جنگ کا خاتمہ ناممکن ہوگا اﷲ کرے کہ یہ معاہدہ برقرار رہے تبھی امن قائم ہوسکتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Rufan Khan
About the Author: Rufan Khan Read More Articles by Rufan Khan: 32 Articles with 27541 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.