ترک صدر رجب طیب اردوان پاکستان کے دو روزہ دورے پر آئے ،
انہوں نے پاکستان کی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا، اہم معاہدے اور
مفاہمتوں کی یادداشتوں پر دستخط ہوئے،پاک ترک بزنس کونسل کی تقریب ہوئی،
وزیراعظم عمران خان، صدر مملکت سے ملاقاتیں ہوئی، اور دو روزہ دورے کے بعد
وہ واپس راونہ ہوئے تو وفاقی وزیر حماد اظہر نے انہیں ایئر پورٹ پر الوداع
کیا۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے ترکی کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں، لیکن
اس سے بھی بڑھ کر پاکستان کے سعودی عرب کے ساتھ بہترین تعلقات ہیں،
ملائیشیا میں جب کانفرنس ہوئی تھی اسوقت وزیراعظم عمران خان کے کانفرنس میں
شرکت نہ کرنے کے باعث پاکستان کے دوست ملک سعودی عرب کے خلاف پروپیگنڈہ کیا
گیا کہ سعودی عرب کے کہنے پر پاکستان نے کانفرنس میں شرکت نہیں کی حالانکہ
حقیقت ایسی نہیں تھی، ترک صدر نے کانفرنس کے بعد بیان دیا تھا جس میں سعودی
عرب کو مورد الزام ٹھہرایا تھا تاہم سعودی عرب اور پاکستان دونوں نے اس بات
کی تردید کی تھی اور کہا تھا کہ ایسی کوئی بات نہیں، دونوں ملکوں میں ایسے
تعلقات نہیں کہ کوئی دراڑ آئے، دونوں ممالک کے تعلقات اخوت کے باہمی رشتے
میں بندھے ہوئے ہیں۔
اب بھی جب ترک صدر رجب طیب اردوان پاکستان کے دورے پر آئے تو پاکستان میں
سعودی عرب کے حوالہ سے بے جا پروپیگنڈہ کیا جاتا رہا کہ سعودی عرب نے ترک
صدر کی آمد کے بعد وہاں مقیم پاکستانیوں کی پکڑ شروع کر دی ہے، اس مسئلے کو
سوشل میڈیا اور میڈیا پر خوب اچھالا گیا حالانکہ حقیقت اسکے برعکس تھی ،غیر
قانونی تارکین وطن کے خلاف آپریشن تو پاکستان میں بھی ہوتا ہے، کوئی بھی
غیرقانونی کسی بھی ملک سے آئے تو اسے ایئر پورٹ سے ہی واپس بھیج دیا جاتا
ہے، ایسے کتنے واقعات پیش آ چکے ہیں، ترکی میں بھی اسی طرح ہوتا ہے، کوئی
بھی کسی کو غیر قانونی طور پر اپنے ملک میں داخل نہیں ہونے دیتا ایسے میں
غیر قانونی طور پر مقیم افراد کے خلاف آپریشن جوسعودی عرب میں سالہا سال
جاری رہتا ہے اس کو بنیاد بنا کر پروپیگنڈہ کیا جس پر جدہ میں پاکستانی
قونصلیٹ نے سوشل میڈیا پر چلنے والی خبروں کی سختی سے تردید کی ہے، جس میں
یہ کہا گیا ہے کہ سعودی حکام نے مکہ مکرمہ گورنر کے علاقے سے پکرے جانے
والے پاکستانیوں کو قید اور جلاوطن کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ قونصلیٹ کو
متعلقہ سعودی حکام سے رابطہ کرنے پر بتایا گیا ہے کہ سعودی حکام تمام
قومیتوں کے غیرقانونی تارکین وطن کو گرفتار کرکے انہیں ملک بدر کرتے ہیں۔یہ
سلسہ سال بھر میں مختلف اوقات میں جاری رہتا ہے۔ تاہم قونصلیٹ نے واضح کیا
ہے کہ حالیہ مہم کا آغاز ایسے افراد کے خلاف کیا گیا ہے جو اقامے پر لکھے
گئے پیشے کی جگہ دیگر شعبوں میں کام کر رہے ہیں اور یوں قانون شکنی کے
مرتکب ہو رہے ہیں۔اس سلسلے میں گزشتہ تین روز میں 400 کے قریب پاکستانیوں
کو شمیسی ڈیپورٹیشن مرکز لایا گیا ہے۔ پکڑ دھکڑ کی حالیہ مہم کسی خاص ملک
کے شہریوں کے خلاف نہیں نہ ہی اس کا ہدف پاکستانی شہری ہیں۔ یہ کہنا کہ یہ
مہم صرف پاکستانیوں کے لیے مخصوص ہے، بالکل غلط ہے۔
پاکستان کے دوست ملک سعودی عرب کے خلاف اس پروپیگنڈے کے پیچھے کون سے عناصر
ہیں؟ اس بحث میں جانے کی ضرورت نہیں سب جانتے ہیں لیکن وہ عناصر اس بات کو
ذہن میں رکھیں کہ پاک سعودی تعلقات ایسے نہیں کہ پروپیگنڈوں کی بنیاد پر ان
کو ختم کرنے کی مذموم کوشش کی جائے، پاکستان اور سعودی عرب دونوں اسلامی
ملک، ایک امت مسلمہ کا روحانی مرکز ، دوسرا دفاعی مرکز ہے، دونوں ممالک کے
مابین تعلقات میں رخنہ ڈالنے کی مذموم سازشیں کرنے والے کبھی بھی کسی صورت
بھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔یہ پروپیگنڈہ ایسے وقت میں کیا گیا جب پاکستان اور
سعودی عرب کی مشترکہ فوجی مشقیں بھی جاری ہیں، ان عناصر کو اس بات کی شاید
سمجھ نہیں کہ دونوں دوست ملک اپنے دفاع کو مضبوط کرنے کے لئے بھی یکجان
ہیں، پاکستان اور سعودی عرب کی مشترکہ فوجی مشقیں ’الصمصام‘ سعودی عرب میں
شروع ہوئیں پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق پاکستان اور سعودی عرب کی
مشترکہ فوجی مشقیں ’الصمصام دو ہفتے تک جاری رہے گی۔ مشقوں میں کامبیٹ
پیٹرولنگ، بارودی سرنگیں تلف کرنے کی مشقیں ہوں گی۔یہ مشقیں پہلی بار نہیں
ہو رہی بلکہ ماضی میں ہوتی رہی ہیں، دونوں ممالک کی افواج ملکر مشترکہ
مشقیں کرتی ہیں۔پاکستان اور سعوی عرب کے درمیان طویل عرصے سے برادرانہ
مراسم قائم ہیں ، ملت اسلامیہ کے رشتے میں جڑے پاکستان اور سعودی عرب میں
دوستی کا پہلا معاہدہ شاہ ابن سعود کے زمانے میں 1951ء میں ہوا تھا۔سعودی
عرب کا شماران چند ممالک میں ہوتا ہے جنہوں نے نہ صرف مسئلہ کشمیر پر
پاکستان کے موقف کی کھل کر حمایت کی ہے بلکہ پاک بھارت جنگوں میں پاکستان
کی باقاعدہ مدد بھی کی ہے۔سعودی عرب کے مقبول ترین بادشاہ ، شاہ فیصل کے
دور میں پاک سعودی تعلقات کو بہت فروغ ملا۔ ستمبر1965ء کی پاک بھارت جنگ
میں سعودی عرب نے پاکستان کی بڑے پیمانے پر مدد کی۔ اپریل 1966ء میں شاہ
فیصل نے پہلی مرتبہ پاکستان کا دورہ کیا اور اس موقع پر اسلام آباد کی
مرکزی جامع مسجد کے سارے اخراجات خود اٹھانے کا اعلان کیا۔ یہ مسجد آج شاہ
فیصل مسجد کے نام سے دنیا بھر میں جانی جاتی ہے۔ پاکستان کے صوبہ پنجاب کے
ایک بڑے شہر لائل پور کا نام انہی کے نام پر فیصل آباد رکھا گیا جبکہ کراچی
کی سب سے بڑی شاہراہ انہی کے نام پر شاہراہ فیصل کہلاتی ہے۔ اس کے علاوہ
کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے قریب ایک بہت بڑی آبادی شاہ فیصل
کالونی کہلاتی ہے اور اسی کی نسبت سے کراچی کے ایک ٹاؤن کا نام شاہ فیصل
ٹاؤن ہے۔سنہ 1967ء میں سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان میں فوجی تعاون کا
معاہدہ ہوا، جس کے تحت سعودی عرب کی بری، بحری اور فضائی افواج کی تربیت کا
کام پاکستان کو سونپ دیا گیا۔ اپریل 1968ء میں سعودی عرب سے تمام برطانوی
ہوا بازوں اور فنی ماہرین کو رخصت کر دیا گیا اور ان کی جگہ پاکستانی
ماہرین کی خدمات حاصل کی گئیں۔شاہ فیصل کے دور حکومت میں سعودی عرب نے
1973ء کے سیلاب میں پاکستان کی مالی امداد فراہم کی اور دسمبر 1975ء میں
سوات کے زلزلہ زدگان کی تعمیر و ترقی کے لیے بھی ایک کروڑ ڈالر کا عطیہ
دیا، جبکہ 2005 کے زلزلے اور 2010 کے سیلاب میں بھی سعودی عرب کی جانب سے
خطیر امداد بھجوائی گئی۔1971 ء میں مشرقی پاکستان کی پاکستان سے علیحدگی پر
شاہ فیصل کو بہت رنج ہوا اور انہوں نے پاکستان کی جانب سے تسلیم کرنے کے
بعد بھی بنگلہ دیش کو تسلیم نہ کیا۔سعودی عرب کی بھرپور حمایت اور کوشش سے
پاکستان نے سنہ 1974 میں او آئی سی کے دوسرے اجلاس کی لاہور میں میزبانی
کی۔ جب پاکستان نے نوے کی دہائی کے آخری سالوں میں ایٹمی دھماکے کیے تو اس
وقت ساری مغربی دنیا پاکستان کی مخالف ہوگئی تھی لیکن سعودی عرب سفارتی
میدان میں پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا، اور ساتھ ہی ساتھ مالی امداد بھی جاری
رکھی۔ ایک سال تک 50 ہزار بیرل یومیہ تیل موخر ادائیگی کی بنیاد پر دیا
گیا۔پاکستان کے لیے ترسیلات کے اعتبار سے سعودی عرب سب سے بڑا ملک ہے۔ سال
2017-18 میں پاکستانیوں نے 4.8 ارب ڈالر کی ترسیلات بھیجی تھیں ، جو کہ کل
ترسیلاتِ زرکا 29 فیصد حصہ ہے۔اس وقت پاکستان میں سعودی عرب کی 25 کمپنیاں
پاکستان میں کام کررہی ہیں۔ دوسری جانب 350 پاکستانی سرمایہ کار سعودی جنرل
انویسٹمنٹ اتھارٹی کے ساتھ رجسٹر ہیں۔
سعودی عرب نے ہمیشہ مشکل وقت میں پاکستان کی مدد کی ،اس بات کی کئی مثالیں
موجود ہیں،ابھی ایک دن قبل ہی سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کے صوبے
خیبرپختونخواہ کے پانچ ہزار شہریوں کو امدادی سامان تقسیم کردیا گیا۔ سعودی
عرب کی جانب سے دی جانے والی امداد کی تقسیم مختلف مراحل میں کی گئی، پہلے
مرحلے میں سردیوں سے متاثرہ علاقوں کے شہریوں کو گرم کپڑوں، کمبل، اشیائے
خوردونوش، پینے کا صاف پانی فراہم کیا گیا۔سعودی عرب کی جانب سے بھیجے جانے
والے سامان کی تقسیم کا عمل تیس جنوری سے شروع کیا گیاجو ابھی تک جاری
ہے،امدادی مرکز کی جانب سے جاری ہونے والے اعلامیے کے مطابق ’پروگرام کے
تحت یمن کے متاثر کے لیے بھی امدادی سرگرمیاں جاری ہیں، انہیں بروقت طبی
امداد فراہم کر کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں جبکہ وہاں ڈاکٹرز بھی تعینات
کردیے گئے جو معائنے کے بعد مریضوں کو بالکل مفت ادویات فراہم کرتے ہیں۔شاہ
سلمان امدادی سینٹر برائے فلاح انسانیت کے تحت دنیا بھر میں ضرورت مند
مستحق افراد کو امداد فراہم کی جاتی ہے۔ مرکز کے تحت مختلف ممالک میں طبی
کیمپ بھی لگائے جاتے ہیں جہاں مریضوں کو علاج معالجے کی مکمل مفت سہولیات
فراہم کی جاتی ہیں، پاکستان کے پہاڑی علاقوں، کشمیر، گلگت بلتستان، اور
بالخصوص بلوچستان میں بھی سعودی فرماں روا شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی ہدایت
پر غریب افراد میں پیکج تقسیم کئے گئے،۔
برادراسلامی ملک سعودی عرب کیخلاف یہ پروپگنڈہ کرناکہ ہر قسم کی قانونی
دستاویزات کے باوجود سعودی عرب میں پاکستانیوں کو اٹھایا جا رہا ہے، حقیقت
میں ایرانی پراکسی وار کا ہی حصہ ھے،پاکستان ایک آزاد,خودمختار ملک
ھے،سعودی عرب سے بڑھ کر بھلا پاکستان کی آزادی اور خود مختاری کا بھلا اور
کون احترام کرے گااسلیئے کہ سعودی عرب ہی دنیا میں پاکستان کا سب سے سچا
اور مخلص دوست ھے تبھی تو سعودی عرب کے فرمانرواوں نے کسی بھی مشکل میں
پاکستان کو تنہائی کا احساس نہیں ھونے دیامالی اور اخلاقی مدد کرنے میں
سعودی عرب ھمیشہ پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا،وزیر اعظم عمران خان ملایئشیاء
کا دورہ کریں یا ترکی کے اردگان پاکستان کابھلا سعودی عرب کو اس پر کیا
اعتراض ھو سکتا ھے،حکو مت کی ذمہ داری ھے کہ وہ پاکستان کے مخلص دوست اور
محسن اسلامی ملک سعودی عرب کے خلاف جھو ٹا پروپگنڈہ کرنے والے عناصر پر کڑی
نظر رکھے،کیونکہ سعودی عرب کے بد خواہ کبھی پاکستان کے خیر خواہ نہیں ھو
سکتے۔
|