گزشتہ جمعہ کو ایم این اے حلقہ این اے 57صداقت عباسی نے
ضلعی انتظامیہ کے ہمراہ مانکیالہ کے مقام پر ایک کھلی کچہری کا انعقاد کیا
جس میں علاقہ بھر سے عوام اور سیاسی و سماجی شخصیات کی ایک بہت بڑی تعداد
نے شرکت کی ہے صداقت عباسی کی طرف سے اس طرح کے پروگراموں کا انعقاد نہایت
ہی خوش آئند ہے کھلی کچہریوں کا مقصد عوام کے مسائل کا حل ہوتا ہے اس کھلی
کچہری کے تمام تر انتظامات سردار بشارت،راجہ راشد علی ،محمود الحق کیانی
اور راجہ محمد عمران کی طرف سے بہترین طریقے سے ترتیب دیئے گئے تھے سب سے
پہلی بات یہ ہے کہ ہمکو کھلی کچہری کے مقاصد کا علم ہونا بہت ضروری ہے کھلی
کچہری کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ تمام سرکاری اداروں کے سربراہ اس میں موجود
ہوتے ہیں عوام کی طرف سے جس بھی محکمے یا جس کسی بھی سرکاری آفیسر یا
اہلکار کے خلاف کوئی شکایت کی جاتی ہے یا کوئی اور مسئلہ پیش کیا جاتا ہے
تو متعلقہ ادارے کا سربراہ موقع پر ایکشن لے کر اس کا حل نکالتا ہے کھلی
کچہری میں کسی محکمہ یا کسی بھی سرکاری آفیسر کی تعریفیں کھلی کچہری کے نظم
وضبط کی خلاف ورزی تصور کی جاتی ہیں جہاں پر مذکورہ کھلی کچہری کا انعقاد
بہت اچھا سمجھا جا رہا ہے وہاں پر اس میں کچھ خامیاں بھی دیکھنے کو ملی ہیں
سب سے پہلی بات یہ کہ بجائے پولیس سے تنگ عوام کی شکایتیں سنی جاتی بلکہ
وہاں پر پولیس کی تعریفیں کرنا اور متعلقہ اداروں کی طرف سے خاموشی سے سننا
سمجھ سے بلکل بالاتر ہے کون اس بات سے بخوبی آگاہ نہیں ہے کہ جن افراد نے
پولیس کی تعریفیں کی ہیں وہ پلانٹڈ تھے ان کو پڑھا سکھا کر وہاں پر بھیجا
گیا تھا اس میں کوئی شک نہیں کہ ایس ایچ او روات بہت اچھا کام کر رہے ہیں
لیکن اس بات سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا ہے کہ بے شمار عوام پولیس کے
ہاتھوں ظلم کا شکار بھی ہو رہے ہیں آئے روز پولیس کی طرف سے عوام کے ساتھ
ہونے والی زیادتیوں کی داستانیں سننے کو ملتی ہیں دوسری بات یہ ہے کہ وہاں
پر موجود پی ٹی آئی کے مقامی رہنماؤں اور کارکنوں کی طرف سے جو باتیں یا
مطالبات صداقت عباسی کے فارم ہاؤس پر کرنی چاہئیں تھی وہ انہوں نے کھلی
کچہری میں شروع کر دیں جس سے اس کے مقاصد میں کمی واقع ہو گئی او بدنظمی
بھی پیدا ہو گئی جس وجہ سے بہت سے ایسے فریادی جو اپنے ایم این اے اور حکام
کے سامنے اپنے جو مسائل پیش کرنے کا سوچ کر آئے تھے ان کو موقع ہی نہ مل
سکا ہے جس وجہ سے وہ مایوس ہو کر واپس چلے گئے ہیں قصور ہم لوگوں کے ہوتے
ہیں جبکہ ان کا خمیازہ سیاسی رہنماؤں کو بھگتنا پڑتا ہے عوام ان سے ناراض
ہو جاتے ہیں ایسی کھلی کچہریوں کو کامیاب نہیں بلکہ ناکام ہی سمجھا جاتا ہے،
سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی ایل این جی کیس میں ضمانت منظور ہو گئی
ہے اور وہ اڈیالہ جیل سے رہا ہو گئے ہیں ان کی رہائی پر جہاں پورے حلقہ سے
ن لیگی رہنماؤں اور کارکنوں نے خوشی و مسرت کا اظہار کیا ہے وہاں پر تحصیل
کلرسیداں سے بھی لیگی رہنماؤں و کارکنوں کی ایک بہت بڑی تعداد اڈیالہ جیل
کے باہر بھی موجود تھی اور ہر آئے دن کلرسیداں سے کوئی نہ کوئی وفد ان کو
رہائی کی مبارک دینے کیلیئے اسلام آباد میں ان کی رہائش گاہ پر ضرور جا رہا
ہے اور وہ اپنے لیڈر سے ملاقات کر کے خوشی محسوس کر رہے ہیں شاہد خاقان
عباسی کا کیس جب ٹرائل ہو رہا تھا تو نیب عدالت میں بھی کلرسیداں سے بہت
اہم رہنما وہاں پر موجود ہوا کرتے تھے شاہد خاقان عباسی کے کیس و ضمانت کے
حوالے سے جہاں پر کلرسیداں سے دیگر بہت سے ن لیگی کارکنوں نے بہت اہم کردار
ادا کیا ہے وہاں پر چند رہنماؤں کا کردار نہات ہی قابل تعریف رہا ہے ان میں
سابق ایم پی اے و نائب صدر ن لیگ پنجاب قمر السلام راجہ نے بھی بطور نائب
صدر پارٹی اس حوالے سے بہت اہم کردار ادا کیا ہے اور وہ اس کیس کے ٹرائل کے
دوران پیش پیش رہے ہیں سابق چیرمین یو سی بشندوٹ زبیر کیانی جن کا شمار
شاہد خاقان کے بہت قریبی ساتھیوں میں ہوتا ہے وہ ہر تاریخ پیشی کے موقع پر
نیب عدالت میں موجود ہوتے تھے اور اپنے قائد پر بنے کیس کے حوالے سے ان کا
کردار نہایت ہی ہمیت کا حامل رہا ہے جس دن کیس کا ضمانت کے حوالے فیصلہ
سنایا گیا تو وہ وہاں پر صبح سویرے ہی پہنچ چکے تھے انہوں نے اپنے قائد کو
نہایت ہی گرم جوشی سے اڈیالہ جیل سے وصول کیا ہے اسی طرح سابق چیرمین یو سی
لوہدرہ نوید بھٹی بھی ہر تاریخ پیشی کے موقع پر عدالت میں اپنی حاضری ضرور
دیا کرتے تھے اور انہوں نے بھی اپنے قائد کے کیس کے حوالے سے اہم کردار ادا
کیا ہے ،گزشتہ ہفتے ن لیگ کے سابق و اہم رہنما چوھدری نثار علی خان سابق
چیرمین یو سی ساگری شہزاد یونس کے والد محترم کی وفات پر ان سے اظہار تعزیت
کیلیئے ان کے گھر ساگری تشریف لائے ہیں اس موقع پر انہوں نے جو بھی باتیں
کی ہیں وہ سب بے وقت کی راگنی ہیں انہوں نے اپنی قدر و قیمت بلکل کھو ڈالی
ہے اب ان کی طرف سے ایسی باتیں بلکل وقت کا ضیاع ہیں اور اس طرح کی باتیں
کر کے وہ اپنی اہمیت دن بدن مزید کھوتے جا رہے ہیں وہ اب اس طرح کی صورتحال
سے دوچار ہو چکے ہیں کہ نہیں اب صرف زبان بندی سے کام لینا چاہیئے اور اس
میں ان کی بھلائی ہے وہ چوھدری نثار علی خان جن کی آمد پر کلرسیداں کے پتھر
بھی ان کے استقبال کیلیئے کھڑے ہو جایا کرتے تھے اب صورتحال یہ بن چکی ہے
کہ وہ جس گھر میں تشریف فرما ہوتے ہیں بس صرف اس گھر کے افراد ہی ان کا
استقبال کرتے ہیں اور اڑوس پڑوس سے چند افراد صرف شغل میلہ دیکھنے کی نیت
سے وہاں پر آ جاتے ہیں جو ان کیلیئے ایک لمحہ فکریہ ہے
|