باتیں تو بہت سی کرنی ہیں اور ویسے بھی عمر کے اس حصے میں
ہوں کہ باتیں سنانا اچھا لگتا ہے اﷲ کا لاکھ لاکھ شکر ہے میں تو اب اس نئی
دنیا میں کہوں گا کسی زمانے میں ایک نظم تھی رب کا شکر ادا کر بھائی جس نے
ہماری گائے بنائی میں کچھ ترمیم کرتا ہوں کہ ہمیں اسی رب کا شکر ادا کرنا
چاہئے جس نے اپنی مخلوق میں سے ایک بندے کو فیس بک بنانے کا انعام
بخشا۔سماجی رابطے کی یہ ویب سائیٹ گھر بیٹھے لوگوں کی منڈلی بنانے میں
آسانیاں پیدا کرتی ہے سڈنی کانگو گجرانوالہ جدہ پتو کی نیو یارک میں پل بھر
میں آپ پہنچے ہوتے ہیں۔ہم جب چھوٹے تھے تو ایک بار اپنے دائیں پاؤں میں
خارش کر رہے تھے بے جی نے کہا میرا بیٹا بڑا سفر کرے گا پھر جب دنیا دیکھی
اور اتنا سفر کیا تو ایک دن بے جی جو جدہ آئے ہوئے تھے ان سے کہا میں نے
اتنی بھی خارش نہیں کی تھی کہ ہر وقت سفر میں ہی رہتا ہوں ابھی میجر احمد
نواز افتخار کسانہ با با خالق گجر ڈاکٹر غلام نبی شہزاد پاشا سکندر گجر کی
میزبانیوں سے ہی فرصت نہیں ملی تھی کہ مینار پاکستان کے جلسے میں پہنچ گئے
وہاں سے گجرانوالہ اور اس کے بعد تحریک صوبہ ہزارہ والوں نے بلا لیا ایبٹ
آباد گئے میں جب بھی اپنے جنم استھان جاتا ہوں تو دوستوں سے ملتا ہوں رونق
لگاتا ہوں مگر اس بار لورہ چوک سے لسن روڈ کی خرابی نے مجبور کیا کہ اجلاس
کے بعد لوئے لوئے اپنے ننھیالی گاؤں پہنچوں جہاں میرے ایک انتہائی قریبی
عزیز صدیق گجر کی موت ہوئی تھی میں اپنی سفری مصروفیات کی وجہ سے جا نہ سکا
۔سلیمان گلی والے کا جوان بیٹا بھی فوت ہوا تھا اور میرے محترم دوست ماسٹر
غلام محمد کی ہمشیرہ۔صوبہ ہزارہ کی تحریک ایک بار پھر سر اٹھا رہی ہے با با
حیدر زمان اب اس دنیا میں نہیں انہوں نے آخری دنوں میں اسے ایک سیاسی پارٹی
کی حیثیت سے رجسٹر کرا لیا تھا کہنے والے کہتے ہیں با با جی نے ہمیں مجبور
کر دیا کہ وہ تحریک صوبہ ہزارہ میں شامل ہو کر جد وجہد کریں ہماری مجبوری
یہ تھی کہ پارٹیاں نہیں چھوڑ سکتے تھے ۔ہزارہ کا نام ہو با با جی کی یاد تو
آتی ہے۔کے پی کے ہاؤس میں ایک خوبصورت اجلاس ہوا مہتمم سجاد قمر تھے صدارت
سردار یوسف کی تھی ۔مرتضی عباسی کا کہنا تھا روٹی شوٹی کھا کے جاؤ ۔اجلاس
میں اپنے قلندر لودھی تھے زر گل تھے باقی اپوزیشن تھی جن میں سردار مشتاق
عبدالرزاق عباسی بزرگ رہنما قاسم شاہ اور سینیٹر طلحہ بابر نواز خان راجہ
فیصل کے علاوہ ماجد گجر آمنہ سردار مفتی عبید غرض ساری ہزارے وال قیادت تھی
البتہ بر سر اقتتدار جماعت کے تگڑے وزیر غائب تھے۔مرتضی عباسی کا کہنا تھا
کہ ہمیں پارٹی کی مجبوری تھی جس کی وجہ سے ہم اقتتدار میں رہتے ہوئے کچھ نہ
کر سکے ۔ویسا کھرا انسان ہے سچ اگل دیا شائد یہی مجبوریاں عمر ایوب کو بھی
ہوں مشتاق غنی کو بھی ہوں ار مجھے بھی لیکن حتی الوسع کوشش کریں گے۔میں نے
تو صاف کہہ دیا تھا کہ سیاست دان کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں نواز شریف نے
اپنی مجبوری کے ساتھ ہزارہ کے ساتھ زیادتی کی اور اس اجتماعی زیادتی میں
پیپلز پارٹی اے این پی سب ساتھ ساتھ تھے۔خیبر پختونخوا پتہ نہیں کس شرارتی
ذہن کی اختراع تھی کہ خیبر بھی اٹک پار کا اور پختونخوا بھی ادھر کا ۔ہزارے
والے تو خوامخوا اس پختونخوا میں بیٹھے ہیں اٹک پار والے انہیں پنجابی کہتے
ہیں اور پنجاب والے انہیں خان صاحب۔چھوٹے صوبے بنا دیں ورنہ سچ پوچھیں لوگ
ٹوٹے بنا دیتے ہیں مشرقی پاکستان کیوں الگ ہوا تھا انہیں بھی کہا گیا تھا
اردو بولو۔با با جس کی زبان ہی اردو نہیں ہے اور مدتوں سے وہ بنگالی لکھتا
پڑھتا ہے جس کے پاس کلچر ثقافت سب کچھ تھا اسے کلمے کے نام پر جوڑا گیا تھا
لوگوں نے اس سے نجات حاصل کر لی اور کلمے کے ساتھ ناطہ جوڑے رکھا بابری
مسجد پر جتنے مظاہرے بنگلہ دیش میں ہوئے ادھر ہمارے ہاں تو کچھ نہیں
ہوا۔ہزارہ بے چارہ مار کھا گیا ہے۔یہاں کے دفاتر میں پانی سے پار لوگوں کا
راج ہے۔شنید ہے کہ ہزارہ الیکٹرک سپلائی کمپنی کا دفتر صوابی میں بن رہا ہے
میں اپنے دوست اسد قیصر سے کہوں گا بھائی یہ کام نہ کرنا۔یہی کچھ ہم لوگ
بنگالیوں کے ساتھ کرتے رہے ۔کسی بنگالی نے اپنے بیٹے کا نام ایوب خان رکھ
لیا بڑا ہوا تو ستر کی لڑائی شروع ہوئی ہمارے عسکری جوان نے پوچھا نام کیا
ہے اس نے جواب دیا ایوب خان۔فوجی نے آنکھیں دکھائیں تو سہم کر کہا نہیں
ساحب میرا نام ایوب ہے خان تو آپ ہیں۔تو کیا ایوب میڈیکل کالج اور سوئی گیس
واپڈا کے دفاتر میں سارے اٹک پار والے لگاؤ گے تو ہزارہ والے پانڈے مانجھنے
کراچی لاہور پنڈی کے ہوٹلوں میں جائیں گے۔میں اس روز گجرانوالہ میں والدین
کی قبروں پر تھا اور یہی سوچ رہا تھا کہ میرے والدین نے مرغزاروں کی سر
زمین میں جنم لیا اور زندگی سرف یہاں پنجاب میں کی ۔میں پنجاب کی دھرتی کو
سلام پیش کرتا ہوں جو ہر آنے والے کو گلے لگاتی ہے لیکن اس ماں کا بھی تو
حق ہے جو بچہ ہزارے میں جنتی ہے کہ وہ اس کو اپنی آنکھوں کے سامنے پلتا
بڑھتا دیکھے اور بیٹا ماں کا جنازہ اپنے کندھوں پر اٹھائے۔لیکن پسے ہوئے
علاقوں کی ماؤں کو یہ سزا مل رہی ہے شہر پھیل رہے ہیں آبادی بہت بڑھ رہی ہے
دیہاتوں اور پسماندہ علاقوں کو ترقی نہ دی گئی تو فاقے تو ہوں گے ہی ڈاکے
بھی ہوں گے۔سترہ اور اٹھارہ جنوری کی درمیانی رات کو جب ڈاکو میرا سب کچھ
لوٹ رہے تھے تو ساتھ کہتے بھی جا رہے تھے کہ ہمارے پاس روٹی نہیں اور آپ
تین تین گاڑیاں رکھے ہوئے ہو بڑے گھروں میں رہتے ہو اور ہم جھونپڑی کو
ترستے ہیں۔میں نے کہا جی بیٹا یہ تمہارا حق ہے۔تم لے جاؤ۔بندوق کی نالی پر
میں جھوٹ بول رہا تھا اور وہ بے حس لوگ حرام کی کمائی میں لگے ہوئے
تھے۔ہزارہ صوبہ بنتا ہے یا نہیں لیکن مجھے اتنا پتہ ہے کہ کہ اگر پی ٹی آئی
کے وہ لوگ جو اٹک پار سے سے اس ہزارے کو اسی طرح سے کنٹرول کریں گے تو اس
کا انجام بھی وہی ہو گا جو ماضی میں ہم دیکھ چکے ہیں میری دوستیاں شہر یار
آفریدی،علی محمد خان ،اسد قیصر سے ہیں وہ میرے دل و جاں کے قریب ہیں فیملی
فرینڈز ہیں میں ان سے اس کالم کے ذریعے یہ درخواست کرتا ہوں ہزارہ کو
سنبھال لو یہ وہ بھائی ہے جو آپ سے کچھ نہیں مانگ رہا اس کے ڈیم ،اس کی
بجلی، اور اس کے پانیوں کو اسلام آباد پیتا ہے اسے شناخت دے دو۔عمران خان
نے وعدہ بھی کیا تھا اور عمران خان کا وعدہ ایک اور بھی ہے وہ چودھری رحمت
علی کے جسد خاکی کو پاکستان لانے کا وعدہ ہے اسے بھی پورا کرنا ہے۔
قارئین وہاں سے شام چار بجے نکلا تو موضع لسن شام سات بجے پہنچا یہ دشوار
گزار راستہ ہوا کرتا تھا اب اﷲ کے کرم سے سڑکوں کا جال بچھ گیا ہے لورہ چوک
سے وہاں تک کی سڑک تیزی سے بن رہی ہے۔بن گئی تو چوک سے ڈیرہ نادر لسن تک
ایک گھنٹہ لگے گا۔صدیق دراز قد گجر مرحوم بھائی کا بڑا بیٹا تھا فجر کی
نماز میں دوران وضو اﷲ کو پیارا ہو گیا اس کے گھر سے نیچے مساح گوجری اور
ایک نیا جنگل دیکھا جو بلین ٹری سونامی کی زندہ مثال ہے میرا ماموں زاد
ظہیر اسکول ماسٹر ہے چائے مشتاق کے ہاں پی اور شام کا کھانا ظہیر کے ہاں
کھایا دودھ لسی مکئی کی روٹی ساگ مزہ آ گیا ۔میرے ننھیالی بندے بڑے سخت
مزاج ہیں مگر سچے کوہستانی مردوں کی طرح پیار بھی تگڑہ کرتے ہیں ۔یہاں ان
درختوں کو دیکھا جو میرے بچپن کی یادوں سے جڑے ہوئے تھے پرانا کمرہ کؤ کے
شہتیروں سے بنا گھر وہی دھواں وہی آگ۔ظہیر کے ساتھ نئی بننے والی مسجد سے
گزرا اور پھر ان گھروں کے پاس سے گزر ہوا جہاں ملنگنی خالہ کا گھر تھا ساتھ
میں بگے کے سلیم کا گھر اور جولاہوں کے ایک دو مکانات یہاں تنور سے پکنے
والی روٹی کی خوشبو اس گوچی اور آرامس سے زیادہ اچھی لگی گلی جسے گیلی کہتے
تھے اس گزر میں وہی خوشبو موجود تھی میری اس تحریر کو اعجاز اور سجاد ابرار
جانیں گے اور میری اکلوتی بہن۔اوپر تھوڑا سا جائیں تو بائیں ہاتھ ماموں
عبدالجبار کا گھر بائیں ہاتھ ہے ۔میں چلنے میں لڑ کھڑا رہا تھا انہی راستوں
پر جہاں ایک قدم ایک پتھر پر اور دوسرا کسی اور پتھر پے خالہ زاد کے ساتھ
شرطیں لگاتے تھے کہ پتھر پر ہی پاؤں رکھوں گا،جی چاہتا تھا کہ اس بٹنگ کو
بھی دیکھوں جس کے نیچے میں کدو کے بیج لگایا کرتا تھا ۔گرمیوں کی چھٹیوں
میں لگائے کدو ماموں ایک بار گجرانوالہ بھی لے آئے۔قارئین بات کہاں سے کہاں
چلی گئی ۔لسن میں اگلے دن سیف الرحمن کے پاس گیا جو میرے جدہ کے زمانے کے
داست ہیں رشتے دار بھی کچھ پرانی تصویریں دیکھیں جب ستر کے آخری عشرے میں
ہم جدہ گئے کیا زمانہ تھا تصویریں دیکھ کر اس وقت کی سختیاں بھی یاد آئیں
جب ایک کمرے میں سات گدوں کے اوپر ہم دس لوگ سویا کرتے تھے جوتوں کی تعداد
دیکھ کر کرایہ فکس ہوتا تھا اور پانی کا ایک ڈرم لینے کے لئے ایک مزدور کو
چھٹی کرنی پڑتی تھی
زندگی سفروں میں ہی کٹ گئی دوسرے روز لسن سے اترے تو نلہ آ گئے جہاں ملک
عبدالرزاق کے جواں سالہ بیٹے کی تعزیت کی۔کماؤ پوت تھا باپ کی کمر ٹوٹ گئی
ہے سعودی عرب میں فورمین تھا اچھا گھر بنا رہا تھا اﷲ کو پیارا ہو گیا۔ادھر
سے نوید کا اسرار تھا کہ گھر میں آستانہ ء عالیہ مرشد آباد کے صاحبزادہ بدر
عالم تشریف لا رہے ہیں۔ڈاکے کے بعد گھر سے ڈر سا لگتا تھا مرشد سے کہا آئیے
دعا ہی کر دیجئے وہ آئے رونق لگ گئی تھکاوٹ عروج پرتھی ملاقات ہوئی تھکاوٹ
کو ڈھونڈتا رہا راجہ راشد اور یاسر قریشی بھی ساتھ تھے عثمان کا شکریہ اور
سب ساتھیوں کا ۔اگلے روز پولیس کا اعلی سطح کی ایک ٹیم آئی ۔زیادہ نہیں
لکھوں گا بس منتظر ہوں ۔لیکن اتنا ضرور کہوں گا یہ میری بچوں کی اور میری
حلال کی کمائی ہے اﷲ مجھے دے گا اور ڈاکو انجام کو پہنچیں گئی رات کو عزیزم
ضیاء نے نعیم الحق کے لئے زبردست تقریب کا انعقاد کیا ایک تقریب حمزہ عباسی
نے میرے اعزاز میں کی مسافر کی زندگی ہے کیا ایک سفر جس کا کسی وقت بھی
خاتمہ ہو سکتا ہے اور اس کے بعد اک اور سفر،یعنی اک اور دریا کا سامنا ہو
گا |