فرقہ وارانہ فسادات کے دوران مسلم املاک کو باقاعدہ نشان
زد کرکے سبوتاز کرنا اور ان کو نذرآتش کرنا۔ نیز متعصب پولیس کی ظالمانہ
کارروائیوں اور بھگدڑ کے دوران سرکاری پراپرٹی کے زیاں کا ہرجانہ بھی
مسلمانوں سے جبراً وصول کرنا۔ لااینڈ آرڈر کے نام پر مسلم نوجوانوں کو
گولیوں کا نشانہ بنانااور ان کو جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دینا۔
عورتوں اور بچوں پر قہر برسانا اوربوڑھے مردوخواتین کو ان کی عمر کا لحاظ
کیے بغیر زودوکوب کرنا، یہ کوئی اتفاق نہیں ہوسکتا اور نہ ہی اس کو کسی
حادثے سے تعبیرکیا جاسکتا ہے۔ بلاشبہ یہ ایک منظم سازش، منصوبہ بند پلان،
اور قومی و مذہبی عصبیت پر مبنی خوفناک تحریک اور سوچ کےنتیجے ہی میں
ہوسکتا ہے۔
ملک میں آزادی کے بعد سے اب تک تقریباً پچاس ہزار سے زائدفرقہ وارانہ
فسادات رونما ہوچکے ہیں۔ اگر آپ ہر ہر فساد کے دفتر کھول کر بیٹھ جائیں اور
متاثرہ علاقے کے لوگوں کی فساد سے قبل اور بعد کی زندگیوں کا بغور جائزہ
لیں، تو آپ کو بخوبی معلوم ہوجائے گا کہ اس ملک میں، جس کو دنیا کا عظیم
ترین جمہوری ملک کہا جاتا ہے، یہاں مسلمانوں کے خلاف کیسی کیسی سازشیں رچی
گئیں اور مسلمانوں پر اس جمہوری فضا کو تنگ کرنے کے لیے کیسے کیسے حربے
اختیار کیے گئے، وہ بلاشبہ بہت ہی تشویشناک اورلرزہ خیز ہیں، جن سے
ہندوستانی مسلمانوں کی معاشرت اور معیشت بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔ تقسیم کے
بعد اس ملک میں بالخصوص یوپی کے مئو اور مبارک پور وغیرہ میں مسلمانوں کے
پاس کپڑے وغیرہ کی بڑی تجارت تھی، مگر ایک سازش کے تحت ان کے سارے کاروبار
کو برباد کردیا گیا، اسی طرح اس سازشی گروہ نے ملک میں جہاں کہیں بھی
مسلمان پھول پھل رہے تھے، وہاں شب خوں مارا اور راتوں رات گاؤں کا گاؤں
ویران کردیا۔
تاریخی دستاویزات کے حوالے سے یہ بات الم نشرح ہوجاتی ہے کہ ملک میں جب بھی
کہیں فرقہ وارانہ فسادات برپا ہوئے، ان میں مسلمانوں کا کروڑوں سے زاید کے
املاک کا خسارہ ہوا ہے۔ اس سے آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اب تک صرف
ان فسادات میں مسلمانوں کو اربوں ڈالر کا خسارہ برداشت کرنا پڑا ہوگا۔ اس
کے علاوہ حکومتوں نے سیاست، تجارت، ملازمت، حتی کہ تعلیم میں بھی مسلمانوں
کو پیچھے رکھنے کے لیے ہمیشہ ان سازشی فتنوں کا سپورٹ کیا۔ سچر کمیٹی کی
رپورٹ کے مطابق: ہندوستانی مسلمان تعلیم، تجارت، ملازمت اور صحت میں سب سے
پیچھے ہیں۔ یقیناً کچھ تو ہم نے بھی اپنے ساتھ انصاف نہیں کیا، مگر اس
کےساتھ ساتھ حکومت اور حکومت کے حلق میں جن کی انگلی تھی، انھوں نے ہمیں
معاشرتی اور قومی سطح پر دبانے کی ہمیشہ کوششیں کی، تاکہ ہم معاشی طور پر
دیوالیہ ہو جائیں اور اپنی روایتوں کو چھوڑ کر ان کی تہذیب و ثقافت میں ضم
ہوجائیں یا اپنی آزادی کو بھول کر ان کے غلام بن جائیں اور معاشرے میں
ہماری اپنی کوئی شناخت نہ رہے۔ ہمارے خلاف یہ سازشیں کوئی نئی نہیں ہیں،
بلکہ اس ملک کی آزادی سے بیسیوں سال قبل اس کی بنیاد پڑی تھی، جو آج اپنی
پوری قوت، پراگندہ ذہنیت اور مسلم و دلت دشمنی پر مبنی منفی افکار و خیالات
سے پُر ہر چہار طرف سے ہم پر حملہ آور ہے۔
آپ خود غور کریں کہ جب یہ ملک آزاد ہوا تھا، اس وقت پورے ملک کی شرح
خواندگی تقریباً اٹھارہ فیصد تھی, جو اب تقریباً پچہترفیصد تک پہنچ چکی ہے۔
آپ کو حیرت ہوگی کہ اس پورے علمی ترقی کے سفر میں ہندوستان کا مسلمان ہنوز
تمام اقلیتی برادریوں سےبہت پیچھے ہے، جب کہ ہندوؤں کی شرح خواندگی اپنی
آبادی کے تناسب سے ستر فیصد سے تجاوز کر چکی ہے۔ کیا یہ حیرت انگیزبات نہیں
ہے؟ کیا واقعی مسلمان تعلیم کو لے کر اس قدر بے حس ثابت ہوئے ہیں؟ یا پھر
اس کے پس پردہ کوئی اور وجہ تھی، جو اس قوم کو جاہل رکھنا چاہتی تھی؟
دراصل اس کے پس پردہ انہی فتنہ پرور جماعتوں کی کوششیں کارفرما تھیں، جو آج
آرایس ایس، بجرنگ دل، ہندو واہنی وغیرہ جیسے مختلف اسم و شکل میں باقاعدہ
منظم سازش کے تحت مسلمانوں کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ ان کا سب سے اہم ٹارگیٹ
یہ تھا کہ سب سے پہلے مسلمانوں کو معاشی طور پر بالکل بد حال کردیں، پھر یہ
خود زندگی کے دیگر شعبوں میں تنزلی کے شکار ہوتے چلے جائیں گے۔ یہ بات بھی
کسی حد تک درست ہے کہ انسان اپنی معاشرتی زندگی میں تعلیم سے پہلے معاش
کاغلام ہے اور جب معاش ہی تنزلی کا شکار ہو، یا اس کے معاش کے ذرائع کو ہی
برباد کردیاجائے، تو بھلا زندگی کے دیگر شعبوں میں وہ کب بازی مارسکتا ہے؟
لیکن اگر مسلمانوں کے خلاف یہ سازشیں نہ رچی گئی ہوتیں اور حکومتیں ان کے
ساتھ دوغلی سیاست روا نہ رکھتیں، تو یقیناً آج اس ملک کے مسلمان بھی دیگر
برادران وطن کے ساتھ زندگی کے تمام شعبوں میں اپنی برتری درج کراسکتے تھے،
مگر صد افسوس کہ آزادی کے بعد سے اب تک ہمارے انہی دونوں شعبوں پر سب سے
زیادہ حملہ کیا گیا، جس کی وجہ سے بہ تدریج ہم احساس کمتری کے شکار ہوتے
چلے گئے!
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جب انسان معاشی اور علمی اعتبار سے زوال کا شکار
ہوجاتا ہے، پھر بھی وہ اٹھنے کی کوشش کرتا ہے،مگر جب بار بار اس کے ہاتھ
صرف نامرادی اور شکست آتی ہے، تو وہ پھر اپنی اس شکست کو مقدر سمجھ کر اپنے
حال پرقناعت کرلیتااوراسی کے مطابق زندگی گزارنے کا عادی ہوجاتا ہے، یہیں
سے رفتہ رفتہ اس کے اندر ایک نامعلوم سا خوف، کم ہمتی، بزدلی، بے حسی و بے
بسی، بےچارگی و لاچارگی اور مظلومیت کااحساس پیداہوناشروع ہوجاتاہے۔ آپ اگر
آج کے دور کے ہندوستانی مسلمانوں کا عمومی جائزہ لیں،تو یہی محسوس ہوگا کہ
اس متنوع معاشرتی ملک میں مسلمان اپنی تعلیمی اور معاشی زبوں حالی محسوس
کرلینے کے بعد پورےملک میں کس قدر قابل رحم تصور کیے جانے لگے ہیں۔ جہاں
پورے ملک میں مسلمانوں کے جوش و جذبہ، حق گوئی و بے باکی، نفاست،اور علم و
ہنر کا چرچا تھا، آج انہی کو علامت ذلت اور سماج کے لیے کلنک سمجھا جانے
لگا ہے۔
یقیناً آپ نے بھی بارہا غور کیا ہوگا کہ جب کبھی ہم کسی حادثے کا شکار ہوتے
ہیں، یا فساد کے شکارہوتے ہیں یا چند درندہ صفت لوگ ہماری جانوں کے درپے
ہوجاتے ہیں، تو اس وقت ظالم کے سامنے ہماری خودسپردگی، بلکہ لاچارگی و بے
بسی بڑی قابل افسوس ہوتی ہے۔ ہم نے تاریخ کی کتابوں میں تاتاریوں کے ہاتھوں
مسلمانوں پر مظالم کی داستان خونچکاں پڑھی تھی اور اس وقت کےمسلمانوں کی
بےچارگی اور بے حسی کا بھی ذکر سنا تھا، کہ ان پر تاتاریوں کا اس قدر خوف
سوار تھا کہ وہ ان کے سامنے بالکل جامد و ساکت ہوجاتے اور خود کو ان کے ظلم
کے حوالے کر دیتے تھے۔ جب آج ہم ان فسادیوں کے سامنے ہندوستانی مسلمانوں کی
لاچارگی کو دیکھتے ہیں، تو وہی منظر آنکھوں کے سامنے دہرانے لگتا ہے۔ اس
وقت یہ بالکل یقین نہیں آتا تھاکہ کیسے ایک تاتاری کسی مسلمان کو روک کر یہ
کہتا تھا کہ تم رکو، میں اندر سے تلوار لے کر آتا ہوں، پھر وہ اس کا سرقلم
کردیتا تھا۔ آج جب ہم اپنےبعض بھائیوں کی لاچارگی کو دیکھتے ہیں، تو ان پر
یقین کرنا پڑجاتا ہے، آج بھی ایک ظالم: جس کی جسمانی ساخت خود اس کی حالت
زار پر نوحہ کناں ہو، اسی طرح ایک چھوٹی عمر کا لڑکا بھی، ہاتھ میں بلا اور
وکٹ لیے ہوئے آتا ہے اور ہم پر برساتا چلاجاتاہے، ہم زخمی ہوجاتے ہیں،
ہمارے ہاتھ پیڑ توڑ دیے جاتے ہیں، بدن سے خون رستا ہوا زمین کو لالہ زار
بناجاتا ہے۔ کبھی ہم اس زخم کی تاب نہ لاکر اس دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں،
اور کبھی ہم زندگی کی بازی جیت جاتے ہیں، مگر ہم میں اتنی جرات نہیں ہوتی
کہ ہم بھی اس ظالم پر پلٹ کر وار کریں۔
دہلی کے حالیہ لرزہ خیز فساد کے بعد ہندوتوا غنڈوں کے ظلم و ستم کی جو
تصاویر اور ویڈوز سوشل میڈیا کے ذریعے سامنے آئی ہیں،قطع نظر اس سے کہ وہ
کس قدر خوف ناک اور دل دہلا دینے والی تھیں، جو چیز قابل توجہ تھی وہ
مشترکہ طور پر ظالموں کےسامنے مسلمانوں کی خودسپردگی، بے چارگی اور مظلومیت
تھی۔ ہرچند کہ دہشت گردوں نے مسلم گلیوں کا ہر طرف سے محاصرہ کرلیا تھا،
مگر جب وہ ایک ایک کرکے مسلم گھروں میں گھس رہے تھے، تو کیا وہاں کوئی بھی
ایسا نہیں تھا، جو ان ظالموں کے ظلم کامقابلہ کرسکتا؟ اس کے برعکس وہیں یہ
بھی دیکھنے کو ملا کہ اگر کہیں کوئی فسادی دہشت گرد ہاتھ آ گیا، تو بڑے مزے
سے اس کی ویڈیو شوٹ کر رہے ہیں، اور اس کو انسانیت کا درس دے کر پوری عزت و
شرافت کے ساتھ وداع کر رہے ہیں، بلکہ بار بار اس سے یہ کہلواتے ہیں کہ بولو
تمہیں کہیں چوٹ تو نہیں آئی۔ میری نظر میں یہ بز دلی، خود فریبی، احساس
کمتری اور بیوقوفانہ عمل ہے۔ ممکن ہے بہت ساروں کو میری اس بات سے اتفاق نہ
ہو، تاہم جنگ کے میدان میں دشمنوں کے ساتھ دوستی نبھانااور ان کو انسانیت
کادرس دینادرحقیقت ان مظلوں کے ساتھ ظلم ہے، جنہوں نے اس لڑائی میں اپنا
مال و متاع سب کچھ گنوا دیا، اپنوں کو کھویا، اور اپنےبچوں اور عورتوں کو
زندہ نذرآتش ہونے دیا ہے؛ بلکہ یہ خود اپنے اوپر بھی ظلم ہے، کیوں کہ جن
فسادی دہشت گردوں نے چند لوہے کےٹکوں اور دو بوتل شراب کے بدلے کل دہلی کو
آگ میں جھونک دیا تھا، کیا کوئی یقین سے یہ کہہ سکتا ہے کہ آیندہ کبھی وہ
ایسی حرکت نہیں کرے گا؟ اس کے برعکس تاریخ شاہد ہے کہ ہمیشہ اس قسم کے
لوگوں نے سب زیادہ خوں ریزیاں مچائی ہیں۔ نیز ایسےماحول میں امن و یکجہتی،
اور انسانیت کا درس دینا بھی کوئی شرافت کی بات نہیں، بلکہ یہ خودفریبی
ہےاور اپنی کمتری اوردشمن سے مرعوبیت کی واضح دلیل ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ
مسلمانوں نے امن وامان کے ساتھ کبھی کھلواڑ نہیں کیا۔ اگر کہیں امن وسلامتی
اور یکجہتی کا وعدہ کیا، تو پوری طرح اس پر کاربند رہے، جب کہ کفار اور
منافقین کا ہمیشہ سے یہی وتیرہ رہاہےکہ انہوں نے امن و سلامتی اور یکجہتی
کے نام پر ہمیشہ مسلم بستیوں پر شب خون مارا اور سلطنتیں تاراج کیں۔ حیرت
کی بات یہ ہے کہ آزادی کے ان ستر سالوں میں آج تک ملک میں کسی فسادی مجرم
کو پھانسی نہیں ہوئی اورکوئی عمر قید نہیں ہوا، اس کے برعکس جن پر کوہ الم
ٹوٹا، وہی عدالت میں مجرم ٹھہرا اور آج تک وہ جرم ناکردہ کی سزائیں
بھگتنےپر مجبور ہے۔
ہم نے تمام سیاسی جماعتوں کو ایک ایک کرکے اچھی طرح آزما لیا، اور ہر ایک
کے رنگوں کو بھی دیکھ لیا۔ اب سبھوں کی پول کھل چکی ہے، سارے سیکولر سانپ
بل سے باہر آنے لگے ہیں، مگر ہر ظلم کی انتہا ہوتی ہے، ہر سازش سے آخر کار
نقاب اٹھ کر ہی رہتا ہے۔ بس شرط ہے یہ کہ مظلوم خود آگے بڑھ کر انصاف کا
علم تھام لے، اپنی روایات اور حق کے لیے میدان میں آئے،دشمن کے مکروفریب کا
انہی کے انداز میں جواب دے، اپنی بازآبادکاری کی جانب پیش رفت کرے،کفار مکہ
کے ظلم و ستم اورنبی علیہ السلام کی مدینہ منورہ کی جانب ہجرت، پھر قیام نو
کی ساری کوششوں میں مظلوم قوم کے لیے بڑی عبرت ہے۔ ورنہ ظلم سہنااور سہتے
رہنااپنی مظلومیت کو مقدر کا لکھا سمجھ کر اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند نہ
کرنااور ظلم کے خلاف تلوار نہ اٹھانا، نہ صرف قانون فطرت سے بغاوت ہے؛بلکہ
ظلم کو فروغ دینا بھی ہے۔
|