پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا

جیوتردیتیہ سندھیا کا استعفیٰ توقع کے عین مطابق ہے۔ یہ پیالہ کب چھلکے گا یہی ایک بات صیغۂ راز میں تھی سو وہ بھی افشاء ہوگئی ۔ عام تاثر تو یہی ہے کہ ’’یہ تو ہونا ہی تھا‘‘۔ جیوتر دتیہ سندھیا ان لوگوں میں سے ہیں جو حکومت کرنے کو اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں ۔ وہ جس وقت سیاست میں سرگرم ہوئے تومرکز میں کانگریس کی حکومت تھی۔ والد رکن پارلیمان اور مرکزی وزیر تھے آگے چل باپ کی وراثت بیٹے نے سنبھالی۔ ۔ ؁۲۰۱۴ میں کانگریس نے مرکزی اقتدار گنوا دیا لیکن جیوتردیتیہ اپنی نشست بچانے میں کامیاب ہوگئے ۔ راہل گاندھی کے قریبی جیوتردیتیہ کی یہ پہلی ناکامی مگرجزوی کا میابی تھی ۔ ان کی پھوپی وسندھرا راجے راجستھان کے اندر بی جے پی کی وزیر اعلیٰ تھیں ۔ خاندانی وقار کسی نہ کسی بہانے سے بحال تھا۔

اس کے بعد ؁۲۰۱۸ میں وسندھرا نے انتخاب ہار کر اقتدارگنوا دیا۔ یہ دوسرا جھٹکا تھا لیکن اسکے ساتھ کانگریس نے مدھیہ پردیش میں کامیابی حاصل کرلی تھی ۔ اس بات کا امکان روشن ہوگیا کہ راہل اپنے دوست جیوتردیتیہ کو وزیراعلیٰ بنا دیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ یہ تیسرا جھٹکا تھا اور یہیں سے تعلقات میں ایک دراڑ پڑ گئی لیکن بہت جلد قومی انتخاب ہونے والے تھے ۔ اس زمانے میں رافیل کو لے راہل گاندھی نےمودی جی پر ہلہّ بول دیا تھا۔ پورے ملک میں چوکیدار چور ہے کا نعرہ گونج رہا تھا ۔اس وقت جیوتر دیتیہ جیسے لوگوں نے امید وابستہ کرلی ہوگی کہ اب اقتدار کی دیوی ان کے قدم چومنے والی ہے لیکن وہ خواب پلوامہ میں ٹوٹا اور بالا کوٹ میں ایسا چکنا چور ہوا کہ جیوتردیتیہ اپنی گوالیار کی پشتینی نشست بھی نہیں بچا سکے ۔ اس چوتھے جھٹکے نے امید کے سارے چراغ بجھا دیئے۔ آخری امید کانگریس کے ذریعہ راجیہ سبھا کی رکنیت تھی جب وہ بھی نہیں رہی تو وہی ہوا جو ہونا تھا ۔

بی جے پی والے اس بے چینی کو بھانپ کر ایک سال سے جیوتردیتیہ پر ڈورے ڈال رہے تھے ۔جیوتر دیتیہ سندھیا کے استعفیٰ میں ان کی دادی راج ماتا وجئے راجے سندھیا اور والد مادھوراو سندھیا کے سیاسی سفر کی جھلکیاں صاف نظر آتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ایک دائرہ مکمل ہوگیا ہے بلکہ تاریخ نے اپنے آپ کو دوہرا رہی ہے۔ آزادی کی جنگ میں جھانسی کی رانی کی مانند حصہ لینے سے گریز کرنے والے سندھیا خاندان نے جمہوری نظام میں وجئے راجے سندھیا کے ساتھ قدم رکھا۔ اس سفر کی داستان ’راج پتھ سے لوک پتھ ‘ نامی سوانح میں درج ہے۔وجئے راجے نےپہلے دو انتخابات میں گونا اور گوالیار سے کانگریس کے ٹکٹ پر کامیابی حاصل کی ۔ اس کے بعد ؁۱۹۶۷ میں انہوں نے کانگریس کو خیرباد کہہ کر سوتنتر پارٹی کے ٹکٹ پر انتخاب جیتا۔

وجئے راجے سندھیا کے کانگریس سے اختلاف کی وجہ نظریاتی یا اصولی نہیں بلکہ ذاتی انا تھی۔ اس وقت کے کانگریسی وزیراعلیٰ ڈی پی مشرا سے ان کا طلباء تحریک پر گولی باری کو لے کر اختلاف رائے ہوگیا ۔اس پر مشرا نے پنچ مڈھی اجلاس میں راج ماتا کو ۱۵ منٹ انتظار کرکے ان کی انا کو ٹھیس پہنچا دی۔ اس طرح وہ آگ بگولہ ہوکر پارٹی سے نکل گئیں۔ الیکشن کے بعد و جئے راجے ۳۶ کانگریسی ارکان اسمبلی کو پارٹی سے الگ کرنے میں کامیاب ہوگئیں ۔ اس طرح مدھیہ پردیش میں پہلی بار گووند نارائن سنگھ نامی غیر کانگریسی وزیر اعلیٰ کی حلف برداری کروا دی۔ اپنی دادی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے پھر ایک باران کے پوتےنے کانگریس کو اقتدار سے محروم کردیا۔

وجئے راجے سوتنتر پارٹی میں زیادہ دن نہیں رہ سکیں اس لیے کہ اس کا مستقبل بہت تاریک تھا۔ اپنا سیاسی مستقبل روشن کرنے کے لیے انہوں نے جن سنگھ کا دیا اپنے گھر میں جلا لیا۔ ؁۱۹۷۱میں وجئے راجے سندھیا نے جن سنگھ کے ٹکٹ پر صوبائی الیکشن لڑا لیکن اسی سال وہ بھنڈ سے پارلیمانی انتخاب میں بھی کامیاب ہوگئیں۔ راج ماتا نے اپنا رسوخ استعمال کرکے بیٹے مادھو راو سندھیا کو گونا اور اٹل بہاری واجپائی کو گوالیار سے کامیاب کرایا۔ وجئے راجے کو بی جے پی نے اندرا گاندھی کے سامنے رائے بریلی سے لڑایا لیکن وہ جیت نہیں سکیں ۔ ؁۱۹۸۹ سے لے کر ؁۱۹۹۸ تک وجئے راجے سندھیا نے گونا سے چار مرتبہ اپنی کامیابی درج کرائی۔ اس طرح یہ کہا جاسکتا ہے اپنی سابقہ سلطنت کے علاقہ میں انہیں کبھی بھی ناکامی کا منہ نہیں دیکھنا پڑا۔جیوتردیتیہ کے اضطراب کی یہی بنیادی وجہ ہے۔ اٹل جی کے اقتدار میں آنے سے قبل وجئے راجے سیاست سے کنارہ کش ہوچکی تھیں اس لیے وزیر نہیں بن سکیں۔
جیوتردیتیہ کے والد مادھو راو کا سیاسی سفرکانگریس سے نہیں بلکہ جن سنگھ سے شروع ہوا۔ ؁۱۹۷۱ میں وہ جن سنگھ کے ٹکٹ پر انتخاب لڑا اور کامیاب ہوئے۔ ۲۶ سال کی عمر میں کامیاب ہونے والے مادھو راو نے ۹ مرتبہ انتخاب لڑا اور ہر بار کامیاب ہوئے۔ اپنی والدہ کے ساتھ جائیدادیتنازع کے بعد مادھو راو؁۱۹۷۷ میں آزاد امیدوار طور پر الیکشن لڑ کر کامیابی درج کرائی اور ؁۱۹۸۰ کے اندر کانگریس میں آگئے۔ یعنی وجئے راجے نے جہاں سے سفر شروع کیا تھا وہ وہاں پر ان کا بیٹا مادھو راو لوٹ آیا۔ ؁۱۹۸۴ میں انہیں کانگریس کے ٹکٹ پر اٹل بہاری واجپائی کو شکست دینے کا اعزاز حاصل ہوا۔ ؁۱۹۹۶ انہوں نے کانگریس سے بغاوت کرکے مدھیہ پردیش وکاس پارٹی بنائی لیکن پھر سے کانگریس میں لوٹ آئے۔

جیوتردیرتیہ کے والد اور دادی کے سیاسی زندگی پر ایک نظر ڈالی جائے تو یہ بات ظاہر ہے کہ ان کا کسی جماعت سے کوئی نظریاتی تعلق نہیں رہا ۔ راج ماتا نے تین مختلف نظریات کی حامل کانگریس ، سوتنترا اور بی جے پی میں قیام کیا ۔ اسی طرح مادھوراو بھی جن سنگھ سے نکل کر کانگریس میں آئے اور اپنی علاقائی جماعت بناکر پھر اس کو ختم بھی کردیا۔ جیوتردیتیہ کو اس سے پہلے اس کی ضرورت پیش نہیں آئی تھی ، اب آئی ہے تو انہوں نے بھی اپنی خاندانی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے موقع کا فائدہ اٹھایا۔ ان کو اگر مدھیہ پردیش کا وزیراعلیٰ بنادیا جاتا تو شاید وہ ایسا نہین کرتے لیکن کانگریس کا ان پراپنے دکھ سکھ کے ساتھی کمل ناتھ کو ترجیح دی۔ جیوتردیتیہ کی اس ابن الوقتی کے مظاہرے نے ثابت کردیا کہ کانگریس کا فیصلہ درست تھا۔

کانگریس کو زک پہنچانے کے لیے بی جے پی نے انہیں پارٹی میں تو لے لیا ہے لیکن اگر ایوانِ بالا کا رکن بناکر مرکز میں وزارت نہیں دی گئی تو وہ زیادہ دن اس پارٹی میں نہیں رہ سکیں گے ۔ ان کو وزارت اعلیٰ بنانے کی صورت میں بی جے پی کے شیوراج چوہان وغیرہ کا ردعمل بھی اہمیت کا حامل ہوگا۔ خیر جیوتردیتیہ کو اپنی پارٹی میں شامل کرکے بی جے پی نے پھر ایک بار یہ ثابت کردیا ہے کہ اس کے نزدیک نظریہ، وفاداری اور وراثت کی سیاست کسی اہمیت کے حامل نہیں ہے۔ یہ سارے نعرے صرف مخافین کو بدنام کرنے اور عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے لگائے جاتے ہیں ۔ اصل چیز اقتدار کا حصول ہے اور باقی چیزیں ثانوی حیثیت رکھتی ہیں۔ جیوتردیتیہ کب تک کمل کے نشان کو تھامے رہیں گے اور کب کمل ناتھ کا ہاتھ تھام لیں گے یہ کوئی نہیں جانتا؟

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1452675 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.