اس سال مادھو راو سندھیا کی ۷۵ ویں سالگرہ ہولی کے دن پڑی
اور اسی روز جیوتر دیتیہ نے نہایت مہذب انداز میں کانگریس پارٹی سے کنارہ
کشی اختیار کر کے اپنے آنجہانی پتاشری کو خراج عقیدت پیش کیا اور دادی
اماں کی روح کو خوش کردیا۔ اس استعفیٰ سے ممکن ہے کمل ناتھ نے عافیت کی
سانس لی ہو کہ چلو پارٹی کے اندر کا ایک بڑ اخطرہ ٹل گیا لیکن آنکھ میچ کر
دودھ پینے والی سے بلی ّ کی مانند وہ اپنی سرکار کو باہر سے لاحق زبردست
خطرے سے غافل ہیں ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ مہاراشٹر کی سیاست میں شرد پوار
ایک چمتکار کرچکے ہیں لیکن اب سوال یہ ہے کہ کیا کمل ناتھ اور دگوجئے سنگھ
اسے دوہرا سکیں گے؟ مہاراشٹر میں سیاسی اتھل پتھل کے دوران بی جے پی خاصی
بے فکر تھی ۔ اس کے ارکان اسمبلی آزاد گھوم رہے تھے جبکہ کانگریس ، این سی
پی کے ارکان کوپہلے تو ممبئی سے باہر سیر کے لیے بھیج دیا گیا اور اجیت
پوار کی حلف برداری کے بعد شیوسینکوں کے ساتھ ایک پانچ ستارہ ہوٹل میں مقید
کردیا گیا تھا۔
اس صورتحال کے برعکس ایم پی میں بی جے پی خاصی محتاط چل رہی ہے۔ اس نے اپنے
ارکان اسمبلی کو بنا کچھ بتائے پہلے تو اپنے بھوپال کے دفتر میں دھوکے سے
بلایا اور پھر وہاں سے گھر جانے کی اجازت تک نہیں دی بلکہ سیدھے راجہ بھوج
ہوائی اڈہ لے جاکر دہلی بھیج دیا۔ نگرانی کے پیش نظرانہیں ۸ ، ۸ کے گروہ
میں منقسم کرکےگروگرام، مانیسر اور دہلی کے ہوٹلوں میںگویا یرغمال بنا لیا
گیا ۔ کانگریس کا معاملہ بھی مختلف نہیں ہے۔ وہ بھی اپنے وفادار ارکان
اسمبلی سمیت حامی آزاد اسمبلی ممبر کو بس میں بیٹھا کر جے پور لے گئی ۔
مرکزی اقتدار میں ہونے اور نہ ہونے میں یہی فرق ہے کہ ایک بس میں زمین پر
ایڑیاں رگڑتا ہے اور دوسرا ہوا میں اڑتا ہے۔ کانگریس کے باغی امیدواروں کی
بڑی چاندی ہےوہ بنگلورو کی سب سے مہنگی تفریح گاہ میں عیش کر رہے ہیں ۔ اس
لیے کہ فی زمانہ سیاست کی تجوری کے اندر یہی غدارِ جماعت سب سے قیمتی
سرمایہ ہیں ۔
جمہوری نظام کے چہرے پریہ بدنما داغ گواہی دیتا ہے کہ یہاں کوئی کسی پر
اعتماد نہیں کرتا ۔ سارے اپنے پرائے ایک دوسرے کے دشمن ہیں ۔ فی الحال
مدھیہ پر دیش کے ارکان اسمبلی کو تین گروہوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
کانگریس اور بی جے پی والے وہ لوگ جو اپنی اپنی پارٹی میں موجود ہیں ۔ ان
کے تعلق سے رہنماوں کو فکر مند نہیں ہونا چاہیے تھا لیکن کون کب بک جائے یہ
کہا نہیں جاسکتا اس لیے کہ سیاست کے بازار میں سب بکاؤ مال ہے۔ کانگریس کے
۲۲ تو خیر بک ہی چکے لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ مرکزی حکومت کے باوجود دبنگ
سمجھی جانے والی بی جے پی بھی خطرہ محسوس کررہی ہے ۔ اس کے دورا ارکان
اسمبلی کمل دھاری نارائن ترپاٹھی اور شرد کول لاپتہ ہیں۔ کمل ناتھ کے ساتھ
ان کے تعلقات جگ ظاہر ہیں بلکہ وہ ایوان میں اپنی پارٹی کے خلاف ووٹ بھی دے
چکے ہیں اس کے باوجود بی جے پی نے مجبوری کے تحت اس بد نظمی کو برداشت
کرلیا اس لیے کہ موجودہ صورتحال میں مدھیہ پردیش کے اندر ہر رکن اسمبلی
اہمیت کا حامل ہے۔
مدھیہ پردیش کے اندر کانگریس کے باغی امیدواروں کی دوقسمیں ہیں ۔ ایک تو وہ
جو کمل ناتھ کے ساتھ ہیں اور دوسرے جن لوگوں نے جیوتردیتیہ کی حمایت میں
پارٹی سے بغاوت کردی ہے لیکن اس دوسری قسم کے اندر بھی دو دھڑے ہیں ۔ ایک
تو وہ جو مہاراجہ کے پیچھے بی جے پی تو کیا اندھے کنوئیں میں بھی کودنے کے
لیے تیار ہیں ۔ اس کا برملا اعتراف بی جے پی کی خاتون رکن اسمبلی امرتی
دیوی نے کہا ہے اور دوسرے جن کو اس بات کا اندیشہ ہے کہ وہ دوبارہ کمل کے
نشان پر انتخاب نہیں جیت سکیں گے اس لیے انہیں بی جے پی میں جانا گوارہ
نہیں ہے۔ وہ کمل ناتھ سے ناراض تو ہیں مگر کمل کے نشان سے راضی نہیں ہیں ۔
ان کو امید رہی ہوگی کہ جیوتردیتیہ بی جے پی کی حمایت سے کرناٹک کے کمار
سوامی یا بہار کے نتیش کمار کی طرح وزیر اعلیٰ بن جائیں گے اور اس بغاوت کے
عوض انہیں وزارت سے نوا زہ جائے گا لیکن افسوس کہ جیوتردیتیہ نے مرکزی
وزارت کے بدلے اپنے حامیوں کی ارمانوں کو بھینٹ چڑھا دیا ۔ ویسے دھوکہ دھڑی
اور ابن الوقتی کی اس سیاست میں اگر یہ نہیں ہوگا تو کیا ہوگا؟
اس ناٹک کا ایک خطرناک پہلو اقتدار کو محفوظ رکھنے کی خاطر کیا جانے والا
بے دریغ خرچ ہے۔ ایک ایسا صوبہ جہاں رائے دہندگان کی اوسط آمدنی ۸ ہزار سے
کم ہے یہ لوگ ۱۴ ہزار ، ۱۸ ہزار اور ۵۰ ہزار یومیہ کے کمروں میں رہائش
پذیرہیں ۔اس کے علاوہ کھانے پینے اور سفر کا خرچ اضافی ہے۔ کیا اس غریب ملک
کی دولت عوامی فلاح و بہبود کے بجائے اس طرح کے فضول خرچی کی نذر ہو تی ر
ہے گی ۔ آزادی کے ۷۰ سال بعد بھی یہ جمہوری نمائندے جیوتردتیہ کو مہاراج
کہہ کر مخاطب کرتے ہیں اور ان کے پیچھے آنکھیں موند کر کنویں میں کود جا
نے کو اپنی سعادت سمجھتے ہیں ۔ کیا جمہوریت کا اتنا بھیانک چہرہ دنیا کے
کسی اور حصے میں موجود ہوگا؟ کیا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اس بات کا علم
ہے ؟ اور اگر ہاں تو ان کا ہندوستانی جمہوریت کا کشادہ دلی سے تعریف کرنا
بھی منافقت اور موقع پرستی ہے؟ اور وہ بھی ہندوستانی سیاستدانوں کی طرح اول
درجہ کے ابن الوقت ہیں ؟
جیوتر دیتیہ استعفیٰ دینے سے قبل صبح دس بجے اپنے گھر سے نکلے اور ۱۱ بجے
امیت شاہ کے ساتھ وزیراعظم کے دربار میں پہنچے۔ وہاں سے فارغ ہونے کے پندرہ
منٹ بعد انہوں نے کانگریس پارٹی کی بنیادی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا۔ خیال
رہے کہ نائب وزیر اعلیٰ کی حلف برداری کے باوجود اجیت پوار یہ جرأت نہیں
کرسکےتھے جو جیوتردیتیہ نے راجیہ سبھا کا ٹکٹ ملنے سے قبل کردی ۔ کمبھ کرن
کی نیند سونے والی کانگریس نے بیس منٹ بعد ان کو پارٹی سے نکال دیا جو ایک
بے معنی اقدام تھا۔ نامہ نگاروں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے جیوتر دیتیہ
بولے کہ مجھے جو کہنا تھا میں نے استعفیٰ میں کہہ دیا ہے اور ہولی کی
مبارکباد دے کر رفو چکر ہوگئے۔ اس سے متعلقہ خبر وں پر دس لاکھ سے زیادہ
ٹویٹ کیے گئے جو اس کی غیر معمولی مقبولیت کا ثبوت ہے۔
بی جے پی میں حالیہ آپریشن کمل کے سپہ سالار نروتم مشر بتائے جاتے ہیں ۔
پچھلے دنوں ان کی ایک خفیہ ویڈیو بھی منظر عام پر آئی تھی جس میں وہ سرکار
گرانے اور خریدو فروخت کی بات کرتے ہوئے نظر آئے تھے۔ اب ان کی آرزو مندی
میں بھی بے شمار اضافہ ہوگیا ہے اور وہ شیوراج چوہان کے مقابلے ایک طاقتور
دعویدار کے طور پر ابھرے ہیں ۔ اس کا ایک ثبوت تو یہ ہے کہ جیوتردیتیہ کے
استقبال میں بھوپال کے اندر روڈ شو سے قبل جو پوسٹر لگے ان میں سے زیادہ تر
میں ایک طرف بڑی تصویر جیوتر دیتیہ کی تھی اور دوسری جانب مشرا جی تھے ۔
درمیان میں کچھ ٹٹ پونجیہ نیتا لیکن شیوراج سنگھ کا نام و نشان نہیں تھا ۔
بی جے پی کی روایت کے خلاف ان پوسٹرس پر مودی جی کا ’ہنستا ہوا نورانی
چہرہ‘ بھی کہیں دکھائی نہیں دیتا تھا۔ اس میں کسی شک شبہ کی گنجائش نہیں کہ
یہ پوسٹر مشرا جی نے لگوائے ہوں گے اس لیے کہ آج کل کی سیاست داں اپنے خرچ
سے ہار منگوا کر خود کو پہنواتے ہیں۔
شیوراج چوہان کے نام نہاد حامیوں نے بھی بھوپال میں پوسٹر تو لگائے لیکن ان
کی تعداد بہت کم تھی ۔ جیوتردیتیہ نے اپنی ذات برادری کا خیال کرتے ہوئے
براہمن مشرا کے بجائے راجپوت چوہان کی خوب تعریف کی۔ وزارت اعلیٰ کے عہدے
کی خاطر چھڑی اس سرد جنگ کا فائدہ ایک معتدل امیدوار اور مرکزی وزیر نریندر
سنگھ تو مر کو بھی ہوسکتا ہے جن کے گھر پر جیوتردیتیہ کو سمجھانے منانے کی
کوشش کی جاتی رہی ہے۔ وزارت اعلیٰ کا کمل تو ان تینوں میں سے کسی ایک کے
حصے میں ہی آسکتا ہے لیکن بعید نہیں کہ بی جے پی اپنی اترپردیش کی غلطی کو
دوہرا ئے۔ یوپی میں جس طرح راجناتھ سنگھ نریندر مودی کو خاطر میں نہیں لاتے
تھے اسی طرح شیوراج سنگھ بھی مودی جی کو گھاس نہیں ڈالتے تھے بلکہ وہ
اڈوانی خیمے کے آدمی سمجھے جاتے تھے۔ اس لیے یہ ہوسکتا ہے کہ جیسے راجناتھ
سنگھ کے سیاسی اثرات کو زائل کرنے کے لیے یوگی ادیتیہ ناتھ کو لایا گیا اسی
طرح شیوراج چوہان کو بے اثر کرنے کی خاطر پر گیا ٹھاکر کو وزیر اعلیٰ بنا
دیا جائے۔ ایک ایسی سیاسی بساط پر جہاں انفرادی فائدے کو قومی یا عوامی
مفاد پر فوقیت حاصل ہو کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ اس لیے مدھیہ پردیش کے اندر
آئندہ چند دنوں میں کیا ہوگا یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کیونکہ بقول غالب ؎
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا
|