امریکا نے طالبان سے افغان امن معاہدے کے تحت افغانستان
سے فوج کا انخلاء شروع کردیاہے جس کامقصد ملک میں امن قائم کرناہے۔امریکانے
معاہدے کے تحت135دن کے اندرافغانستان میں اپنی فوج کو12 ہزارسے کم
کرکے8600کرنے پر اتفاق کیاتھا۔افغانستان سے امریکی فوجیوں کوواپس
بھیجناامریکااورطالبان کے درمیان 29 فروری کوہونے والے تاریخی امن معاہدے
کی ایک شرط تھی۔افغان حکومت نے اس معاہدے میں حصہ نہیں لیاتاہم یہ توقع ہے
کہ وہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کرے گی۔اشرف غنی نے ابتدامیں کہاتھاکہ وہ
طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کی شرط کے طورپرطالبان قیدیوں کورہاکرنے
کے معاہدے پرعمل نہیں کریں گے لیکن افغان اشرف غنی نے 9مارچ ک دوسری مدت
کیلئےصدر کے عہد کا حلف اٹھاتے ہی ایک ہزارطالبان قیدیوں کی رہائی کاعندیہ
دیا ہے
گذشتہ ہفتےہلمند میں افغان فورسزپرطالبان کے حملے کے جواب میں امریکی فضائی
حملہ کے بعد امن معاہدہ ٹوٹتادکھائی دیا تھا۔ طالبان نے جنگی کاروائیوں میں
کمی کامطالبہ کیاتھاجس کے جواب میں افغانستان میں امریکی افواج کے ترجمان
کرنل سونی لیگٹ نے امریکی فوجیوں کے انخلا کے پہلے مرحلے کااعلان کیا۔ کرنل
لیگٹ نے ایک بیان میں کہا کہ امریکانے فوجیوں کی واپسی کے باوجود افغانستان
میں اپنے تمام مقاصد کے حصول کیلئےتمام فوجی وسائل اورحکام کوبرقراررکھاہے
۔ امریکااور اس کے نیٹواتحادیوں نےطالبان کی جانب سے معاہدے کوبرقراررکھنے
کی صورت میں 14ماہ کے اندرتمام فوج واپس بلانے پراتفاق کیاہے۔اس معاہدے کے
تحت طالبان نے حملوں سے گریزکے ساتھ ساتھ القاعدہ یاکسی اورشدت پسند گروہ
کو اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں آپریشن کرنے کی اجازت نہ دینے پراتفاق
کیاہے۔یادرہے کہ اس جنگ میں امریکی فوجی افسران کے بیانات پرمشتمل
دستاویزات میں انکشاف کیاگیاہے کہ افغان جنگ کی لاگت اورعسکری حکام کی
ہلاکتوں سمیت دیگر حقائق عوام سے چھپائے گئے ہیں۔امریکا کے
معتبراخبارواشنگٹن پوسٹ کے مطابق 2ہزارصفحات پرمشتمل خفیہ دستاویزات میں
امریکی فوجی افسروں اور اہلکاروں کے انٹرویوز شامل ہیں۔
دستاویزات میں انکشاف کیاگیا کہ افغان جنگ پرایک ٹریلین امریکی ڈالر خرچ
ہوئے،خواتین سمیت 2400 فوجی ہلاک اور20 ہزار سے زائد زخمی ہوئے ۔ اخبار نے
معلومات سرکاری ادارے اسپیشل انسپکٹرجنرل فارافغانستان ری کنسٹرکشن سے حاصل
کی ہیں اور تمام معلومات ویت نام جنگ کے بارے میں پینٹاگان کی دستاویزات سے
ملتی جلتی ہیں۔امریکاکے ریٹائرڈ نیوی افسرجیفری ایگرزکے مطابق اسامہ اپنی
قبرمیں ہنس رہاہوگاکہ ہم نے اس شکست پرکتنا پیسہ خرچ کرڈالا۔انسداد
دہشتگردی کے ماہرکرنل باب کراؤلی کے مطابق امریکی حکومت جنگ کی بہترین
تصویردکھانے کیلئےہرچیزکاڈیٹاتبدیل کردیتی تھی اورہمارے سروے بھی مکمل غلط
ہوتے تھے۔دستاویزکے مطابق افغانستان میں امریکی فوج اپنے اصل دشمن سے ہی
مکمل آگاہ نہیں تھی،کمانڈروں کویہ نہیں بتایاجاتاتھاکہ ہمارے دشمن طالبان
ہیں،القاعدہ ہے یاداعش۔افغانستان میں بھیجےجانے والے امریکی فوجیوں کویہ
بھی علم نہیں ہوتاتھاکہ یہ غیرملکی جنگجو ہیں یاسی آئی اے کے پے رول پرکام
کرنے والے جنگجوسردارہیں۔امریکاکیلئےاچھے طالبان کون اوربرے کون ہیں اوروہ
کہاں رہتے ہیں۔ یہ معلومات ایسے موقع پرسامنے آئیں جب امریکاطالبان کے
ساتھ دوحہ میں مذاکرات کررہاتھا۔
امریکی وزارت دفاع کے مطابق افغانستان میں اکتوبر2001سے مارچ2019تک عسکری
اخراجات760ارب ڈالرتھے جنگی اخراجات کے حوالے سے براؤن یونیورسٹی نےایک
تحقیق شائع کی کہ وزارت دفاع نے اس رقم میں سابقہ فوجیوں کودیے جانے والے
اخراجات،جنگ سے متعلق دیگر ڈیپارٹمنٹس کودی جانے والی امدادکوجنگ کیلئےلیے
گئے قرض پرادا کیاگیا سودشامل نہیں کیا۔اضافی عوامل کوملاکراخراجات ایک
کھرب کے قریب بنتے ہیں۔
کوئی امریکاروس اوران کے اتحادیوں سے پو چھے کہ سات سمندرپارسے ہزاروں میل
کی مسافت طے کرکےکبھی مشرق وسطیٰ کبھی خلیج کی ریاستوں کبھی جنوبی
ایشیااورسینٹرل ایشیامیں لاؤلشکراورسازشیں لیکرکیوں نازل ہوتے ہیں۔اس
کاجواب یہ ہے کہ یہ قوتیں موت فروخت کرنے اورزندگی خریدنے آتی ہیں۔ان کی اس
خواہش میں مہم جوئی توسیع پسندی مجرمانہ کاروبارطاقت کا بیجااستعمال
اورمذہبی جنونیت کاعنصربھی شامل ہے اگران قوتوں کوانسان اورانسانیت امن
وآشتی سے الفت ہوتی،اگرانہیں غربت جہالت مفلسی بیماری سے نفرت ہوتی تویہ
دنیاجنت کانظارہ پیش کررہی ہوتی۔ان مقاصدکو پانے کیلئےجنگ وجدال،آگ وخون کے
سمندرسے دنیا کونہیں گزرناپڑتا،نہ گولہ بارودکی ضرورت ہوتی بس صرف
جیواورجینے دو،انسان اورانسانیت کے اعلیٰ اصولوں کی پاسداری
طاقتوراورکمزورکابرابری کی بنیادپراحترام بلاامتیازرنگ ونسل ومذہب ،باہمی
احترام کسی قوم کی آزادی اس کی سرحدوں کے تقدس کوتسلیم کرنابنیادی شرائط
ہیں۔ایک اہم پہلویہ بھی ہے کہ کسی کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ
کرنابہت ضروری ہے مگرموت کے سوداگراورزندگی کے خریداریہ نام نہادامن وآشتی
کے دعویدارجنہوں نے اپنے ملکوں کے چاروں طرف طویل اوردیوقامت حفاظتی
دیواریں اورفصیلیں بنارکھی ہیں،ان میں بسنے والے انسان بھی نظرآتے ہیں
اورانسانیت سے بھی واقف ہیں،آزادبھی ہیں اورگولہ بارودکے زہرسے محفوظ بھی۔
غریب بھوک و افلاس و بیماری کے مارے کمزورناتواں انسان اور ممالک بچارے
کیاان کی سرحدوں میں دراندازی کرسکیں گے۔یہ ملکہ توان شکارکی تلاش میں
محوپروازعقابوں کوحاصل ہے جو جہاں چاہیں حملہ آورہوجائیں اورانسان اور
انسانیت کے جسم سے بوٹی بوٹی نوچ لیں۔
خونی عقابوں کاٹولہ جوننگے بھوکے انسانوں کی لاش کوگولہ بارودمیں بھون
کرنوچنے والے دہشتگرد عقاب اپنے ہی ہاتھوں ستائے ہوئے انسانوں میں دہشتگرد
تلاش کرکے شکارکرنے پرآمادہ اوربضدہیں۔ان دہشتگرد عقابوں کے اپنے بھی کوئی
اصول نہیں ہیں اورشکارکی تلاش میں کبھی خودبھی دست و گریباں ہوتے رہے
ہیں۔1950ءمیں برطانیہ فرانس اورامریکانے ایک سہ فریقی معاہدہ کیاتھاجس کے
تحت مشرق وسطیٰ کی تمام سرحدوں کی سلامتی کی ضمانت اس شرط پردی گئی تھی کہ
کوئی فریق جارحیت کاارتکاب نہیں کرے گامگرحرص وہوس کے مارے مغرب کوکہاں
قرار۔6سال ہی اس معاہدے کوگزرے تھے کہ برطانیہ اورفرانس نے نہرسویزپرحملہ
کردیا،یہ ایک الگ داستان ہے۔سردست امریکااوراس کے موجودہ اتحادیوں کے تین
بنیادی مفادات زیرِقلم ہیں۔پہلامفادیہ ہے کہ خلیج کے ممالک سے جہاں سے
دنیاکی60فیصد تیل کی ضرورت پوری ہوتی ہے ان کے وسائل پر قبضہ کرکے اس علاقہ
میں ان کی اجارہ داری قائم ہو۔(اس دوڑمیں سوویت یونین بھی شامل
رہاہے)امریکی پالیسی کے تحت امریکا اسرائیل کی سلامتی کی ضمانت فراہم کرنے
کے علاوہ اس کی آزادی اوروجودکواس قدرمضبوط کرنا چاہتاہے کہ اسرائیل کے خوف
سے عرب ممالک پریشان اوردبے رہیں اوراس کی آڑ میں امریکی پالیسوں کوعربوں
پرمسلط کیا جاتارہاجبکہ دوسری حکمت عملی یہ ہے کہ بعض عرب ریاستیں جن میں
سعودی عرب،مصر،اردن اورخلیج کی دیگر بادشاہت اورحاکمیت پرمشتمل ریاستوں کے
اقدارکے تحفظ اوراسرائیلی خوف سے نجات دلانے کی یقین دہانی پرنام نہاددوستی
کے نام پرامریکانے ان کی معیشت اقتصادیات اوردفاعی شعبوں پراپنی اجارہ داری
قائم کرلی ہے،سلامتی کے خوف میں مبتلاسعودی عرب سمیت دیگر خلیجی ریاستوں
میں امریکی فوجیں موجود ہیں۔ایک طرف امریکی فوجوں اورساماں حرب کے اخراجات
ان ممالک کوبرداشت کرنے پڑرہے ہیں تودوسری طرف امریکی فوجوں کی ان ریاستوں
میں موجودگی اسرائیل کیلئےتحفظ اورسلامتی کا باعث ہیں۔
ایران میں انقلاب کے بعدامریکااپنے ایک معتمد سے محروم ہوگیا۔اس تبدیلی کے
باعث امریکانے سریع الحرکت فوج تیارکی جس کامقصدخلیج اورساری دنیامیں اپنے
مفادات کاتحفظ بذریعہ طاقت کرناتھا۔عراق،شام،لبنان امریکی تسلط سے آزادمگر
سوویت یونین کے زیراثرتھے۔ایران کوکھونے کے بعد امریکانے عراق کواپنے
حصارمیں لے لیاچونکہ ایران عراق میں سرحدی ودیگرایشوزپر شدیداوردیرینہ
اختلافات اورتنازعات تھے،امریکااس کافائدہ اٹھاکرایران کے انقلاب کوناکام
بنانے کیلئے دونوں میں تصادم کرانا چاہتاتھااوراسے اپنے مقصد میں کامیابی
حاصل ہوئی۔ 8سالہ عراق ایران جنگ نے دونوں ملکوں کوشدید جانی ومالی نقصانات
سے دوچارکیاجبکہ اسلحہ سازفیکٹریاں رکھنے والے امریکاسمیت دیگرممالک نے ان
دونوں ممالک کو 83بلین ڈالرکااسلحہ فروخت کیا۔
ایران کوبھی سرحدی تنازعات اوردیگردعوؤں کی تکمیل صدامی اقتدارکے خاتمے میں
نظرآئی۔جنگ کی بساط بچھائی گئی۔ خلیج کی ریاستوں کوعدم تعاون کاسگنل
دیاگیا،خلیج سے باہراسلامی ملکوں کوجنگ میں شرکت کی دعوت دی گئی یاغیر جانب
داررہنے کوکہاگیا۔مغربی اتحادیوں کے یہاں جنگ کاطبل بجایا گیا۔ریہرسل شروع
کردی گئی۔خلیجی ریاستوں کو اپنے تحفظ کے نام پراسلحہ خریدنے کاحکم
دیاگیا۔اس خلیجی جنگ کی وجہ سے امریکی دفاعی صنعتوں کو تقریباً290 بلین
ڈالرصر ف خلیجی ممالک کی طرف سے ملے تھے جس میں سعودی عرب نے تقریباً60بلین
ڈالرکااسلحہ امریکاسے خریدا۔
امریکی ایماء پراسرائیل عراق سے چھیڑ چھاڑاورفلسطینیوں پرمظالم کی رفتار
بڑھاچکاتھا۔ماسوائے دوتین ممالک کے تمام خلیجی ریاستیں عراق کے خلاف
امریکاکے پہلومیں کھڑی تھیں۔امریکی ایماءپرکردوں کی تحریک میں تیزی آچکی
تھی۔ امریکی خفیہ ایجنسیاں اورادارے فرقہ وارانہ صوبائیت لسانیت اور
علاقائیت کے سوئے ہوئے فتنے کوجگانے میں کامیاب ہوچکے تھے۔ عراقی تینوں
افواج میں نفاق کی سازشیں کامیاب ہوچکی تھیں،سیکولرازم اور اشتراکیت
کاپرچارکرنے والے صدام کاخیال تھاکہ وہ مختلف المذاہب اورفرقہ واریت
اورصوبائیت کے فتنے کوختم کرکے ایک عراقی قوم پرست عوام تیارکرچکے ہیں۔
اظہاررائے کی آزادی سے محروم عراقیوں کے اندرپکنے والالاواتب سامنے آیا جب
امریکاجوعراق پرایٹمی وکیمیائی ہتھیاروں کی موجودگی کا الزام لگاکراپنی
پوری قوت اورطاقت کے ساتھ عراق پرحملہ آورہوا،اورعراق کی اینٹ سے اینٹ
بجادی پوراعراق آگ وخون میں نہلادیاگیا۔ہزاروں عراقی بلاامتیازبوڑھے،جوان
بچے خواتین بے رحمی سے شہیدکر دئیے گئے،مقدس مقامات کونشانہ بنایاگیا ۔
مظالم کے ایسے خوفناک پہاڑ توڑے گئے کہ ساری دنیانے ابوغریب جیل میں
مسلمانوں کی غیرت کے جنازے نکلتے دیکھے۔
عراقی فرقہ واریت صوبائیت اورعلاقائیت کی بنیا دپرباہم متصادم ہوئے۔ عراقی
عوام یکجہتی برقرارنہ رکھ سکے اورعراق کی افواج نے صدام سے غداری کی۔تمام
جہاز،میزائل اورسامان حرب دھراکادھرارہ گیا۔امریکاکولتاڑنے پرصدام کوپھانسی
پرچڑھا دیاگیا۔تین دہائیوں کے بعدمصرمیں منتخب حکومت نے اپنی خودمختاری
کاجونہی احساس دلایافوری طورپراس کادھڑن تختہ کرکے اپنانمائندہ سامنے لے
آئے۔خلیجی ریاستوں کے بادشاہوں اورحکمرانوں کے اقتدارکواس وقت تک کوئی خطرہ
نہیں جب تک وہ امریکااورمغرب کے تابعدارہیں البتہ یمن کے مسئلے پرایران
اورعرب ممالک میں مستقل مخاصمت برقرار رکھی جائے گی۔ افغانستان سے امریکی
انخلاء کے بعداب اس خطے میں امریکی اوراسرائیلی مفادات کوقطعاًکوئی خطرہ
نہیں ہے ۔اب دیکھنایہ ہے کہ امریکااوراس کے اتحادیوں کااگلا ہدف کون ہے؟
|