’’کورونا‘‘ کا کچھ کرونا

کورونا کا آغاز چین سے ہوا اور چین سے ہوتا ہوا یہ 150سے زائد ممالک میں پھیل چکا ہے۔ اس کاوائرس کا خوف اتنا ہوگیا ہے کہ ہر ملک میں کورونا کا چرچا ہے۔ کورونا کی وجہ سے بہت سے ممالک میں لوگ اپنی زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔ کورونا فی الحال لا علاج مرض ہے ۔ آنے والے وقت میں اس کا علاج ممکن ہوسکتا ہے مگر لاعلاج ہونے کی وجہ سے دنیا بھر کے لوگوں میں کافی خوف وہراس پھیلا ہوا ہے۔

شام کو کچھ دوستوں سے ملاقات ہوئی تو ادھر بھی ساری گفتگو کورونا کے ٹاپک پرتھی ۔ میں نے دوستوں کو کہاکہ یار کوروناسے بچنا اب یہ پنجاب میں داخل ہورہا ہے تو ایک دوست نے جواب دیا ہم کیا کرسکتے ہیں جو کچھ کرنا ہے حکومت نے کرنا ہے ۔میں نے فوراً ان سے کہا کہ حکومت نے جو کرنا ہے وہ کریگی مگر ہمارا بھی فرض بنتا ہے کہ اس بیماری سے ہم خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں۔کورونا ایسا مرض نہیں جو ہمیں گھر میں بیٹھے بیٹھے لگ جائیگا اس سے بچنا بہت آسان ہے مگر تھوڑی سی احتیاط ضروری ہے۔دوستوں نے کہا یار اس کے متعلق تھوڑا سا ہمیں بھی بتائیں یہ کس بلا کا نام ہے؟ سنا تو یہ تھا کہ چین میں پایا جاتا ہے مگر اب پاکستان میں بھی اس کے اثرات پائے جارہے ہیں ؟

میں نے کہا کرونا ایک وائرس(بیماری) ہے ۔یہ وائرس ممالیہ جانوروں اور پرندوں میں مختلف معمولی اور غیر معمولی بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔ انسانوں میں سانس پھولنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ عموماً اس کے اثرات معمولی ہوتے ہیں لیکن بعض اوقات کسی غیر معمولی صورت حال میں مہلک بھی ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاج یا روک تھام کے لیے اب تک کوئی تصدیق شدہ علاج یا دوا دریافت نہیں ہو سکی ہے۔ کرونا وائرس کی عام علامات میں کھانسی، سانس پھولنا، سانس لینے میں دشواری)، الٹی، اسہال اور تھکاوٹ شامل ہیں۔ شدید انفیکشن نمونیہ، سانس نہ آنے یہاں تک کہ موت کا سبب بن سکتا ہے۔

ایک دوست نے کہا بھائی اس سے کیسے بچا جاسکتا ہے؟ کیونکہ آپ کہہ رہے ہو کہ ابھی اسکا علاج بھی دریافت نہیں ہوا ۔میں نے جواب دیا کہ اس سے بچنے کا فی الحال ایک ہی حل ہے اور وہ ہے احتیاط۔ تمام لوگ ان احتیاط پر عمل کرکے نہ صرف اپنے آپ کو بلکہ دوسروں کو بھی اس بیماری سے بچا سکتے ہیں۔ آپ خود ان ہدایات پر عمل کریں اور دوسروں کو بھی اس پر عمل کرنے کا بولیں تو انشا اﷲ ہم اس وبا ء سے بچ سکتے ہیں۔
٭اپنے منہ پر ماسک پہن کر رکھیں کیونکہ کورونا اتنا چھوٹا ہے کہ یہ ماسک سے نہیں نکل سکتا۔
٭ کورونا وائرس 10منٹ تک ہاتھوں میں زندہ رہتا ہے اور ہاتھوں ہاتھوں کو بار بار دھونے سے یہ مرجاتا ہے۔
٭کورونا وائرس کپڑے پر پڑے تو 9گھنٹے زندہ رہتا ہے ۔ کپڑے استری کرنے ، دھونے یا دھوپ میں رکھنے سے بھی مر جاتا ہے۔
٭گندے ہاتھوں سے ناک، آنکھ اور منہ کو چھونے سے گریز کرنا۔
٭متاثرہ افراد سے براہ راست اور ان کی استعمالی چیزوں سے دور رہنا۔
٭ کورونا سے بچنے کے لیے ٹھنڈی اشیاء اور آئسکریم وغیرہ سے پرہیز کریں۔
٭ کورونا سے بچنے کے لیے رش والی جگہ پر نہ جائیں۔

کورونا سے کی وجہ سے پورے ملک کے تعلیمی ادارے بند کیا جا چکے ہیں۔ مدرسے ، میرج ہال سمیت سیاسی و مذہبی اجتماع پر بھی پابندی عائد کردی گئی ہے۔ حتٰی کہ دفعہ 144 بھی نافذ کردی گئی ہے۔ پاکستان میں ہی نہیں سعودی عرب میں تو عمرہ اور طوفٰ پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔کورونا نے پوری دنیا میں ہلچل مچادی ہے ۔مسلمان ہونے کے ناطے میں تو اس کو بھی اپنے رب کی طر ف سے ایک امتحان سمجھتا ہوں کیونکہ دنیا میں جو کچھ ہورہا ہے اور مستقبل میں ہوگا وہ میرے رب کی مرضی سے ہوگا۔ جب میں نے یہ سنا کہ کورونا وائرس سے بچنے کے لیے ہاتھ دھو ، منہ ناک میں پانی ڈالواور اپنا چہرہ دھو تو میرے ذہن میں فوراً یہ آیت آئی’’ فبای الاء ربکما تکذبان ‘‘کیونکہ مسلمان جب نماز پڑھتا ہے تویہ سب کچھ کرتا ہے اورایک بار نہیں دن میں پانچ مرتبہ کرتا ہے۔سننے میں آیا ہے کہ چین میں کچھ لوگوں نے نماز شروع کردی ہے۔

جو لوگ حکومت سے یہ کہتے ہیں کہ’’ کورونا‘‘ کا کچھ کرو نا تو میں ان کے ساتھ ہوں کیونکہ حکومت نے احتیاطی اقدامات جو عوام کو کرنے کا حکم دیا اس پر تو سختی سے عمل درآمد کرایا جارہا ہے مگر عملی اقدامات جو حکومت کے کرنے کے ہیں وہ بھی کریں نا۔کورونا کے روک تھام کے سپیشل ماسک تو دور کی بات سادہ ماسک بھی مارکیٹ سے نایاب ہوگئے ہیں۔ ہاتھ دھونے کے لیے سینٹائزر پہلے نمبر پر تو مل نہیں رہے اور اگر مل رہے ہیں تو ڈبل ٹرپل قیمت پر مل رہے ہیں جو غریب کی پہنچ میں نہیں۔ حکومت کا بڑے شہروں میں نہیں بلکہ دیہی علاقوں میں کورونا وائرس چیک کرنے کی کٹ مہیا کرنافرض بنتا ہے۔ زندگی غریب کی بھی اتنی قیمتی جتنی امیر کی ۔ حکومت کو کورونا وائرس ٹیسٹ کے لیے بنیادی مرکز صحت میں بھی اقدام کرنا ہونگے۔

کورونا وائرس چاہیے کسی ملک نے چھوڑاہے یا یہ وباء پھیلی ہے مگر یہ ہم سب کا اﷲ کی طر ف سے امتحان ہے کیونکہ ہم لوگ اﷲ کی طرف سے غافل ہوتے جا رہے تھے۔ جہاں خواتین نے پردہ کرنا چھوڑا تھا اب وہاں خواتین تو ایک طرف مرد حضرات بھی منہ ڈھانپ کر گھوم رہے ہیں۔ مجھے ایک دوست کی یہ بات بہت پسند آئی کہ جب ہمارے مسلمان خواتین وحضرات ہاف بازو کے کپڑے پہننے لگے تھے تو اﷲ تعالیٰ نے ڈینگی بھیج دیاجس کے خوف سے سب لوگوں نے مکمل لباس پہننا شروع کردیا تھا اور اب جب پردہ ختم ہوتا جارہا تھا تو اب’’ کورونا‘‘آگیا جس نے سب مرد وحضرات کو نقاب پہنا دیا۔
میں تو یہی دعا کروں گا کہ اﷲ ہمارے ملک کو اس بیماری سے نجا ت دلائے۔ آمین

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Aqeel Khan
About the Author: Aqeel Khan Read More Articles by Aqeel Khan: 283 Articles with 210892 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.