شاہ پری

آج چائے پھر چولہے پہ گر گئی میں اکثر چائے چولہے پر رکھ کر بھول جاتا ہوں اور چائے جب گر جاتی ہے تو پہلے چولہا صاف کرتا ہوں پھر ٹھنڈی چائے پیتا ہوں ، اب عادت سی ہو گئی ہے .کیا کروں کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے ، کبھی کبھار انسان ایسی زندگی جینا شروع کر دیتا ہے جہاں اسکی دسترس میں حالات نہیں بلکہ وہ حالات کی دسترس میں ہوتا ہے . آج چائے گری مگر مجھے اس کا احساس بھی نہ ہوا جب گھر میں ہر طرف جلتے دودھ کی بو پھیلی تو یاد آیا کہ چائے پک کر جل چکی ہے مگر میں یادوں اور خیالوں کے رستے پہ چلتے چلتے بہت آگے نکل چکا تھا .

خیالات اور یادوں کا اپنا جہاں ہے جیسے" شاہ پری " کا تھا . میں شاہ پری کا ہی سوچ رہا تھا جو کل رات تک میری مہمان تھی یہیں سامنے بیٹھی مجھ سے باتیں کر رہی تھی مگر اچانک غائب ہو گئی . سیاہ لباس ، لمبے گھنے بال اور حسن کی ایک بے مثال تصویر جو کسی مقصد سے اس دنیا میں آئی تھی . وہ بدیلجمال کی تلاش میں تھی اور چونکہ بدیلجمال میرے وطن کا رہنے والا تھا اس لیے جب تک وہ اسے ڈھونڈھ نہ لیتی میرے سوا اس کا کوئی اور ٹھکانہ نہ تھا . شاہ پری کا دیس پرستان تھا اور میرا وطن اس کے ساتھ ہی پہاڑوں میں آباد ایک ملک ، میں کبھی پرستان نہیں گیا تھا مگر وہاں کے حسن اور خوبصورتی کے قصے سن رکھے تھے . آج شاہ پری کو دیکھا تو اس کے دیس کی خوبصورتی اسکے وجود میں نظر آئی . بدیلجمال ایک آدم زاد تھا اور شاہ پری سے اس کی محبت پرستان میں پروان نہیں چڑھ سکتی تھی لٰہذا بدیلجمال کو ہجرت کرنا پڑی کیونکہ پرستان کا میرے دیس پہ کسی بھی قسم کا حملہ وہاں کے آدم زاد باشندوں کی زندگی کو خطرے میں ڈال سکتا تھے . بدیلجمال ایک طویل سفر پہ نکلا تا کہ وہ شاہ پری کو بھی بھول سکے اور اپنے وطن کی سالمیت کو بھی نقصان نہ پہنچائے . اسکا وطن میں رہنا وطن والوں کے لیے خطرہ تھا وہ خود کو کمزور سمجھتا تھا مگر شاہ پری بزدل نہیں تھی اسے آدم نگری سے ابھی کوئی خوف نہ تھا .

شاہ پری کو ان باتوں کا علم نہیں تھا مگر مجھے اس بات کی خبر تھی کہ اگر شاہ پری کو بدی مل گیا تو اس محبت کا انجام تباہی کے سوا کچھ نہ ہو گا . بدی بھی اپنے سفر پہ نکلنے سے پہلے میرے پاس رکا تھا اور اس نے مجھے شاہ پری سے اس بات کا تذکرہ کرنے سے سختی سے منع کیا تھا . خیر اب شاہ پری میری مہمان تھی اور مہمان بھی ایسی کہ جسکی موجودگی میرے لیے بھی خطرہ ثابت ہو سکتی تھی . شاہ پری میرے سامنے بیٹھ جاتی اور گھنٹوں بدی کی باتیں کرتی اور مجھے پرستان کے کمالات اور حالات بتاتی . شاہ پری نے مجھ سے پوچھا کہ میں کیا کرتا ہوں ؟ میرے جواب تھا کہ میں ایک "کہانی نویس " ہوں. اسے میرے پیشے کی کچھ سمجھ نہ آئی مگر اسے اتنا پتہ چل گیا کہ یہ کام وہی لوگ کر سکتے ہیں جن کا ایک تخیل ہوتا ہے . اس نے مجھ سے میری کہانیاں سنیں اور محظوظ بھی ہوئی پھر اس نے ایک فرمائش کی کہ وقت آنے پہ میں اسکی کہانی بھی لکھوں . میں نے وعدہ کیا کہ میں ایسا کروں گا مگر وقت آنے پر .

شاہ پری نے مجھے اور میرے کرداروں کو پسند کیا مگر وہ اس بات پہ حیران تھی کہ آدم زاد دھوکہ کیوں دیتے ہیں اور ان میں رشتوں کو نبھانے کی اور ان پہ قربان ہونے کی حس کیوں مر گئی ہے . شاہ پری کو آدم زاد سے پیار ہی اسی لیے ہوا تھا، اسے بدی کے فانی وجود کا علم تھا مگر وہ اسکے جذبات پر فدا ہو گئی تھی .اسے یقین تھا کہ بدی لوٹ کر آئے گا اسی لیے وہ یہاں آدم نگری میں ایک کہانی نویس کے پاس بیٹھی اسکی کہانیاں سن رہی تھی.

شاہ پری ایک رات کہیں چلی گئی لوٹی تو بہت اداس تھی ، بولی تمھاری آدم نگری میں انس محبت اور پیار نام کی کوئی چیز نہیں . رشتوں میں کوئی سچائی نہیں ؟ میں اسکی اس بات کا کیا جواب دیتا ....... میرے پاس اس کا کوئی جواب تھا بھی نہیں . رشتوں کے سچ شائد شاہ پری کے پرستان میں ہوں مگر میری آدم نگری تو دکھوں سے بھری پڑی ہے . اب رشتے کاغذی اور مفاد پہ قائم ہیں اسی لیے آدم زاد جو اشرف المخلوقات تھا کمزور اور بزدل ہو گیا ہے . میرا وطن دوست بدی بھی اسی لیے شاہ پر ی کو بغیر کچھ بتائے ہجرت کر گیا اور جاتے جاتے مجھے بھی قسم دے گیا کہ میں اس کے متعلق کچھ نہ بتاؤں.

شاہ پری رشتوں کے زوال کے دیس میں جس رشتے کو قائم کرنے آئی تھی وہ تو اسے نہ ملا مگر مجھے شاہ پری کا کچھ روز کا ساتھ ضرور ملا. ایک رات وہی ہوا جس کا مجھے ڈر تھا . پرستان کی پریاں شاہ پری کو لینے آ گئیں ، میں آدم زاد کچھ کر بھی نہیں سکتا تھا اور انسانوں میں محبت ڈھونڈنے والی شاہ پری پریوں کے دیس لوٹ گئی مگر جاتے جاتے مجھے ایک سوچ دے کر چلی گئی جس میں ڈوبا آج میں چولہا صاف کر رہا تھا .

دوازے پر دستک ہوئی ، ڈاکیہ ڈاک چھوڑ کر چلا گیا . میں نے دھیان ہی نہ دیا کیونکہ میری ٹھنڈی چائے میرے ہاتھ میں تھی اور میرا ذہن شاہ پری میں . میں نے ڈاک اٹھائی تو اس میں ایک غیر معمولی خط نے مجھے حیران کر دیا . یہ شاہ پری کا خط تھا جسمیں لکھا تھا –" پیارے کہانی نویس ! مجھے علم ہو چکا ہے کہ بدیلجمال لوٹ کر نہیں آئے گا اور مجھے یہ بھی علم ہے کہ جب تمہیں یہ خط ملے گا تو تم حیران ہو گے کہ مجھے یہ سب کیسے پتہ چلا ؟ میرے خط کا مقصد صرف تمہارا شکریہ ادا کرنا تھا اور یہ بتانا تھا کہ اگر کبھی بدیلجمال سے ملاقات ہو تو اسے بتا دینا کہ وہ آدم زاد ہے اور اپنی زندگی کی خاطر اپنی محبت کو قربان کر کے ایسے سفر پر نکلا جس میں جھوٹ کے سوا کچھ نہیں . یہاں پرستان میں ہم جھوٹ نہیں بولتے گو کہ ہم میں آدم زادوں جیسے جذبات نہیں مگر سچ ہے . بدیلجمال ، ایک آدم زاد ، جس سے میں نے محبت کی میری زندگی میں ایک مقام رکھتا ہے . وہ تو میرا انتظار نہ کر سکا مگر میں اسکا انتظار کروں گی. شاہ پری ".

کتنا سچ ہے شاہ پری کی باتوں میں اور کتنا جھوٹ ہے ہمارے جذبات اور کردار میں . شاہ پری کی کہانی کے سارے پہلو میرے لیے یہاں بیان کرنا ممکن نہیں کیونکہ آدم زاد پریوں کے قصے سنتے ہیں انھیں اس بات کا علم نہیں کہ وہ حقیقت میں کہیں نہ کہیں آباد ہیں مگر وہ آدم نگری میں نہیں آتیں کیونکہ یہاں کرب اور نفرت ہے یہاں رشتوں کے معیار نہیں ہیں ، یہاں ہوس اور لالچ ہے . اسی لیے تو اشرف المخلوق ابتر زندگی جینے پہ مجبور ہے اور ممکن ہے کبھی کوئی انکی کہانی بھی نہ لکھ پائے .

ختم شد
Anwaar Raja
About the Author: Anwaar Raja Read More Articles by Anwaar Raja: 71 Articles with 69678 views Anwaar Ayub Raja is a professional Broadcaster, voice over artist and linguist for Urdu and Mirpuri languages. Soon after graduating from University o.. View More