اے اللہ ہم حاضر ہیں

بسم اللہ الرحمن الرحیم

26فروری2011ءکا دن ہمارے لئے ایک خاص اہمیت اختیار کر گیا نماز مغرب کے بعد میر ے ماموں محمد بشیر (فادران لاء)اور ممانی مسز محمد بشیر (مدر ان لاء)ہمارے گھر آئے اور انھوں نے بتایا کہ وہ لوگ عمرہ کےلئے تیاری کررہے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ میری والد ہ بھی ان کے ساتھ اس مبارک سفر میں ساتھ جائیں جب والدہ نے رضامندی ظاہر کی تو میں نے کہاکہ میر ی بھی نیت ہے او ر میں نے بھی جانا ہے پہلے تو انھوں نے اسے مذاق سمجھا لیکن جب میں نے کہاکہ نہیں میں بھی آپ کے ساتھ جارہا ہوں تو انھوں نے پوچھا تمھارے پاس وسائل کہاں سے آئیں گے تو میں نے بتایا کہ ففٹی پرسنٹ تومیرے اکاﺅنٹ میں موجود ہے باقی بھی انشاءاللہ٬ اللہ انتظام فرما دے گا اور واقعی پھر جب میں نے تیاری بنا لی تومجھے نہیں معلوم کہ بقیہ وسائل کاانتظام کیسے ہوااب ہمار ا قافلہ چھ خواتین وحضرات پر مشتمل تھا راقم اور والدہ (جو کہ راولپنڈی کے جماعتی حلقوں میں رشید ہ آپا کے نام سے معروف ہیں)ماموں وممانی اور میرے ہم زلف برادرم ا مجد علی اور مسز امجد علی۔

ماموں اور ممانی دو سا ل قبل عمرہ کرچکے تھے اور امجد علی اس سال حج کرچکے تھے ہمیں تو جلد ی تھی ہی لیکن ان مذکورہ افراد جو پہلے جاچکے تھے کسی پل چین نہ تھا وہ چاہتے تھے کہ یہ سارا پراسس بعد میں ہوتا رہے اور ہم کسی طریقے سے اڑ کرپہنچ جائیںمیں نے تو دوسال قبل ماموں کی عمرہ سے واپسی پر ہی پاسپورٹ بنوا لیا تھا اب والدہ کا پاسپورٹ بننے کےلئے دیا تھا جبکہ ماموں اورممانی کے شناختی کارڈ عین وقت پر گم ہو گئے انھوں نے بھی ارجنٹ اپلائی کردیا شناختی کارڈ تو جلد مل گئے لیکن والدہ کا پاسپورٹ کا معاملہ طول پکڑتا گیا جو ٹائم پاسپورٹ آفس نے دیا اس سے بھی کافی دن اوپر گئے لیکن پاسپورٹ کانام ونشان نظر نہ آرہا تھا پریشانی تھی کہ اس میں ہر لمحہ اضافہ ہو ہوتا چلا جارہا تھا میں نے اپنے تمام احباب سے رابطہ کیا کہ اس سلسلے میں میر ی مدد فرمائیں ادھر اللہ سے بھی رجو ع کیاپریشانی اس وجہ سے بھی بڑھ رہی تھی کہ امجد علی کے والد صاحب بیما ر تھے اور اب ان کے جانے کی وجہ سے ان کے بڑے بھائی جاب سے چھٹی لے کر کوئٹہ سے آرہے تھے دوسر ی پریشانی ائیر ٹکٹ کی تھی جو ہر آنے والے دن میں چژھتا ہی جارہا تھاایک تحریکی دوست کے ذریعے پاسپورٹ آفس ہیڈ آفس میں ڈائریکٹر پالیسی سے رابطہ ہوا اور پھر والدہ کو لے کر ان سے ملاقات بھی کی تو ہماری پریشانی کو مدنظر رکھتے ہوئے انھو ں نے تعاون کی یقین دہانی تو کروائی لیکن ساتھ ہی کہا صورتحال خاصی گھمبیر ہے بہر کیف میں کوشش کرتا ہو ں اب ہمار ا فون او ر ہم پاسپورٹ آفس اسلام آباد کا طواف کرتے رہے لیکن معاملات طول پکڑتے گئے اب پریشانی مایوسی میں بدلنے لگی کیونکہ ہم نے امجد علی کو کہہ دیا کہ آ پ اپنا پراسس شروع کروا دیں کیونکہ پاسپورٹ کا اتہ پتہ نہیں تو انھوں نے بھائی کی چھٹی کے باعث پھر اپنا اور مسز کا پراسس شروع کروا دیا اب والد ہ بہت پریشان رہنے لگیں کہ شاید ہمارا بلاوہ ابھی نہیں آیا پھر ایک دن میں اور والد ہ پاسپورٹ آفس گولڑہ موڑ گئے تو انھوں نے بتایا کہ ابھی پاسپورٹ بہت لیٹ ہے مہینہ بھی لگ سکتا ہے ہم نے باہر ایک واقف کار ایجنٹ سے بات کی تو ان صاحب نے پانچ ہزار روپے کے ساتھ چار دن کا وقت مانگا لیکن دل نہ ماناکیونکہ ویسے بھی اللہ رب العزت نے تحریک اسلامی کے ذریعے جو روشنی دی تھی ہم اب تک رشوت وغیر ہ کے کسی ایسے چکر میںنہ پڑے تھے اب تو خیر بہت پاکیزہ سفر تھا لہذا وہاں سے واپسی پر برادرم امجد علی کی رہائش گاہ پر کچھ دیررکے والدہ خاصی پریشان تھیں اور مسز امجد علی کو کہنے لگیں آپ تو تیاری کررہے ہیں شاید ہم اس قابل نہیں کہ اللہ کے گھر کا دیدار کرسکیں اور پھر ان کے آنسو نکل آئے اور وہیں بیٹھے انھوں نے دعا کی کہ اللہ ہماری اس مشکل کو حل کراورہمیں اپنے گھر کا دیدار کروا وہ آنسو نکلنے کی دیر تھی کہ مایوسی کے بادل چھٹ گئے موبائل کی بیل بجی اور دوسر ی طرف ڈائریکٹر پالیسی تھے کہنے لگے آپ کتنی دیر میں پہنچ سکتے ہیں میں نے کہاکہ راولپنڈی میں ہوں ایک گھنٹہ لگ جائے گا اس وقت ڈیڑھ بج رہا تھا کہنے لگے آفس ٹائمنگ تین بجے تک ہیں اس سے پہلے پہنچیں اور پاسپورٹ لے جائیں پھر ہمارے میزبان کہتے رہے کہ کھانا کھا کر جائیں لیکن ا ب کھانے کا کسے ہوش تھا والد ہ کی آنکھوں میں اب مایوسی کی جگہ انوکھی سی چمک آنکھوں میں آنسو اور زبان پر اللہ کا ذکر تھا اب تو میرے جسم میں بھی گویا کرنٹ بحال ہو گیا تھا اور پھر ٹریفک اور رش کے باوجود اللہ کی مدد سے میں نارمل رفتار سے ڈرائیو کرتے ہوئے بھی ایک گھنٹے کا سفر پینتیس منٹ میں طے کرکے پاسپورٹ آفس اسلام آبا د پہنچ گیا اور پھر اللہ اپنے اس بندے اجر عظیم دے کہ وہ اتنی بڑی پوسٹ پر ہوتے ہوئے بھی خود اٹھ کرگیا اور پرنٹنگ سیکشن میں چند منٹو ں میں پاسپورٹ تیار کروایا اور پھر ہمارے بیٹھے بیٹھے دس جگہ فون کرکے منظور ی لی کہ پر نٹنگ سیکشن سے ڈسٹری بیوشن سیکشن اور نہ جانے کو ن کون سے سیکشن سے ہوکر پاسپورٹ نیچے پہنچنا تھا پھر ہیڈ آفس سے منظوری لی کہ یہ پاسپورٹ بجائے اس کے کہ راولپنڈی جائے یہیں سے وصول کروا دیا جائے وہ ہمارے لیے اپنے تمام کام چھوڑ کر لگا رہا اور پھر اس کی آنکھوں میں چمک تھی۔ انھوں نے اپنے ملازم کو ہمارے ساتھ کیا کہ آپ کو یہ اس آفس میں لے جائیں گے جہاں سے آپ پاسپورٹ وصول کرسکیں گے بہرکیف ساڑھے چار بجے تو پاسپورٹ ہمارے ہاتھ میں تھا شاید اللہ کو ہمارا امتحان مقصود تھا کہ یہ ایجنٹ کوپیسے دے کر چار دن بعد (وہ بھی غیر یقینی)پاسپورٹ حاصل کرتے ہیں یا مجھ سے رجوع کرکے آج ہی پاسپورٹ لے لیتے ہیںپھر تو سب جگہ گھنٹیا ں بج گئیں ادھر سے ماموں اور امجد علی اور ادھر سے میں اور والدہ چکلالہ میں موجودرکن جماعت حاجی نصیر غل کے آفس کاروان مکہ پہنچ گئے پاسپورٹ اور دیگر کا غذات ان کے حوالے کئے اب ٹکٹ کا مرحلہ تھا معلوم ہوا کہ اپریل میں ٹکٹ ملیں گے بہرحال ایک تحریکی دوست کسٹم آفیسر برادرم خالدکیانی سے رابطہ کیا اور پھر ان کے توسط سے30مارچ رات 1025پر ہمیں پروانہ راہداری مل گیا جب ہم نے26فروری کو عمرہ کےلئے نیت کی تھی اس وقت پی آئی اے ٹکٹ کی قیمت پچاس اکاون ہزار روپے تھی اور اب ہم نے 67ہزار روپے کا ٹکٹ خرید ا تھا اس میں ایجنٹ کا بھی کمال ہو گا لیکن پی آئی اے انتظامیہ نے بھی اندھیر نگری مچا رکھی تھی بہر حال ہم نے اللہ کا شکر ادا کیا کیونکہ جس طرح پاسپورٹ آفس کا طواف کیا تھا اس کا کچھ حصہ ہم ٹکٹ کےلئے بھی طواف کیا اور ایک بار تو ایجنٹ صاحب کہنے لگے انعام صاحب آپ نے تو فون ری ڈائل پررکھا ہے تو میں نے کہاکہ آپ کو نہیں معلوم ہم کس بے چینی سے یہ لمحات گزاررہے ہیں تو کہنے لگے ہمیں احساس ہے آپ یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ سرکار ی ایئر لائن ہے۔بہرکیف ٹکٹ ہمارے ہاتھ میں آئے تو اب ہمیں کچھ امید بندھی لیکن یقین پھر بھی نہیں آرہا تھابقول مسز امجد علی کہ تین برس کی چھوٹی بیٹی کو جب پتا چلا کہ ان کی والدہ عمرہ کےلئے جاررہی ہیں تو اپنی توتلی زبان میں کہنے لگی دعائیں میں کرتی رہی اور بلاوا آپ کا آگیا ۔ امجد علی اوران کی مسزکے ویزے تولگ کر آچکے تھے لیکن ہماری کوشش تھی کہ ہماری رہائش اکٹھی ہو لیکن اب ہمارے ویزے دوسر ی کمپنی افواج کے ذریعے لگائے جارہے تھے تیاریاں ہو رہی ہیں بہترین زاد راہ تو تقویٰ تھا لیکن ہم جیسے دنیا دار اپنے بیگ اور باکس خرید کر ان میں ضروریات کی تمام چیزیں بھررہے تھے کپڑے سلائی ہو رہے تھے بہرکیف تیاری مکمل ہو ئی میں نے بزنس کے تمام معاملات قلمبند کئے اور بڑے بھائی اسرار الحق کو تمام معاملات سمجھائے اس کے علاوہ بھی لین دین کے تمام معاملات رجسٹرپر درج کرکے بھائی کے گوش گزار کئے ۔

لیجئے وہ دن بھی آن پہنچاجس کا سالہاسال سے ہمیں انتظار تھا جس طر ح 26فروری کے اندھیر ے سے روشنی پھوٹی تھی آج 30مارچ کا سورج بھی غروب ہونے کے ساتھ رات کی ٹھنڈی چاندنی ہمارے لیے خوشیوں کا پیغام ثابت ہو رہی تھی نماز مغرب کی ادائیگی کے بعد ہماری رہائش گاہ پر میلے کا سماں بن گیا عزیز واقارب جمع تھے دعا کے ساتھ ہم گھر سے رخصت ہو ئے ہمارا پہلا پڑاﺅ ماموں محمد بشیر کی رہائش گا ہ تھی ہم وہاں پہنچے تووہ بھی تیار تھے امجد علی سے فون پر رابطہ ہوا تو معلوم ہوا وہ گھر سے ائرپورٹ کےلئے نکل رہے ہیں 0700بجے عزیزم حافظ اکرام عربی کی دعا کے دوران وہاں موجودتمام اقارب کی آنکھیں بھیگ گئیں اس مبارک سفر کاآغاز ہوا ہم نے کچہری کراس کیا ہی تھی کہ منچلے ورلڈ کپ کی خوشیوں کو منانے سڑکوں پر نکل آئے تھے پاکستان انڈیا میچ آخری مراحل میں تھا ابھی ہا ر جیت کا فیصلہ نہیں ہو ا تھا لیکن منچلے ویلنگ کرتے ہوئے بار بار ہماری گاڑی کے سامنے آرہے تھے بالآخر ائرپورٹ پہنچے فلائیٹ کا وقت قریب تھا اور بورڈنگ شروع ہو چکی تھی امجد علی اپنی فیملی کے ہمراہ پہلے ہی وہاں موجود تھے اس لیے ہم بلاتاخیر اپنے عزیز واقارب کو لا ﺅنج سے رخصت کرکے ائیرپورٹ کے اندر کی نئی دنیا کی طرف بڑھ گئے گیٹ پر ٹکٹ چیک کروانے کے بعدہم اندر داخل ہوئے تو خلاف توقع بورڈنگ سامان چیکنگ ودیگر مراحل بہت مختصر وقت میں انجام پاگئے۔ ائیر پورٹ حکام کا رویہ پاکستان کی بیوروکریسی کے برعکس انتہائی مشفقانہ اور متاثر کن تھا اب تمام مراحل طے ہو چکے اور ہم رن وے سے متصل ایک ہال میں پہنچ گئے دستی سامان وغیرہ کو محفوظ کرنے کے بعد نماز عشاءکی ادائیگی کی فکر ہو ئی چنانچہ پہلے ہم تین مرد واش رومز کی طر ف بڑھے وہاں ایک طویل قطار ہماری منتظر تھی باتھ روم انتہائی چھوٹے اور تنگ تھے ہم نے دیکھا کہ کچھ حضرات ان باتھ رومز کے اندر احرام باندھ رہے تھے میں تو ان باتھ رومز کو دیکھ کر پریشان ہو گیا کہ یہاں احرام باندھنے سے احرام ناپاک ہو نے کا خطرہ ہے نماز عشاءکی ادائیگی کےلئے نماز کےلئے مختص جگہ پر نماز ادا کی تو لوگ وہیں احرام باندھ رہے تھے چنانچہ میں نے بھی ان کی دیکھا دیکھی وہیں امجد علی کی معاونت سے احرام باندھا اس تمام ترصورتحال کوپیش نظر رکھتے ہوئے حاجیوں کو یہی تجویزکرو ں گا کہ گھر سے احرام باندھ لینے سے بہت سی مشکلات سے بچا جاسکتا ہے ۔احرام باندھنے کے دوران ہی اعلان ہو ا کہ عمرہ کےلئے جانے والے مسافر احرام باندھ کر نوافل پڑھ لیں فلائیٹ میں کچھ ہی وقت رہ گیا ہے چنانچہ نوافل ادا کرنے کے کچھ دیر بعدہمیں رن وے پر جانے کا حکم ملا تو یہاں امجدعلی کی دانشمندی کام آئی کہ آخرمیں جائیں گے ہم نے دیکھا کہ مسافر دھکم پیل کرتے ایک دوسرے کو پچھاڑتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے گویا اگر وہ لیٹ ہوگئے تو جہاز انھیں چھوڑ کر چلا جائے گا اس میں عام مسافروں کے علاوہ عازمین عمرہ بھی شامل تھے ہم جب بس کے ذریعے جہاز کی سیڑھی کے قریب پہنچے تو وہاں دس کے قریب قطاریں بنی تھیں اور اہلکار بار بار درخواست کررہے تھے کہ ایک قطار بنالیں لیکن کافی دیر میں مسافروں کو یہ بات سمجھ میں آئی لیکن پھر بھی دوقطاریں بنی تھیںجس سے جہاز کے اندر داخل ہو نے میں دشواری ہو رہی تھی پھر تمام کاروائی روک کر ایک قطا ر بنوائی گئی اس دوران 15-20منٹ ضائع ہو چکے تھے باقی پانچ ہم سفر تو پہلے ہی اپنی سیٹ پر پہنچ چکے تھے میرے سیٹ پر پہنچنے کے چند منٹ بعد 1025پر فلائی کرنے والی فلائیٹ 1055پر ٹیکسی کرتی ہوئی رن وے کو چھوڑہماری امیدوں کے مبارک شہر مکہ کی طرف رواں دواں تھی 3400فٹ کی بلندی پر اب اللہ کے بعد کیپٹن جاوید ہمارا رہبر تھا ہر مسافر کے سامنے لگی سکرین پر بلندی ٹمپریچر اور رفتار کے علاوہ روٹ بھی ڈسپلے ہو رہا تھا فضائی میزبانوں نے ہمیں ڈنر پیش کیا جو ہمیں متاثر نہ کرسکا ممکن ہے اس ڈش کا کوئی نام بھی ہو لیکن ہمارے لیے وہ ابلے ہو ئے چاول تھے اور ساتھ کچھ دیگر لوازمات تھے اسلام آباد ....لاہور ....نواب شاہ ....کراچی ....بحرین....ابو ظہبی سے ہو تا ہوا جہاز اب اس بابرکت شہر میں کے قریب پہنچ چکا تھا اور پھر وہ لمحہ جب ائیرہوسٹس نے اعلان کیا کہ ہم حرم کی حدود میں داخل ہورہے ہیں میرا دل گویادھک کرکے باہر آگیا ہو لبیک تو پہلے ہی زبان سے جاری تھا لیکن اب اس کے خشوع وخضوع میں کئی گنا اضافہ ہوچکا تھا آنکھوں میں آنسو بھر آئے کہ اے اللہ ہم گناہگار اس قابل تھے کہ تیرے مبارک گھر کے دیدار کےلئے سفر کا سوچ سکیں۔

سعودی وقت کے مطابق 0210بجے پی آئی اے کی پرواز نے جدہ ائرپورٹ پر سرزمین عرب کو چھو لیا اور پھربس ہمیں لے کر حج ٹرمینل کی طرف بڑھ رہی تھی خاصا لمباچوڑا ائرپورٹ تھا ہینگرمیں جہازاس طرح سجے تھے گویا شوکیس میں کھلونے سجے ہوں بس ہمیں لے کر کافی دیر چلتی رہی بالآخر ہمیں حج ٹرمینل پر اتار دیااور پھر کچھ ہی دیر میں ہم چیکنگ وغیر ہ کے مراحل سے فارغ ہو چکے تھے ہمارے پاسپورٹ پر انٹر ی کی اسٹیمپ لگ چکی تھی جدہ ائرپورٹ کے حوالے سے ہمیں خاصا ڈرایا گیا تھا کہ یہاں لمبی لائن لگانی پڑتی ہے کئی گھنٹے صبر کرنا پڑتا ہے لیکن ہمیں تو چند منٹ سے زیادہ وقت نہ لگا سعودی نوجوان مختلف کیبن سنبھالے بڑی سرعت کے ساتھ اپنے کام میں مصروف تھے ہم تو بروقت فارغ ہوگئے لیکن اب سامان کی تلاش کا مرحلہ باقی تھا ہمارا سامان خاصا لیٹ تھا لگ بھگ تین گھنٹے سے زائد کا وقت لگا ہمیں سامان وصول ہونے میں اتنے میں موذن فجرکی نماز کےلئے صدا بلند کرچکا تھا سامان کی وصولی کے بعد ائرپورٹ کے اندر مسجد میں ہم نے سرزمین عرب پر پہلی نماز ادا کی تو آنکھیں چھلک اٹھیں ابھی ہماری منزل تو یہاں سے دوگھنٹے کی مسافت پر تھی لیکن ہمیں تو اس سرزمین کی قربت کی وجہ سے اس کی ہر چیز محترم اور مبارک لگنے لگی تھی ۔نماز کے بعد معلم کی تلاش کا مرحلہ تھا ہم ائیرپورٹ سے باہر نکلے اور ایک جگہ بینج پر ڈیرے لگا دئیے کچھ ہی دیر میں عرب نوجوان ہماری طرف آنا شروع ہوگئے ہمارے ویزے افواج کمپنی کے تھے اور اسی کے نمائندہ کی ذمہ داری ہمیں ہوٹل تک پہنچانے کی تھی مختلف نوجوان آتے اور ہمارے پاسپورٹ چیک کرکے واپس چلے جاتے بالآخر ایک نوجوان آیا تو ہم نے اسے بتایاکہ ہمارے ویز ے افواج کے ہیں تو اس نے ہم سے پاسپورٹ جمع کرلئے اور انتظار کرنے کو کہا اس دوران ہم نے چائے تلاش کی جو تین ریال فی کپ کے عوض ملحقہ کینٹین سے ہمیں مل گئی اب ہم چھ افراد تھے اور معلم کو شاید مزید کسی فلائیٹ کاانتظار تھااس لئے ہمارا انتظار طویل ہو تا گیا 0800بجے کے قریب ہمیں سامان سمیت ایک کوسٹر میں سوار کروایا گیا جو ہمیں لے کر دیار حرم کو چلی تو فضا لبیک اللھم لبیک کی صداﺅں سے گونج اٹھی۔

(جاری ہے )
INAM UL HAQ AWAN
About the Author: INAM UL HAQ AWAN Read More Articles by INAM UL HAQ AWAN: 24 Articles with 25180 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.