کریمو نائی کی کہانی تو قارئین
کی نذر کر چکا ہوں۔ بہت سارے قارئین نے ملتی جلتی کہانیاں سنائی ہیں۔ کسی
کا کہنا ہے کہ میرے ہاتھ میں استرا تو نہیں تھا لیکن عرب کے تپتے صحراؤں
میں ٹریلر کا سٹیرنگ تھا، پردیس کاٹ کر بچوں کو پلا، پوسا، سکول، کالج اور
پھر یونیورسٹیوں کے خرچے برداشت کیے تھے کہ جب بوڑھا ہوکر واپس جاؤں گا تو
یہ بچے میرے بڑھاپے کا سہارا بنیں گے۔ آ ج اپنے دیس واپس آیا ہوں تو بچے
سہارا بننے کے بجائے بوجھ بنے ہوئے ہیں۔ کل جب وہ معصوم تھے تو ان کے ناز
نخرے برداشت کرنے میں مزہ آتا تھا، ان کی پڑھائی پر خرچ کرتے ہوئے تسکین
ہوتی تھی، ان کی ضروریات پوری کرتے ہوئے ایک امید اور آس تھی کہ یہ پیسے
ضائع نہیں ہو رہے، انوسٹ ہو رہے ہیں، کل یہ مجھے زیادہ منافع کے ساتھ واپس
ملیں گے۔ لیکن آج جب وہ سارے ایم اے، ایم فل، بی کام ، ایم بی اے ڈگری
ہولڈر ہیں۔ نوکریوں کے لیے دھکے کھاتے پھرتے ہیں۔ آج درخواست بھجوانی ہے،
آج ٹیسٹ کے لیے جانا ہے ، آج انٹرویو کے لیے جانا ہے، آج ڈگریوں کی فوٹو
کاپیاں کروانی ہیں، آج ٹی سی ایس کروانی ہے۔ یہ چند الفاظ ہیں جن کو سنتے،
سنتے میرے کان تھک بلکہ پک گئے ہیں۔ اب مجھے ان سارے لفظوں سے نفرت ہونے
لگی ہے، کیوں نہ ہو ہر ایک لفظ کی قیمت پانچ ، چھ سو روپے ہے۔ اب میں کمائی
نہیں کرسکتا، کمر دوھری ہو چکی ہے، ہاتھ پاؤں جواب دے چکے ہیں۔ اپنی ساری
قوت اور صلاحیت عرب کے ریگستانوں کی نذر کر کے ان بچوں کو تعلیم دی تھی۔
انہوں نے سکول، کالج اور یونیورسٹیوں میں فرسٹ کلاس میں امتحان پاس کیے ہیں۔
میری سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ سرکاری محکموں والے کون سا ٹیسٹ اور انٹرویو
لیتے ہیں جو فرست کلاس پاس بچے اور بچیاں پاس نہیں کرسکتے۔ بچے کہتے ہیں
ٹیسٹ بھی اچھا ہوا ہے ، انٹرویو بھی آسان تھا لیکن چار سالوں سے کسی کو
نوکری نہیں ملی۔ ان پڑھ، نکمے اور کرپٹ ممبران اسمبلی اور وزراء کے پاس
جاکر منت سماجت میرے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتا۔ رشوت بھی ساری زندگی نہیں
دی اور نہ دینے کا طریقہ آتا ہے، سوچتا ہوں کہ اگر رشوت دے کر بچوں کو
نوکری لگاؤں گا تو ان کی کمائی حرام ہو جائے گی اور میں حرام کی کمائی کھا
کر جہنم کا ایندھن نہیں بنانا چاہتا۔
یہ راجہ الطاف صاحب (دھیرکوٹ) کی کہانی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمارے نظام میں
کہیں بھی انصاف نہیں رہا۔ ہر طرف بولی لگی ہوئی ہے۔ میری پوری زندگی کا
مشاہدہ یہی ہے، بار، بار جو لوگ اقتدار میں آرہے ہیں، وہ نظام کو مزید
پراگندہ کر رہے ہیں۔ ان لوگوں سے بہتری کی کوئی امید نہیں۔ یہ ظالم لوگ
ہیں، غریبوں کے بچوں کا حق مار کر اپنے پیٹ پالتے ہیں۔ حرام کھانے والوں سے
انصاف کی توقع رکھنا کہاں کی عقل مندی ہے۔ میں نے عہد کر لیا ہے کہ میں
ووٹ، شوٹ نہیں دوں گا۔ اس نظام کا حصہ بن کر میں خود مجرم نہیں بننا چاہتا،
میرا ضمیر ایسے لوگوں کو ووٹ دینے پر آمادہ نہیں ہو رہا اور میں اسی میں
اپنے ضمیر کا اطمینان اور آخرت کی بھلائی سمجھتا ہوں۔
ایسی ہزاروں داستانیں ہمارے ہم وطنوں کے سینوں میں مدفن ہیں۔ یہ پنڈورہ بکس
کھل گیا تو پھر کچھ نہیں بچے گا۔ سب غارت ہو جائے گا، لوگ ووٹ کی جگہ جوتے
ماریں گے اور جب ان کی رائے کو بار، بار بلڈوز کیا جاتا رہے گا تو وہ بیلٹ
کی جگہ بُلٹ کو ترجیح دیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس وقت سے بچائے۔آج یہ میرا
موضوع نہیں تھا بلکہ ایک بہن سمیرہ کی درد بھری داستان لکھنے بیٹھا تھا کہ
راجہ صاحب کا فون آگیا اور کالم کا موضوع ہی بدل گیا۔ سمیرہ ایک پرائمری
سکول میں ٹیچر ہیں، خوش قسمتی سے 1994 میں ایک بار میرٹ پر تقرریاں ہوئیں
تھیں تو اسے بھی موقع مل گیا۔مقامی سیاست دانوں کو یہ تقرری آج تک ہضم نہیں
ہو رہی اور وہ اس غصے پر پانی ڈالنے کے لیے ہر چھ ماہ بعد اس کا تبادلہ
دور، دراز علاقے میں کر دیتے ہیں۔ وہ بیچاری بھی راجہ صاحب کی طرح ممبران
اسمبلی اور وزراء کے گھروں ، دفتروں اور ریسٹ ہاؤسوں کے چکر نہ لگا سکنے کے
جرم کی سزا پا رہی ہے۔ اس کے سسر کے گھر کے ایک کمرے میں سکول قائم ہے۔
زلزلے کے بعد ابھی تک سکول کی عمارت تعمیر نہیں ہوسکی لیکن اسے ایک دن کے
لیے بھی اپنے گھر میں قائم سکول میں ڈیوٹی دینے کا شرف حاصل نہیں ہوسکا۔
میلوں دور سے کچھ ٹیچرز آکر اس سکول میں فرائض انجام دیتی ہیں اور وہ اپنے
گھر سے میلوں دور، تین چار گاڑیاں تبدیل کر کے اپنی ڈیوٹی پر جاتی ہے، اس
کی آدھی تنخواہ کرائے میں چلی جاتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ میں ان شیطانوں کے
حربوں کا مقابلہ کر ، کر کے تھک چکی ہوں۔ ہر دور میں ظلم بڑھتا ہی رہا ہے،
کمی کوئی نہیں ہوئی۔ ہر افسر اور ہر وزیر کو درخواستیں دے چکی ہوں، کوئی
شنوائی نہیں ہو رہی۔ ملازمت سے استعفیٰ اس لیے نہیں دے رہی کہ شیطان سمجھیں
گے کہ وہ کامیاب ہو گئے ہیں۔ میں اس مقابلے سے دست بردار بھی نہیں ہونا
چاہتی۔ میری سنیارٹی بھی متاثر کی جا چکی ہے، میری انکریمنٹ بھی نہیں لگ
رہیں اور مجھے ہر چھ ماہ بعد نئے سکول کی زیارت کرنا پڑتی ہے۔ یہ سب کچھ
جھیل رہی ہوں اور اس نظام سے دن بدن میری نفرت میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔
مجھے سیاست دانوں، سیاست اور اقتدار کے پچاریوں سے نفرت ہو چلی ہے۔ یہ لوگ
نہ کوئی کام کرتے ہیں، نہ ان کا کوئی نظر آنے والا کاروبار ہے، نہ یہ لوگ
کسی رئیس ، جاگیردار اور وڈیرے کی اولاد ہیں اس کے باوجود ان کا معیار
زندگی دن بدن بہتر سے بہتر ہو رہا ہے۔ بڑی، بڑی کوٹھیاں، لمبی، لمبی کاریں
اور مہنگے ترین اداروں میں ان کے بچوں کی تعلیم یہ سب کچھ چیخ، چیخ کر کہہ
رہا ہے کہ یہ قومی دولت دونوں نہیں بلکہ چاروں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔ قومی
دولت پر ہاتھ صاف کرنے والے کیا انصاف کریں گے۔ یہ ہر کام میں دولت کمانے
کی فکر میں رہتے ہیں۔ مجھے ان سے نفرت ہے اور میں اس نظام سے باغی ہوں۔ میں
کسی کو ووٹ نہیں دوں گی۔ یہ سب جھوٹ ہے۔ جب پارٹیاں صلاحیت اور خدمات کے
بجائے پیسے ، برادری اور بدمعاشی کی بنیاد پر ٹکٹ جاری کریں گی تو اصلا ح
خاک ہو گی۔ مجھ سے کوئی ووٹ کی بات مت کرے۔ میرا بس چلے تو میں تمام پولنگ
سٹیشنوں کو آگ لگا دوں۔ جہاں سے کرپشن کے پرستار، غیرت اور حمیت سے عاری
مفاد پرست جنم لیتے ہیں۔ میں نے انہیں یہ بتانے کی کوشش کی کہ آپ بہتر
لوگوں کو ووٹ دے کر نظام تبدیل کرسکتی ہیں تو اس نے غصے سے ہاتھ میں پکڑا
ہو ا کاغذ (جو شاید کوئی درخواست تھی) کے ٹکڑے، ٹکڑے کرتے ہوئے کہا کہ نیک،
شریف اور اچھے بندے، اس میدان میں کہاں آتے ہیں، اگر کوئی ہمت کر کے آ ہی
گیا تو وہ صرف آپ کا ووٹ حاصل کر پائے گا۔ ہمارے ہاں شریف اور نیک لوگوں کو
کوئی ووٹ نہیں دیتا بلکہ شریف لوگ ووٹ دینے بھی نہیں جاتے کیونکہ شریف
لوگوں کو تو ووٹ پول ہی کوئی نہیں کرنے دیتا ۔ شریف نما لوگوں کے ووٹ پولنگ
شروع ہوتے ہی ڈال دئے جاتے ہیں۔ اس لیے مجھے گمراہ کرنے کی کوشش نہ کریں۔
میں سب تجربات کر چکی ہوں اور اب میں نے کبھی ووٹ نہیں دینا۔ |