اس سال مزدور طبقہ ۵۲۱ واں یو م
مزدور عا لمی سطح پر منایا جا رہا ہے یکم مئی وہ تہوار ہے جو ساری دنیا کے
مزدور ایک ساتھ منا تے ہیں مزدوروں کا ایک دن نا م کر نے کی تاریخ بہت پرا
نی ہے یہ ان لو گوں کو خرا ج عقیدت پیش کر نے کی ایک چھو ٹی سی کو شش ہے
جنھوں نے مزدوروں کی زندگی بہتر بنا نے کے لیے اپنی زندگی کو خون سے رنگی
داستا ن بنا دیا ۔۶۸۸۱ء کو شکا گو کے جو شیلے اور انقلا بی مز دوروں نے
اپنے حقوق حاصل کر نے کے لیے مکمل ہڑ تا ل کی یہ وہ زما نہ تھا جب بر صغیر
پاک وہند کے با سی اپنی آ زادی کی جنگ لڑ رہے تھے اور دوسر ی جا نب یو رپ
میں نئی صنعتیں ، تعلیمی ادارے قا ئم ہو رہے تھے کا ر خانوں کے جال بچھا ئے
جا رہے تھے صنعتی ترقی کے لیے پرانے انجن کی جگہ مشینی قوتیں عمل میں آرہی
تھیں نئے جہا ں آبا د کیے جا رہے تھے اشر افیہ طبقہ اپنی بقاء اپنے حقوق کی
تنظیم نو کر رہا تھا لیکن ! ان سب میں ہمیشہ کی طرح جو طبقہ اپنے حقوق کھو
رہا تھا دن رات محنت کے با وجود اسے پیٹ بھر روٹی نصیب نہ تھی وہ طبقہ مز
دور طبقہ تھا جو دن بدن بد حالی کی جانب سفر کر رہا تھا جن کے حقوق کا خیا
ل کسی کو نہ تھا سرما یہ دار زیا دہ سے زیا دہ اپنی اپنی تجو ریاں بھر نے
کے لیے مز دوروں کے حقوق کو پا ما ل کر نے میں مصروف عمل تھے ۔ دوسری جانب
کا رل ما رکس اور فریڈرک اینگلز کی تحریریں مزدوروں میں اپنے حقوق کا منشور
بیدار کر رہی تھیں انکے حقوق غضب کر نے والے سرما یہ دار اور حکو متی
اراکین کے خلا ف مزدوروں میں نفرتیں اور اشتعال بڑ ھتا جا رہا تھا انھیں اس
با ت کا بھی غصہ تھا کہ دن رات کی محنت کے با وجود وہ اپنے خاندان کے لیے
اشیا ئے ضرورت خرید نے سے بھی قا صر تھے ان حا لا ت میں شکا گو کے جرات مند
مز دوروں نے سر پر کفن با ند ھا اس مثا ل کے مصداق کہ ” ابھی نہیں تو کبھی
نہیں “ ان مز دو روں نے پہلی مکمل ہڑ تا ل کی اور جلو س کی شکل میں شکا گو
کی اہم شا ہراہ کی جا نب رواں دواں ہو ئے اینگلز نے ایک عظیم فقرہ ’دنیا کے
مز دوروں ایک ہو جا ﺅ ‘ کا نعرہ دیا مز دوروں نے اس عظیم نعرہ کو گرہ میں
با ندھ لیا اپنے حقوق حا صل کر نے کے لیے جدوجہد کرنے کا عزم و حو صلہ بلند
کر نے کا اقرار کیا مگر حکمرانوں ، سر ما یہ داروں کو ان کی یک جہتی ایک
آنکھ نہ بھا ئی انھوں نے نہتے مز دوروں پر گو لیوں کی بو چھا ڑ کر دی محنت
کشوں کے ہا تھوں میں تھا مے ہو ئے سفید پر چم خون سے سرخ ہو گئے اسی سرخ
رنگ پر چم کو مز دوروں نے اپنا رنگ بنا لیا انھوں نے عہد کیا کہ جب تک ان
کے مطا لبا ت پو رے نہیں ہو جا تے وہ کا م نہیں شروع کر یں گے اپنے سا
تھیوں کی جا نوں کے نذ ارنے کو یوں ضا ئع نہیں ہو نے دیں گے آخر کا ر سرما
یہ دار وں اور حکو مت وقت کو گھٹنے ٹیکنے پڑے مز دوروں کے جا ئز مطا لبا ت
جو صرف یہ کہ انھیں آٹھ گھنٹے کے اوقات کا ر کو تسلیم کیا جا ئے اس سے زا
ئد کا م کر وانے کا اختیار کسی مل مالک یا سرما یہ کا ر کو نہیں ہو گا ۔آج
جو اوقات کار آٹھ گھنٹے ساری دنیا میں را ئج ہے شکاگو کے ان محنت کش مز
دوروں کے مرہون منت ہے جنھوں نے اپنی جا نوں کا نذ ارنہ پیش کر کے مل ملکا
ن اور سرما یہ کاروں کو یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ ان کے کا ر خانوں کو چلا
نے والے ملا زمین کا بھی کچھ حق ہے۔
اگر ہم پا کستا ن کی با ت کریں تو یہ ہما ری بد قسمتی ہے کہ قیام پا کستا ن
کے بعد مزدور وں کی آج تیسری نسل بھی مزدور ہی ہے نسلوں کے اس سفر میں دادا
فیکٹری مز دور تھا، با پ کان کن اور اب بیٹا گا ڑیوں کی دکان پر کا م کرنے
والا مزدور ہے ۔ کا رل ما رکس کے بقول ” ہر وہ شخص جو اپنی محنت بیچتا ہے
وہ مز دور ہے اور جو یہ محنت خریدتا ہے وہ سر مایہ دار اور استحصالی ہے ۔“
یہ طبقہ شروع دن سے معا شی استحصال کا شکار ہے اگر دیکھا جائے تو ایک مز
دور اور سرما یہ کا ر کا رشتہ روح اور جسم کے مترادف ہے مگر دنیا میں بہت
کم ایسے ادارے ہو ں گے جہا ں مز دور کو ان کے کام کے مطا بق مر اعات ،
تنخواہ ، سہو لتیں اور بہتر ما حول دیا جا تا ہو اس وقت حکمرا ں طبقہ جو
خود کو مزدوروں کی جما عت تصور کر تی ہے جس کا مشہور زما نہ نعرہ روٹی،
کپڑا اور مکان مزدور طبقہ کے لیے ایک خوبصورت خواب ہی رہا ہما ری حکومتی
ادارے مز دوروں کی حا لت بہتر کر نے کے بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں مگر در حقتقت
ان دعوؤں میں کو ئی سچا ئی نہیں نظر آتی پا نچ لا کھ سے زائد لو گوں کو تو
انا ئی کے بحران نے بے روز گا ر کر دیا ہے بے شما ر صنعتیں بند ہو چکی ہیں
وہ مزدور طبقہ جو دیہا ڑی پر کا م کر تا ہے سخت کسمپر سی کا شکا ر ہے آئے
دن کی دہشت گر دی کے بڑ ھتے ہو ئے واقعات، مہنگا ئی ،لو ڈ شیڈنگ نے مستقل
بنیا دوں پر کام کر نے والوں کو بے روز گا ر کر دیا ہے پھر ان دیہا ڑی مز
دوروں کو کام کام کہاں سے ملے گا اس وقت یہ مز دور طبقہ اور ان کے خا ندان
سخت مشکل حالات اور فا قہ کشی میں مبتلا ہے ان کے مسائل خطر نا ک حد تک بڑھ
چکے ہیں ملک میں لا قا نو نیت کی بڑ ھتی ہو ئی وارداتوں کی کئی وجو ہا ت
میں سے ایک وجہ بے روز گا ری بھی ہے آج کے تنا ظر میں دیکھا جا ئے تو پوری
دنیا ما لیاتی بحران کا شکا ر نظر آتی ہے ایک طر ف سرما یہ دار طبقہ عالمی
معا شی زاوال کے سبب دیو الیہ ہو رہے ہیں تو دوسری طرف اسی سبب مز دوروں کو
بے رو زگا ری ، سہولیا ت اور پینشنوں میں کٹوتی جیسے مسا ئل کا سامنا بھی
ہے دوسرے الفا ظ میں کہا جا سکتا ہے کہ تما م معا شی بحران کا بو جھ محنت
کش طبقہ کو ہی بر داشت کر نا پڑ ر ہا ہے اپنی تاریخ کی سو سالہ جد جہد اور
قربا نیوں کے با وجود آج تک مز دور طبقے کے حالات بہتر نہیں ہو سکے اس
ناکامی کی کئی وجو ہا ت میں ایک خود ٹریڈ یو نین اور ان کی رو ایتی پا ر
ٹیا ں بھی شامل ہیں جو در پردہ سر ما یہ داروں سے اپنے تعلقات مستحکم رکھتی
ہیں دوسری جانب یہ تا ثر دینے کی کو شش کر تی ہیں کہ وہ ان کے ساتھ ہیں ۔
کا ل مارکس کے نز دیک سب سے اہم چیز معیشت ہے اور یہی وہ بنیا د ہے جس کے
اوپر انسان کی اخلا قی و مذہبی تصورات اور اسکے تمدن علو م وفنون کی بنیا د
کھڑی ہے ما رکس کے خیال میں انسا ن کو سب سے پہلی فکر غذا حاصل کر نے کی ہو
تی ہے اس لیے سما جی انقلا ب میں سب سے بڑا ہا تھ ان تبدیلیوں کا ہو تا ہے
جو پیداوار اور دولت کے تبا دلے سے پید ا ہو تی ہے اوریہ ہم سب جا نتے ہیں
کہ پیداورا بڑ ھا نے کا وا حد ذریعہ افرادی قوت ہیں جب تک ان کے حالا ت
زندگی بہتر نہیں ہوں ان کی جدوجہد جا ری رہے گی دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ
مزدور طبقے کے مسا ئل کبھی بھی حکمراں سر ما یہ دار طبقہ حل نہیں کر سکا ہے
اسے مز دوروں نے خود انقلا بی اجتما عی کو ششوں سے حل کیا ہے ۔ مشہور انقلا
بی شہید کا مریڈ روز الیگز مبر گ نے سچ کہا ہے کہ ”یوم مئی اس وقت تک منا
یا جا تا رہے گا جب تک محنت کشوں کی اپنے حقوق کے لیے سر ما یہ داروں کے
خلا ف جد وجہد جا ری رہے گی اور اگر محنت کش طبقہ عا لمی سطح پر اپنے حقو ق
حا صل کر نے میں کا میا ب ہو بھی گیا تو شا ئد اس کے بعد اس جد و جہد کر نے
والے شہیدوں کی یا د میں یوم مئی منا یا جا تا رہے گا ۔ یو ں تو یو م مئی
تما م مزدوروں کے جدو جہد کی داستان ہے لیکن میں آج کا دن اور یہ کالم ان
مزدور شہیدوں کے نا م کرنا چاہوں گی جو حفا ظتی اقدامات نہ ہو نے کی وجہ سے
اپنی جا نوں سے ہا تھ دھو بیٹھے یہ واقعہ ۰۲ ما رچ ۱۱۰۲ء کو بلو چستا ن کو
ئٹہ سے۵۳ کلو میٹر دور کو ئلہ کی کان میں کام کر نے والے مزدوروں کے ساتھ
پیش آیا جب گیس دبا ﺅ کے با عث کان زمین میں دھنس گئی اور ۵۴ مزدور جا ں
بحق ہو ئے ان میں بیشتر مزدور بر وقت طبی امداد نہ ملنے پر اپنی جا نوں سے
گئے ۔۔۔ ۔ |