جیسا کہ زبان زد عام ہے کہ کورونا وائرس کی ابتداء چائینہ
سے ہوئی، اور پھر ہوتے ہوتے 197 ممالک اب تک اس وباء کی لپیٹ میں آچکے ہیں۔
اب کہ جس وقت یہ تحریر لکھی جارہی ہے W.H.O کی رپورٹ کے اعداد و شمار کے
مطابق کورونا وائرس کے کل کیس 414,179، اموات 18,440، جبکہ ایک رپورٹ کے
مطابق صحت یاب افراد کی تعداد 114,826۔ اس دن کے مطابق سب سے زیادہ
9,750نئے کیسU.S.A میں، جبکہ سب سے زیادہ 743 اموات Italy میں واقع ہوئیں
ہیں۔
کسی نے کیا خوب کہا کہ "یہ نا دیکھو کون کہہ رہا ہے، بلکہ یہ دیکھو کیا کہہ
رہا ہے" بالکل ایسا ہی معاملہ چین کے ساتھ ہوا جب گزشتہ برس دسمبر میں"
ڈاکٹر لی وینلیانگ" نے کسی حلقہ میں اس وائرس کے پھلنے پھولنے سے چین کو
متنبہ کیا تھا، لیکن ان کی اس بات کو "بے بنیاد بات" سمجھ کر ٹال دیا گیا۔
اور مزید یہ کہ جنوری کے شروع میں پولیس نے داکٹر لی سے "بے بنیاد بات"
پھیلانے کے متعلق پوچھ گچھ کی، اور باقاعدہ ایک کاغذ پر ان سے یہ معاہدہ
کیا گیا کہ وہ دوبارہ اس قسم کی کوئی "بے بنیاد بات" نہیں پھیلائیں گے،
بصورت دیگر ان کو قانونی کارروائی کا متحمل ہونا پڑے گا۔
پھر وہی ہوا جو عام دستور کے مطابق ہوا کرتا ہے، اور دیکھتے ہی دیکھتے
ڈاکٹر لی کی"بے بنیاد بات" کی بنیاد اس طور پر پڑی کہ جب چین
میں81,848افراد اس بے بنیاد بات کا شکار ہوئے، اور اس "بے بنیاد بات" کی
بنیاد کو مزید پختہ کرنے کی خاطر ڈاکٹر لی سمیت چین میں3,287افراد کو اپنی
جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔ تب جا کر چین کو یقین آیا اور وہ بہترین فیصلے کر
کے اپنے عوام اور ملک کو بچانے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ پھر ڈاکٹر لی کے
خاندان سے ووہان پولیس نے معذرت بھی کی، جبکہ اسی وائرس سے متاثر ہو کر
ڈاکٹر لی 34 سال کی عمر میں سات فروری چین کے مقامی وقت کے مطابق صبح 2:58
پر انتقال کر چکے تھے۔ لیکن شاید پھر بھی کچھ لوگ ایسے تھے جنہیں اس بات کا
یقین نہیں آیاتو موت نے اپنے شکنجے اور وسیع کئے اور دنیا بھر کے
18,440افراد اس کا شکار ہوئے۔
چائنہ کے بعد سب سے متاثرہ ملک اٹلی ہے ۔ لومبارڈی کے بدترین متاثرہ علاقے
میں واقع شہر میلان کے ساککو اسپتال میں قائم متعدی امراض کے یونٹ کے
سربراہ ماسیمو گیلی نے بھی اس " بے بنیاد بات" کو بابنیاد قرار دیتے ہوئے
کہا : اگر میں کسی ملک کی وزارت صحت کا سربراہ ہوتا تو گھبرا جاتا، اور میں
اس وباء پر قابو پانے کے لئے انتہائی سخت اقدام اٹھانے سے گریز نہ کرتا، اس
بات کی تائید میں انہوں نے مزید کہا کہ : ہم سب ہمیشہ کے لئے تیار نہیں ہیں،
اور اس طرح کے واقعات کو مکمل طور پر ہینڈل کرنے کے کے لئے پوری طرح تیار
رہنا ناممکن ہے۔ گویا کسی بھی ملک کے اعلی حکام کے لئے ایک خاموش پیغام ہے۔
برطانیہ کے سینئر ڈاکٹر اس بے بنیاد بات کو تسلیم کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
کورونا وائرس ایسی وبا ء ہے جس نے ہمیں اپنی زندگی میں پہلی بار "خدا" بننے
پر مجبور کیا، گویا کہ ہم لوگوں کی زندگی اور موت کا فیصلہ کر رہے ہیں۔
ہمیں کس کو بچانا ہے اور کس کو نہیں، اس سطح تک کا فیصلہ آج تک کسی ڈاکٹر
نے نہیں کیا ہوگا۔ کس مریض کو آئی سی یو شفٹ کیا جائے اور کس کو مرنے کے
لئے چھوڑ دیا جائے اس قسم کے سخت فیصلے بقول ان کے عمر کے لحاظ سے کئے جا
رہے ہیں۔
اسی تناظر میں جب اپنے ملک کے کچھ ایسی ہستیوں پر نظر پڑتی ہے جو ابھی تک
اس معاملہ کو سنجیدہ لینے سے قاصر ہیں۔ اور عجیب و غریب قسم کے تجزیہ اور
دلائل ان کے پاس موجود ہیں۔ کچھ صاحب زادے تو ایسے ہیں جو احتیاط کی دھجیاں
اڑاتے ہوئے ایک دوسرے کو ہنستے مسکراتے جوش سے گلے ملتے اور مصافحہ کرتے
ہوئے یہ کہتے ہیں کہ نیا پاکستان بنا ہے تو کیا اب ہم ملنا ، ملانا بھی
چھوڑ دیں؟ ان صاحب زادوں کی ان باتوں میں کتنا وزن ہے؟ معمولی عقل والا
انسان بھی بخوبی اندازہ لگا سکتا ہے۔ یہ تو گویا خدا کی طرف سے آنے والی
آزمائش کے ساتھ محض مسخرے کرنا ہے۔
کوئی کہتا ہے، ملک میں کورونا نہیں بلکہ یہ امداد حاصل کرنے کا ایک نیا
ڈھنگ اور طریقہ ہے، باقی بے فکر رہو ۔ اگر یہ بات درست مان بھی لیں تو پھر
اس کاحل یہ نہیں کہ احتیاط ترک کی جائے بلکہ اس کا حل یہ ہے کہ اتنی احتیاط
کی جائے کہ جو لوگ اس وائرس سے امداد بٹورنے کے چکروں میں ہیں وہ آپ کی
زبردست احتیاطی تدابیر سے ناکام ہو جائیں۔ لیکن اگر ملک میں وائرس موجود
ہوا ، اور آپ نے احتیاط نہ کی تو دن بدن متاثرین کی تعداد میں اضافہ ہوجائے
گا ، جس سے امداد بٹورنے کے مزید مواقع بھی میسر ہوں گے۔ اور اس کے علاوہ
چند کواتاہیاں نا جانے کتنی جانوں کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہیں۔ اس رائے
کے متحمل افراد خود فیصلہ کریں کہ امداد بٹورنے کے اس طریقے کو کیسے ناکام
بنایا جا سکتا ہے، احتیاط کر کے یا احتیاط کو ترک کر کے۔
وائرس کی ابتداء میں چین سے ہونے والی کوتاہی نے چین سمیت پوری دنیا کو بڑا
دھچکا دیا۔ اٹلی کے ڈاکٹر ماسیمو گیلی بھی انتہائی سخت اقدام کی تائید کر
رہے ہیں۔ برطانیہ کے ڈاکٹر بھی دوہائیاں دے رہے ہیں۔ غرض یہ کہ ہر متاثرہ
علاقہ شش وپنج کا شکار ہے۔تو اگر مشکل اور آزمائش کی اس گھڑی ہم بھی کوتاہ
نظر رہے تو اس کے آنے والے نتائج سے بہت سی درد بھری داستانوں سے صفحات
رنگین ہو سکتے ہیں۔ اس لئےہمیں سب سے پہلے اپنے رب کی طرف متوجہ ہونا چاہیے،
اور ساتھ ساتھ اپنی وسعت اور گنجائش کے مطابق جتنے اسباب مہیا ہیں ان کو
اختیار کرنا ضروری ہے۔ لیکن یاد رہے کہ اسباب کو نہ اپنانا اور صرف توکل کی
بات کرنا جہالت ہے، اور صرف اسباب پر ہی توکل و انحصار کرنا اور خدا تعالی
کی مدد نہ چاہنا شرک ہے۔ ہم نے جہالت اور شرک سے بچ کر خدا کی طرف رجوع بھی
کرنا ہے اور اسباب (احتیاطی تدابیر) بھی اپنانے ہیں ۔ جو کہ راہِ معتدل ہے۔ |