باشعور پاکستانی قوم اس ملک کو خود مختار دیکھنا چاہتی ہے

پاکستان کے غیور عوام اس ملک سے شدید محبت کرتے ہیں وہ اس ملک پر فائز ٹولے کے غلط کاموں پر احتجاج کرتے ہیں چاہے اسکا تعلق عسکری ، سیاسی یا انتظامی شعبے سے ہو اسکے خلاف احتجاج کر کے اپنے غم و غصہ سے آگاہ بھی کرتے ہیں وہ الگ بحث ہے کہ اس پر توجہ دی جاتی ہے یا اسے درگزر کر کے ملک کو مشکل حالات کی سمت دھکیل دیا جاتا ہے۔ قیام پاکستان کے ساتھ ہی لوگوں نے اس ملک کی بہتری کے اقدامات اتنی جاں فشانی سے کئے کہ دنیا حیران رہ گئی کہ یہ ملک اپنی بقا قائم کرنے میں کیونکر کامیاب رہا ۔ چونکہ انڈیا پوری دنیا، خاص کر امریکہ اور یورپ کو یقین دلا چکا تھا کہ پاکستان جلد ہی خودبخود انڈیا سے ضم ہونے کی درخواست کرے گا ۔ اور یہی وجہ تھی کہ پاکستان کو عالمی برادری سے ابتدائی چار سال میں کوئی واضح ترقیاتی امداد نہیں ملی جس کی بنیاد بھارت کا پاکستان کے مستقبل کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنا تھا ۔ لیکن پاکستان نہ صرف اپنی موجودگی اور بقا ثابت کو ثابت کر کے دکھایا۔ لیکن بھارتیوں نے پاکستان کے وجود کو دل سے تسلیم نہیں کیا بلکہ اسے تقسیم کے فارمولے کے تحت ملنے والے حصے سے بھی محروم کیا اور دھوکا دہی کے حربے استعمال کر کے اسے مفلوج کرنے کے حربے استعمال کیے لیکن ان نظریاتی لوگوں نے ہمت کی اور ملک کو کسی ابتدائی امداد کے بغیر کشمیر میں کامیاب کاروائی کر کے کشمیر ہندوستان کے چنگل سے چھڑا کر آزاد کروا لیا جو آج تک آزاد ہے۔

اس قوم کا جذبہ حریت کا منہ بولتا ثبوت جس کا اظہار انہوں نے پینسٹھ کی سترہ روزہ جنگ میں کیا اور قوم نے فوج کے شانہ بشانہ جنگ میں حصہ لیا لیکن اس قوم نے ایوب خان کے تاشقند کے معاہدے میں کشمیر کے موقف جنگ ہارنے اور روسی دباؤ کے تحت مصالحت پر معاف نہیں کیا ۔ پاکستانی قوم نے انہیں اقتدار سے اس طرح علیحدہ کیا کہ پوری قوم کتا کتا کرنے لگی ایوب خان زبردست عوامی مزاحمت کے باعث اس مخالفت کا مقابلہ نہ کر سکے اور خود اپنے بنائے آئین کو توڑ کر ماشل لاء کا نفاذ کر کے قوم کے ، غیض و غضب سے اپنی حفاظت یقینی بنائی ۔

لیکن پاکستانی عوام مشرقی پاکستان میں ملک دشمنوں کی سازش نہ سمجھ پائے جس کے نتیجہ میں مشرقی بازو ہم سے علیحدہ کردیا گیا۔ یہاں لوگوں کو صحیح صورت حال کا اندازہ نہیں ہوا اور اس صورت حال سے ہمارے ملک دشمن اور غیر ملکی ایجنٹ اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہو گئے قوم اس سانحے کی کسک آج تک محسوس کرتی ہے کہ اس میں غلطی ہماری بھی تھی جو ہم نے انہیں حقوق سے محروم کیا گیا تھا۔

لیکن اس سانحہ کے بعد قوم کو احساس ہوا کہ پاکستان کے ساتھ عالمی طاقتوں کا رویہ منصفانہ نہیں عین وقت پر جب ہم حالت جنگ میں ہوں ہماری امداد بند کر دی جاتی ہے اور ملک اپنے دفاع کی صلاحیت ہی ختم کر بیٹھتا ہے پینسٹھ کی جنگ اور اکہتر کی جنگ اور اس دور کے سیاست دانوں اور حکمرانوں نے کس طرح اس قوم کو ذلت آمیز شکست سے دوچار کر کے ملک توڑنے میں کردار ادا کیا ا س موقع پر عالمی طاقتوں کے کردار نے بھی قوم کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا۔ اور پوری قوم اپنے ملک کا دفاع ناقابل تسخیر بنانے کے حق میں تھی ۔ ان حالات میں بھٹو جیسے لیڈر نے عالمی طاقتوں کی مخالفت کے باوجود پاکستان کو ایٹمی صلاحیت سے لیس کرنے کا بیڑا اٹھایا لیکن عالمی طاقتوں نے بھٹو کو اس پاداش میں ملکی فوج کو استعمال کرتے ہوئے پھانسی دلوا دی لیکن اس قافلے میں ڈاکٹر خان جیسا پر عظیم سائنسدان ملا جس نے تمام ترین رکاوٹوں کے باوجود پاکستان کو ایٹمی صلاحیت سے لیس کر ہی دیا ۔ اس محسن پاکستان نے اٹھارہ سال اور اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کام کر کے اپنی زندگی کے نہایت قیمتی سال دیے اور آج اس ایٹمی صلاحیت کا خوف اتنا شدید ہے کہ ہمارا ازلی دشمن پاکستا ن پر کوئی کاروائی کرنے سے گریزاں ہے۔

اس قوم نے اپنی عسکری صلاحیت کا اظہار افعان جنگ میں روسی افواج کے خلاف بڑی جانفشانی سے کیا اور حالیہ کارگل جنگ میں انڈین آرمی کو چند مجاہدین نے نچا کر رکھ دیا جو لڑنے کی بجائے امریکہ کے پیروں میں بیٹھ کر پاکستان پر دباؤ قائم کروانے میں کامیاب ہوا چونکہ اسے لڑائی میں بہت بری طرح نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ لیکن اس وقت کے حکمرانوں نے اس کامیابی کو ناکامی میں تبدیل کر کے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا جو غداری کے زمرے میں آتا ہے جس پر ان کا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے۔

اس طرح قوم نے انہیں بھی معاف نہیں کیا اور انہیں اقتدار سے علیحدہ کر کے ان پر فرد جرم عائد کرنے کا بھی مطالبہ کیا جو ایک جائز مطالبہ تھا ۔ اس بدقسمت قوم کو محب وطن قیادت کے تسلسل کا فقدان ہی رہا ایسے لوگوں کو سازشوں کے ذریعے راستے سے ہٹا دیا گیا تمام حکمران امریکہ ہی کی حاشیہ برداری میں لگے رہے چونکہ اقتدار امریکی ایوانوں ہی کے طفیل نصیب ہوتا ہے اسلئے حکمران امریکی ایجنڈے کی پیروی کرتے رہے ہیں اور جنہوں نے حالات کے مطابق اپنے موقف میں سختی پیدا کی تو انہیں پھانسی اور طیارہ سازش کیسں میں مروا دیا گیا۔ یا اقتدار سے باہر کر دیا جیسے مشرف صاحب تمام تر مواقف حالات کے باوجود یکدم اقتدار چھوڑ کر باہر کی راہ لی۔

قوم کو اس بات کا بھی اندازہ ہے کہ اس ملک کے اہم اداروں میں غیر ملکی ایجنٹ اتنی دور تک سرائیت کر چکے ہیں کہ غیر ملکی اقدامات موثر ثابت ہوتے رہے ہیں جس کی صفائی کرنے کی اشد ضرورت ہے اور ملکی سالمیت اور بقا اس سے مربوط ہے۔ آج بھی قوم ا ن سوالات کے جواب چاہتی ہے جں سے ملک کو شدید نقصان اٹھانا پڑا جیسے پینسٹھ کی جنگ اور حکومتی کردار ، اکہتر کی جنگ اور سانحہ مشرقی پاکستان کے ملزمان، بھٹو کی پھانسی، طیارہ سازش کیں ، کارگل کی جنگ اور افغانستان میں طالبا ن اور حکومت پاکستان کا کردار ، دھشت گردی کی جنگ میں ہمارا کردار ،ہماری خارجہ پالیسی اور عسکری یا سیاسی حکومتوں کے غیر آئینی طرز عمل اور کردار یہ سب قوم کے ذہنوں میں سوالات ہیں او ر اس کے ذمہ داروں کا محاسبہ چاہتے ہیں ۔ قوم بین لاقوامی تعلقات میں مکمل یکسوئی اور ملکی مفادات اور سالمیت کے مطابق رویہ چاہتے ہیں جو ایک خود مختار قوم کا ہوتا ہے۔

قوم کو اندازہ ہے کہ امریکہ اور مغربی ممالک پاکستان کی ایٹمی تنصیبات کو نقصان پہنچانے کی پوری کوششوں میں مصروف ہیں اور کسی موقع کی تاک میں ہیں دوسری طرف ہماری ایجنسیاں ان کی حفاظت میں پوری جانفشانی سے کر رہی ہیں قوم کی شدید خواہش ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو اس خطے سے باہر کر دیا جائے لیکن اس طرح کہ ملک کو کوئی نقصان نہ اٹھانا پڑ جائے قوم کو یہ خدشہ بھی ہے کہ کہیں ہمارے حکمران اعتماد ہی اعتماد میں اپنے ایٹمی تنصیبات کو نقصان سے دوچار کر دیں۔ قوم بالکل معاف نہیں کرے گی چونکہ اب یہ عظیم قوم اس ملک کو خود مختار ملک کے روپ میں دیکھنا اور تمام مداخلت کا خاتمہ چاہتے ہیں اور اس ملک میں لٹیروں اور غداروں کا محاسبہ چاہتے ہیں ۔ قو م کی شدت سے خواہش ہے کہ اس ملک کا ہر ادارہ اپنی حدود میں رہ کر ایمانداری سے کام کرے ۔ اس وقت معاملات اس حد تک جا چکے ہیں کہ غیر ملکی مداخلت اپنی تمام حدود سے نکل کر آقائیت کے حدود تک پہنچ چکی ہے اور ہمارے حکمران ایک غلام کی طرح ہاتھ باندھے انکی چاپلوسی کرتے نظر آتے ہیں ۔ حکمران ایک ایسی قوم کو غلامی پر مجبور کر تے ہیں جو سر اٹھا کر جینا چاہتی ہے۔

لیکن کون ہے جو اس قوم کی قیادت کا بیڑا اٹھا سکتا ہے اور اس ملک میں انصاف اور قانون کا صحیح محافظ بھی ہو صرف نعروں پر اب قوم اعتماد کرنے پر بالکل تیار نہیں ۔ ان حالات میں اللہ ہی ہے جو ہمارے ملک کو اپنی حفظ و آمان میں رکھ سکتا ہے۔ صرف دعاؤں کی ضرورت ہے جو قوم کر سکتی ہے۔ اس لئے دعا کریں کہ اللہ ہمارے ملک کا حامی و ناصر ہو آمین ۔
Riffat Mehmood
About the Author: Riffat Mehmood Read More Articles by Riffat Mehmood: 97 Articles with 82832 views Due to keen interest in Islamic History and International Affair, I have completed Master degree in I.R From KU, my profession is relevant to engineer.. View More