عوامی مینڈیٹ کی توہین

یہ بات سنتے ہم بڑھاپے کی دہلیز تک آ پہنچے کہ لوگوں کے مینڈیٹ کا احترام اس ملک میں نہیں ہے پر ایسا کب تک ہو گا ؟اور ایسا کیوں ہوتا ہے !

جانے کیوں ایک اندیکھی قوت اس ملک میں لوگوں کی رائے کی توہین پر کمر بستہ ہے اور پورا ملک اپنی آزادی اظہار ہی سے محروم ہے، کہیں اسے بد معاشی کے ذریعے پامال کیا جاتا ہے ، کہیں دھونس اور دھمکی سے اس کے چیتھڑے اڑا دیے جاتے ہیں اور کہیں دھاندلی کے ریکارڈ بنا کر نتائج کو اپنے حق میں کروا لیا جاتا ہے ، کہیں عسکری زرائے سیاسی پلیٹ فارم بنا اپنے حمایت یافتہ امید وار میدان میں اتار دیتے ہیں اور پارٹیوں کو بتا دیتے ہیں کہ تمہیں اتنی سیٹیں دیں گے ؟ اس ملک میں لوگوں کو ان کے حق رائے دہی سے انکار ہی اصل فساد کی جڑ ہے ، سارا کام فراڈ پر مبنی ہوتا ہے اور حیرت انگیز نتائج عوام کی امنگوں کا خون کر دیتے ہیں اسی کو مینڈیٹ کی توہین کہا جاتا ہے ۔

کراچی اس ملک کا ہمیشہ سے اہمیت کا حامل شہر ہے یہاں سب کو معلوم ہے کہ کن لوگوں کے تعداد زیادہ ہے لیکن اس حقیقت کو ماننے کو کوئی تیار نہیں ہے غلام محمد ، ایوب خان ، ذوالفقار علی بھٹو سے لیکر بینظیر اورّ نواز شریف تک اس شہر کے مینڈیٹ سے خائف ہی رہے اور طرح طرح کے حربے استعمال کر کے انہیں دیوار سے لگانے کے کے عمل میں شریک ہوتے رہے ، اور ایوب خان نے تو اس پر رد عمل اس طرح ظاہر کیا کہ ان آبادیوں پر مسلح حملے کروائے جنہوں نے ان کے خلاف اپنی رائے کا اظہار کیا تھا، ان کی متعصبانہ سوچ کا نتیجہ اس شہر کے لوگوں کو سزا دینے کے منصوبوں کو اسطرح دیکھتے ہیں کہ کراچی میں ہر طرف غیر قانونی طور پر آبادیوں کا جال بچھا کر لوگوں کو لا کر آباد کرایا گیا اور سب جانتے ہیں ان میں کن لوگوں کو آباد کرایا گیا، جنہوں نے ہمیشہ اس شہر کے لوگوں کو دھشت زدہ کیا اور ان کی آواز دبانے کے حربے استعمال کیے ، اس شہر میں تعصب کو فروغ دے کر یہاں بد معاشی کا بازار گرم کیا گیا۔

سب سے بڑا المیہ اس ملک میں پاکستان کے اصل وارثوں کو جو حکمرانی کا حق رکھتے تھے شروع ہی سے انہیں دیوار سے لگا کر انکے مینڈیت کی مستقل توہین کی گئی انکو ملکی معاملات سے دور رکھنے کے حربے استعمال کیے، لیکن حیرت انگیز طور پر یہاں کے لوگ انکو حقوق نہ دینے پر متفق تھے یہ تعصب کی انتہا تھی کہ ملک کی غالب آبادی کو اس کے حق محروم کیا جائے ، مشرقی پاکستان کے لوگ ۱۹۶۵ ء تک متحدہ پاکستان کے زبردست حا می رہے لیکن جب ایوب خان نے دھاندلی سے انکی رائے کو دبا کر انکے میڈیٹ کی توہین کی پھر تو سب کو معلوم ہے کیا ہوا، لیکن یہ سب کس کے اشارے پر ہوا ایسی کون سی قوتیں ہیں جو یہ سب پلاٹ کر کے ملک کو نقصان سے دوچار کرنا چاہتی ہیں اور وہ اب بھی انہیں حربوں کا آزما کر اس ملک میں کسی نئے المیے کا باعث بن سکتی ہیں۔

کراچی کی ایک آواز ہے اسے دبانے کے حربے بڑی شدت سے کئے جا رہے ہیں اس موثر قوت کے مینڈیٹ کی توہین کرنے کی منصوبہ بندی ہو رہی ہے تاکہ یہاں پر بھی مشرقی پاکستان جیسے حالات پیدا کیے جائیں، اس شہر کے وسائل پر قبضہ کیا جائے مقامی لوگوں کو روزگار کے مسائل میں الجھا کر انکا معاشی قتل عام کیا جائے۔

پچھلی دھائیوں سے کراچی میں غیر قانونی آبادیوں کا ایک جال بچھایا گیا اور دوسرے صوبوں کے لاکھوں افراد کو ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت لا کر آباد کیا گیا دوسرے مرحلے میں نئی حد بندیاں ایسی کی جائیں کہ غیر قانونی طور پر بسائی گئی بستیوں کا غالب حصہ اس طرح شامل ہو کہ قانونی طور پر آباد لوگوں کا تناسب کم کر دیا جائے اس سے انکی آواز دبائی جا سکتی ہے ، اسی کو مجربانہ سوچ ا ور کسی کے مینڈیٹ کی توہین کہا جاتا ہے۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ آبادیاں کیوں تعمیر کی گئیں لوگوں کی جائیدادوں پر قبضہ کرنے کے تمام حربے بروئے کار لائے گئے قتل عام کیا دھونس دھاندلی ، تشدد کر نے کے حربے استعمال کیے گئے تاکہ لوگ خوفزدہ ہو کر ان علاقوں سے نقل مکانی کریں اور ایسا ہی ہوا ، اسرائیل کی تنظیم ھیگناہ نے بھی اسی حربے کو استعمال کر کے اصل مکینوں کو ان کے علاقوں سے بے دخل کر کے انکے علاقوں پر قبضہ کیا تھا۔

ویسے تو قبضہ مافیا ، لینڈ مافیا اور ڈرگ مافیا کی حمایت کرنے اس پارٹی نے حالات کے مطابق اپنی پارٹی پالیسی کے بنیادی منشور سے مختلف ایک بالکل نیا رخ دیا ہے پہلے تو گاندھی کے نظریات کا پرچار کرتے کرتے انکے بڑے ملک راہی عدم ہو گئے اور پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا اور اس ملک میں دفن ہونا بھی گوارہ نہیں کیا، اور انکے موقف میں تبدیلی نہ آئی انہوں نہ ہمیشہ انڈیا، اور سوشلسٹ نظریات کا پرچار کیا پختونوں کے حقوق کے لئے ہی سرگرم عمل رہے ۔

لیکن آج حیرت انگیز طور پر فاٹا میں پختونوں کے خون بہنے پر امریکیوں کی حمایت میں انکے خلاف کوئی بات کرتی نظر نہیں آتی ، اور ان کے قائد پاکستان کے مخالفین کی طر ح اسکے ایٹمی پروگرا م کو کھلے عام تنقید کا نشانہ بھی بناتے ہیں کراچی میں پختونوں کا بہتا خون انہیں نظر آتا ہے اور وہ کراچی کو اپنے قبضہ میں کرنے کے تمام حربے استعمال کرنے پر کمر بستہ ہیں جبکہ انہیں خود اپنے صوبے پر کنٹرول حاصل نہیں ہے ، اخبارات کی اطلاعات ہیں کہ انکی لیڈر شپ بڑی خاموشی سے امریکی اہلکاروں سے امریکہ میں مل کر آئی اور شاید اسے کچھ امیدیں اور یقین دھانیاں کرائی گئی ہیں اس مفاہمت کے بعد انہیں خیبر پختون خواہ میں حکومت بنانے اور اسکے بعد ان کے صوبے کا نام بھی تبدیل کرنے کا موقع دیا گیا، کراچی میں بھی اسے حکومت میں شامل کر لیا گیا دو سیٹیں کی بنیاد پر دونوں ہی وزارتیں انہیں عطا کر دی گئیں ، اور اب انہیں مزید طاقت دلوانے کے حربے استعمال کیے جا رہے ہیں،اور مقامی لوگوں کو حقوق کی پامالی کا احساس دلوا نے کا کام بھی زور و شور کے جاری ہے تاکہ ان کو بھی مایوسی کی دلدل میں جھونک دیا جائے ۔ کیا ہم مصنوعی جمہوریت کے فروغ میں مینڈیٹ کی توہین کر کے ملک کو ایک خاص سمت میں لے جانے کے ملزم تو نہیں کل اس پر پچھتاوا ہو چونکہ عالمی طاقتیں آپ کو کمزور کرنے پر کمر بستہ ہیں۔ اور غیر ملکی اشاروں پر چلنے اور پلنے والے ہمارے نام نہاد لیڈران حقوق کے نام قوم کو بے وقوف بنا کر اس ملک کی جڑوں کو کاٹنے کے عمل میں معاون ثابت ہورہے ہیں ، آج بلوچستان کی موجودہ صورتحال محب وطن قوتوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے حالات اس نہج تک جا چکے کہ شاید واپسی کا رستہ باقی نہیں رہا اسی بنیاد پر ملک میں محب وطن لوگ کسی نئے المیہ کی بازگشت محسوس کر رہے ہیں نہ صرف بلوچستان بلکہ پورا ملک ہی شدید بدانتظامی کے مسائل میں گرفتار ہے ۔کیا بہتری کی کوئی امید موجودہ صورتحال میں دکھائی دیتی ہے جس پر قوم مطمئن ہو !
Riffat Mehmood
About the Author: Riffat Mehmood Read More Articles by Riffat Mehmood: 97 Articles with 75615 views Due to keen interest in Islamic History and International Affair, I have completed Master degree in I.R From KU, my profession is relevant to engineer.. View More