کرونا کا مقابلہ سب کو مل کر کرنا ہوگا

 پوری دنیا میں تباہی مچانے کے بعد کروناوائرس تیزی سے پاکستان میں بھی اپنے پنجے گاڑھ رہا ہے ہر گزرتے دن کے ساتھ متاثرہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے ۔پوری دنیا میں وائرس پھیلنے کے بعد آخر میں ہمارے ملک میں داخل ہوا ،ہمارے پاس بہت وقت تھا کہ ہم حفاظتی اقدامات کر لیتے مگرماضی کی حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت نے بھی روایتی سستی اور لاپروائی کا مظاہرہ کیا ۔بلاخصوص تفتان بارڈر پر تو مجرمانہ غفلت برتی گئی جس غلطی نے سارے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور اس ایک غلطی سے سبق سیکھنے کی بجائے مزید غلطیاں کی گئیں ہمیشہ کی طرح بعض وزرا نے بھی انتہائی غیر ذمہ درانہ بیان بازی کی ،ہم نے کبھی بھی غلطیوں سے نہیں سیکھا ،وہ چاہے ہمارے سیاستدان ہوں ،ہمارے حکمران ہوں یا پھر ہم عوام ہوں ۔ پوری دنیا اس وائرس کا مقابلہ لاک ڈاون اور کرفیو لگا کر ،کر رہی ہے۔ہمارے وزیر اعظم صاحب پہلے دن سے ہی لاک ڈاون یا کرفیو کی مخالفت کر رہے ہیں۔ان کا کہناہے کہ اس سے نچلے طبقے کا غریب بھوکا مر جائے گا،ان کی اس بات میں حقیقت بھی ہے اور ان کا یہ سوچنا جائز بھی ہے ،مگر یہاں سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے ۔کہ ہماری موجود حکومت یا سابقہ حکومتوں میں سے کسی نے بھی نچلے طبقے کی غریب اور مزدور کے لئے اتنی ہمدردی پہلے دکھائی ہوتی تو آج یہ سوچنا ہی نا پڑتا ،پچھلی حکومتوں نے تو جو کیا سو کیا، موجود حکومت نے بھی ٹیکسوں ،یوٹیلٹی بلز اور ہوش ربا مہنگائی سے اس طبقے کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ ہمارے ملک میں جہاں ایسے سرمایہ دار موجود ہیں جنہوں نے ہمیشہ ایسے حالات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے اور کر بھی رہے ہیں ۔چیزوں کے نرخ بڑھا کر ذخیرہ اندوزی کر کے اور ہر اس طریقے سے جو طریقہ وہ اختیار کر سکتے ہیں ،وہیں ایسے صاحب ثروت لوگ بھی موجود ہیں جو ہمیشہ کی طرح اس بار بھی بڑھ چڑھ کر غریب اور متوسط طبقہ کی ہر ممکن مد د کر نے کے لئے تیار ہیں اور کر بھی رہیں ۔ موجودہ صورت حال میں شہبا ز شریف لندن سے پاکستان پہنچے اور اپنی پریس کانفرنس میں موجودہ حکومت کوکئی مشورے بھی دئیے ،وہیں شہباز شریف صاحب کو یہ بھی بتانا چاہئیے تھا کہ مانا کہ ان کے دور حکومت میں سڑکیں ،پل،موٹرویز ،میٹروز اور اور نج لائیز بنی جن کا کریڈیٹ وہ لیتے ہیں اور آئندہ بھی لیتے رہیں گے،مگر ان کو یہ بھی بتانا چاہئیے کہ ان کے دور حکومت میں کتنے وینٹی لیٹر خریدے گئے؟جن کی آج اشد ضرورت ہے۔افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ کسی بھی دور حکومت میں صحت پر توجہ دی ہی نہیں گئی ۔ اس آفت کا مقابلہ کوئی بھی تن تنہا نہیں کر سکتا ہمیں مل کر اس موذی وباء کو شکسٹ دینی ہے ۔مگر ہمیشہ کی طرح اس مشکل گھڑی میں بھی ہمارے سیاست دان ،سیاست ہی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔گذشتہ روز کرونا پر بلائے گئے پارلیمانی اجلاس میں وزیراعظم صاحب اپنی بات کہہ کر چلتے بنے ۔ اور اپوزیشن بھی بطور احتجاج اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا،حالانکہ یہ موقع سیاست کرنے کا نہیں ہے بلکہ سب کے مل جُل کر چلنے کا ہے۔

اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کی ساری ذمہ داری حکومت وقت پر ہی عائد ہوتی ہے۔شہباز شریف پچھلے دس سال ملک کے بڑے صوبے پنجاب کے ایڈمنسٹیٹر رہے ہیں۔اور ان کی ایڈ منسٹریشن کی تعریف ان کے مخالفین بھی کرتے ہیں ایسے موقع پر حکومت کو دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کو ساتھ لے چلنا چاہیئے تھا ۔ دوسری طرف سندھ حکومت حقیقی معنوں میں عوامی حکومت کا کردار ادا کرتی نظر آ رہی ہے ۔سندھ حکومت نے برقت اور موثر اقدامات اٹھائیں ہیں جس کے اثرات نظر بھی آنا شروع ہو گئے ہیں۔جو صوبہ سب سے زیادہ متاثرہ تھا وہاں مریضوں کی تعداد میں واضح کمی دیکھنے کو آرہی ہے ۔وہیں دوسری طرف پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں مریضوں میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔یہاں ایک حکومت اور بھی ہے جس کا ذکر بہت کم کیا جارہا ہے ۔وہ ہے آزاد کشمیر کی حکومت جس کے برقت اقدامات سے آزاد کشمیر میں تادم تحریر اب تک صرف 6کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔

اب کچھ بات کرلیتے ہیں عوام کی، جہاں کرونا وائرس پھیلنے کے بعد ہماری کئی خامیوں کی نشاندہی ہوئی ہے ۔وہاں یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ ہم ایک غیر مہذہب اور غیر ذمہ دار قوم ہیں ،اور جہالت ہم میں کوٹ کوٹ کر بھری ہے ۔ہوسکتا ہے میرے یہ الفاظ سخت ہوں اور بہت سے لوگوں کی طبیعت پر ناگوار بھی گزریں مگر یہ ایسی حقیقت ہے جس جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ہم اپنی آنکھوں سے تباہی دیکھ کر بھی سدھرنے کو تیار نہیں۔ہم گھروں میں بیٹھنا تو درکنار کوئی حفاطتی اقدامات اپنانے کو تیار نہیں ۔ہم اٹلی ،فرانس ،امریکہ اور ایران کی تباہی دیکھ کر بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ کچھ نہیں ہوتا ۔ہم نے اپنی زندگیاں تو داو پر لگا ہی رکھی ہیں ہم اپنے خاندانوں اپنے گلی محلوں اپنے شہروں اور اپنے ملک کوبھی تباہی کے دہانے پر لے جانے کی ہر ممکن کوشش کرتے نظر آ رہے ہیں۔ہم نا تو حکومت کی کوئی بات کو ماننے کو تیار ہیں ،نا میڈیا نا ڈاکٹرز اور نا ہی وہ لوگ جو اٹلی ،فرانس ،چائینا سے ہمیں چیخ چیخ کر کہہ رہیں کہ کرونا مذاق نہیں بلکہ تباہی ہے ،اس تباہی سے بچو۔مگر مجال ہے کہ ہمارے کانوں پر جوں تک بھی رینگے ہماری تمام تر خطاؤں ،گناہوں اور کوتائیوں کے باوجود ہم پر اﷲ کا فضل و کرم ہے کہ ابھی بھی ہم کسی بڑے نقصان سے بچے ہوئے ہیں ۔تادم تحریر اب تک پاکستان بھر میں رجسٹرڈ کیسسز کی تعداد تقریباً ساڑھے 15سو ہے ،پنجاب میں 570،سندھ میں 504،خیبر پختونخواہ میں 188،بلوچستان میں138،گلگت بلتستان میں 116،اسلام آباد میں 43اور آزاد کشمیر میں 6 کیس رپورٹ ہوئے ہیں اور پورے ملک میں کرونا سے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد15ہے۔

یہ تمام اعدادو شمار وہ ہیں جو رجسٹرد ہوئے ہیں حالانکہ رجسٹرڈ نہ ہونے والوں کی بھی ایک بڑی تعداد ہے ،ایک اندازے کے مطابق ملک میں 14ہزار سے زائد افراد متاثر ہیں ۔آنے والے دنوں میں یہ صورت حال کیا رخ اختیار کرے گی یہ اﷲ ہی بہتر جانتا ہے۔مگر اب بھی وقت ہے کہ ہم بحثیت قوم خود کو ایک ذمہ دار قوم ثابت کریں اب بھی وقت ہے کہ ہم حکومتی احکامات پر عمل کریں اور احتیاطی تدبیر اپنائیں،یہ ہمارا قومی فریضہ بھی ہے اور شریعت کا تقاضہ بھی۔ہم گھروں میں بیٹھ کر, نا صرف خود محفوظ رہ سکتے ہیں بلکہ اپنی فیملیوں اپنے دوست احباب ،محلے داروں شہریوں کو بھی محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ہمیں ہوش کے ناخن لینے ہوں گے اور اس مسئلے کی سنگینی کو سمجھنا ہو گا ۔ اس وائرس کا مقابلہ حکومت ،عوام اور ہم سب کو مل کرنا ہوگا، ہم کسی بڑے سانحے کے متحمل نہیں ہوسکتے ۔ہمیں گھروں میں رہ کر نا صرف اپنی آنے والی نسلوں بلکہ اپنے وطن عزیز کے مستقبل کو بھی محفوظ بنانا ہے۔ گھروں میں رہ کر اپنے پیاروں کے ساتھ وقت گذاریے ،توبہ ،استغفار کیجئے خدا کے سامنے سربسجود ہو کر اپنے گناہوں کی معافی مانگیئے ،سترماؤں سے بھی زیادہ پیار کرنے والے خدا کو منانے کی کوشش کیجئے ،کیونکہ ہماری دنیا و آخرت کی بھلائی اسی میں ہے۔
 

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

M M Ali
About the Author: M M Ali Read More Articles by M M Ali: 18 Articles with 11818 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.