ذہنی کرونا پھیلانے سے اجتناب کریں

کرونا وائرس سے دنیا بھر میں جو تباہی ہورہی ہے ہم سب اس سے واقف ہیں، لیکن اس صورتحال میں مزید خوف پھیلایا جارہا ہے، جھوٹی وڈیوز اور تصاویر وغیرہ سے۔ یہ تحریر اس ضمن میں لکھی گئی ہے کہ لوگوں کو ذہنی کرونا کا شکار نہ کریں اور مثبت باتیں ایک دوسرے سے کریں تاکہ پہلے سے ہی اپنے گھروں میں محصور لوگ کم از کم گھروں میں تو سُکھ کا سانس لے سکیں۔

کرونا جلد ختم ہوگا

آج کل پوری دنیا میں کرونا وائرس کا بہت چَرچا ہورہاہے۔ ذرائع ابلاغ پر کرونا وائرس کے علاوہ دوسری کوئی خبر موجود ہی نہیں ہے، پھر چاہے وہ ٹیلی ویژن ہو، سماجی رابطوں کے ذرائع (Social Media)یا ریڈیو، سب ہی جگہوں پر صرف کرونا کرونا اور کرونا چھایا ہوا ہے۔ اس بات سے انکار نہیں کہ یہ واقعی ایک خطرناک وائرس ہے، جو دنیا بھر میں تباہی پھیلارہا ہے، ایسی صورتحال میں لوگوں کو احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے اپنے گھروں میں محدود رہنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ اب تک اس وائرس سے بچاؤکی کوئی ویکسین تیار نہیں کی گئی ہے، اس لئے خود کو محدود رکھنا ہی فی الحال اس بیماری کا واحد حل ہے۔
دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ پاکستان بھی اس وائرس کی لپیٹ میں آچکا ہے۔ لہٰذا احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے، کرفیو کا نفاذ کردیا گیاہے، لیکن کیا کریں کہ پاکستانی قوم خاص طور پر نوجوان طبقہ یہ دیکھنا چاہتا ہےکہ کرفیو ہوتا کیسا ہے، اسی لئے لوگ سڑکوں پر اب بھی بنا کسی خوف و خطر اور بنا کسی ضرورت نکل رہے ہیں۔ خیر پولیس اور رینجرز کے ڈنڈوں نے کسی حد تک صورتحال کو قابو میں رکھا ہوا ہے۔

خوش آئند بات یہ ہے کہ پاکستان میں اس وائرس کی تباہ کاریاں دیگر ملکوں کے مقابلے میں کم ہیں اور اب تک جو لوگ اس وائرس میں مبتلا ہوئے ہیں، اُن میں صحتیاب ہونے والوں کا گراف اُونچا ہے۔ سندھ کے صوبائی وزیر سعید غنی بھی جو کرونا وائرس کا شکار ہوگئے تھے، اب اس کے چُنگل سے آزاد ہوچکےہیں۔مگر ہمیں بحیثیت پاکستانی قوم مثبت خبریں سُننیں کا کوئی شوق نہیں ہے۔ ہم سُننا اور دیکھنا چاہتے ہیں ہر وہ خبر جس میں سَنسَنی، خوف، جھوٹ یا پھر کسی شخصیت کا مزاق اُڑایا گیاہو۔ ہمارا کیا لینا دینا ادب آداب کی باتوں سے، ہم تو پاکستانی ہیں اور سونے پر سُہاگا مسلمان، بس پھر کیا ہے "جنت" کا سرٹیفیکٹ ہر ایک شخص اپنی جیب میں لئے گھوم رہاہے اور بنا کسی تصدیق کے ہر اُس خبر کو لوگوں تک پھیلارہا ہے، جس کا سچائی سے دور دور تک کوئی تعلق ہی نہیں۔

موجودہ صورتحال میں کرونا وائرس سے متعلق سوشل میڈیا پر جس قدر جھوٹی وڈیوز اور تصاویرلوگوں کو دِکھا کر خوف میں مبتلا کیا جارہا ہے یہ ایک بڑا المیہ ہے۔ نہ جانے کہاں کہاں سے ڈھونڈ کر انگریزی فلموں کے ہولناک کلپس شئیر کئے جارہے ہیں اور بتایا یہ جارہا ہے کہ فلاں ملک میں اس طرح لوگوں کو جلایا / دفنایا جارہا ہےاور اِن وڈیوز میں مزید سنسنی و خوف پھیلانے کے لئے قرآنی آیات کا استعمال کیا جارہا ہے۔ گلی کوچے کے دانشور اپنی رائے کا اظہار کچھ اس طرح کررہے ہیں کہ حکومتی نمائندے جھوٹ بول رہے ہیں، اب تک پاکستان میں ہزاروں لوگ مر چکے ہیں اور کروڑوں اِس وائرس میں مبتلا ہیں اور اُن کروڑوں کی فہرست سے باہر نکلنے کے لئے جو شخص یہ بول رہا ہے کہ میں تو ایک ہفتے سے اپنے گھر میں ہی مقیم ہوں تو اسے خوف زدہ کرنے کے لئے یہی جملہ کافی ہے کہ "اس بیماری کا تو پتہ ہی دو ہفتوں کے بعد چلتا ہے۔" بس پھر کیا اُس بندے کا گلا ٹھیک ہوتے ہوئے بھی اسے کھانسی لگ جاتی ہے اور وہ خود کو کرونا کا شکار سمجھ بیٹھتا ہے۔ گذشتہ رات ایک مشہور اینکر پرسن نے اپنے پروگرام میں جو بے تکا سوال ایک ڈاکٹر صاحب سے پوچھا وہ بھی آپ کی خدمت میں پیش کرتا چلوں۔ موصوفہ کا سوال کچھ اس طرح تھا کہ: ڈاکٹر صاحب پاکستان میں کرونا وائرس سے اندازن کتنی موتیں ہوجائیں گی؟ اس واحیات سوال کا جواب سننے کے لئے میرے کان تیار نہیں تھے، اس لئے چینل تبدیل کردیا۔

اس مشکل گھڑی میں ہم کیوں لوگوں کو "ذہنی کرونا" کا شکار بنانے پر تُلے ہوئے ہیں؟ گھروں میں محصور ہونے سے لوگ ویسے ہی دماغی تناؤ کا شکار ہورہے ہیں، ایسے میں کرونا کے علاوہ کوئی مثبت خبریں بھی ذرائع ابلاغ پر چلائی جانی چاہیے تاکہ لوگ ذہنی کرونا کا شکار ہونے سے بچ سکیں۔
مشہور سائنسدان البرٹ آئنسٹائین کا یہ قول اس وقت اُن لوگوں کے لئے ایک اہم پیغام ہے جو گھر بیٹھے لوگوں کی باتیں سُن سُن کر "ذہنی کرونا" کا شکار ہو رہے ہیں۔
"stay away from negative people.
they have a problem for every solution"
Albert Einstein

ہر اندھیری رات کے بعد اُبھرتے سورج کی روشن کرنیں، نئی صبح کا آغازخوبصورت انداز میں کرتی ہیں۔ان روشن کرنوں کی طرح انسان کو بھی اپنی سوچ روشن رکھنی چاہئے۔امید ہے کہ جلد اس وائرس کی ویکسین تیار کرلی جائے گی اور دنیا کو اس کرونائی صورتحال سے باہر نکال لیا جائے گا۔ معمولات زندگی پھر اپنے روایتی انداز میں رواں دواں ہوگی اور یہ منظر ہم سب بہت جلد دیکھیں گے۔
تحریر: احسن عباس
 

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Ahsan Abbas
About the Author: Ahsan Abbas Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.