کورونا وائرس، حکومتی اقدامات، لاک ڈاؤن کی خلاف ورزیاں

ماہ دسمبر 2019کے اختتام پر کورونا وائرس کے بارے بین الاقوامی میڈیا پر خبریں گردش کرنا شروع ہوئیں جسکی بازگشت ہمارے میڈیا تک پہنچی تو ان خبروں پر کسی نے کوئی خاص توجہ نہ دی اگر کہیں اس وائرس کے خطرناک حد تک پھیلاؤ اور تباہ کاریوں کے بارے مقامی افراد سے گفتگو کی تو اکثریت نے اس بارے کہا کہ یہ بیماری مسلمانوں میں نہیں آسکتی کیونکہ ہم کونسا حرام جانوروں کا گوشت کھاتے ہیں ان کا کہنا ہوتا تھا کہ جہاں سے اس وائرس سے پھیلنے والی بیماری کی خبریں آرہی ہیں وہ تو حرام جانوروں کا گوشت کھاتے ہیں قارئین کرام آپ جانتے ہیں کہ یہاں گفتگو کرنے والوں کا واضح اشارہ ہمسائیہ ملک چین کی طرف ہوتا تھا حرام جانور کھانے کا کہنے والے رشوت /چوربازاری سے حرام کمانے اور روزمرہ کی اشیاء خوردونوش ناقص /ملاوٹ شدہ مہنگے داموں فروخت کرنے خاص طور پر اپنے مسلمان بھائیوں کو مذہبی تہواروں پر ناجائز منافع کمانے کے بارے خاموش کیوں ہو جاتے ہیں؟ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں 12 ارب روپے روزانہ کرپشن ہورہی ہے گویا4380 ارب روپے سالانہ اگرچہ یہ اعداد وشمار چند سال پیشتر کے ہیں جو کہ اب مزید بڑھ چکی ہو گی عام طور پر ہمارے معاشرے میں دیکھا جاتا ہے کہ مذہبی تہوروں ، رمضان المبارک پر ذخیرہ اندوزتاجرطبقہ کی جانب سے ناجائز منافع کمانا اب حرام تصور نہیں کیا جاتا، اکثر یت ایسے افراد غریبوں سے ناجائز منافع کمانے کے بعد خیراتی اداروں کو بڑی بڑی تقریبات منعقد کر کے عطیات کے چیک تقسیم کر رہے ہوتے ہیں اورہر سال عمرہ اور حج بھی ادا کر آتے ہیں، قدرتی آفات زلزلہ ، آندھی طوفان ،وبائی مرض پھوٹ پڑنے پراشیاء خوردونوش کو مہنگے داموں فروخت کرنا اور ذخیرہ اندوزی کر کے عام لوگوں کی پہنچ سے دور کر دینے کو برائی بھی نہیں سمجھتے ،2005کے زلزلہ میں متاثرین اور مستحق کے لئے آیا سامان بعض علاقوں میں فروخت بھی ہوتا رہابلکہ سالہا سال کے بعد بھی بعض اداروں کے سٹوروں میں موجود رہا ، کچھ ایسی صورتحال اب دیکھنے کو ملی جب کرونا وائرس سے بچاؤ کے لئے ایمرجنسی لگائی گئی توماسک ، صابن ،ہینڈ سینی ٹائزرمہنگے ہی نہیں بلکہ دوکانوں سے غائب کر دیے گئے تاکہ یہ اشیاء مرضی کی قیمتوں پر فروخت کی جاسکیں ، اشیاء خوردو نوش بھی مہنگی کی جا چکی ہیں قارئین کرام ! کورونا وائرس سے بچاؤ کے لئے حکومت پاکستان کی جانب سے لگائی گئی ایمرجنسی /لاک ڈاؤن کے دوران بھی یہ ہی کچھ دیکھنے سننے کو مل رہا ہے لاک ڈاؤن کو مذاق سمجھتے ہوئے اکثریت بازاروں ،کھیل کے میدانوں ، پبلک مقامات پر کھلم کھلا ایمرجنسی /لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرتے پائے جارہے ہیں اگر کہیں انتظامیہ تھوڑا سخت اقدام اٹھاتی ہے وہاں تعلق داریاں اور معززین شہر میدان میں آکر قانون کی خلاف ورزی کرنے والے کے ضامن بن جاتے ہیں، دفعہ 144 ڈبل سواری کی پابندی گزشتہ ایک ہفتہ سے پنجاب بھر میں لگائی گئی لیکن افسوس کے اسکی خلاف ورزی عام نظر آرہی ہے ، ماہ جنوری 2020کے دوسرے ہفتے میں محکمہ صحت کی جانب سے ڈینگی وائرس کی روک تھام کے حوالہ سے راقم الحروف کوایک میٹنگ میں شرکت کا موقع ملا جہاں پہلی بار انتظامیہ کی جانب سے ڈینگی مچھر کی روک تھام کے لئے کیے گئے قدامات کے بعدکورونا وائرس کے حوالہ سے میڈیکل آفیسرنے ڈپٹی کمشنر اوراجلاس کو بریفنگ دی کورونا وائرس کے بارے کچھ تفصیلات سامنے آنے پر عوام کو اس مہلک وبائی مرض سے آگاہ کرنے کے لئے مقامی ایف ایم ریڈیو پر اپنا پروگرام "عوامی مسائل انکا حل " 28جنوری کو آن ایئر کیا جسکا کچھ حصہ سانچ کے قارئین کرام کے لئے تحریر کررہا ہوں یاد رہے کہ یہ تحریر اُس تاریخ تک کورونا وائرس پرجو تحقیق ہوئی تھی اور میڈیا کے زریعے جو ہم تک پہنچا تھا اُس پر مشتمل ہے ۔"چینی صوبہ ووہان میں ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں کورونا وائرس کی جو وبا پھیلی اس کے نتیجے میں چین سمیت دنیا بھر میں ہلاکتوں اور خوف کی فضا قائم ہو چکی ہے ۔ چینی اور پاکستانی باشندوں کا ایک دوسرے کے ملک میں آنا جانا عام ہے، اسلام ا ٓباد، کراچی، لاہور سمیت مختلف شہروں میں 60ہزار سے زائد چینی طالب علم مقیم ہیں۔ وفاقی مشیر صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ابھی تک (28جنوری )کرونا وائرس کا شکار کوئی مریض نہیں ہے، دفتر خارجہ کے مطابق ووہان کی صورتحال پر ہماری گہری نظر ہے، جبکہ وزیر اعظم عمران خان نے کرونا وائرس کے حوالہ سے پندرہ رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے ،جو یہ فیصلہ کرے گی کہ اس وائرس سے کیسے نمٹا جائے ،کرونا وائرس سے اب تک (28جنوری ) چین میں 110سے زائدافراد ہلاک اور تقریباً 2800 متاثر جبکہ 14 ممالک اور خطوں میں یہ وائرس پھیل چکا ہے۔مسٹر چاؤ نے اعتراف کیا کہ گزشتہ جمعرات کو لاک ڈاؤن لگانے سے پہلے ہی 50 لاکھ افراد شہر چھوڑ کر جاچکے تھے۔اس مہلک وائرس سے نمٹنے کے لیے چین کی جانب سے قمری نئے سال کی عام تعطیلات کو تین دن تک بڑھا کر 2 فروری تک کردیا گیا ہے، برطانیہ، امریکہ اور فرانس سمیت 22 ممالک نے اپنے شہریوں کو ووہان شہر سے نکالنے کی منصوبہ بندی شروع کردی ہے۔چین میں کورونا وائرس کے انسانی حملے کے بعد دنیا بھر میں بے یقینی کی صورتحال پیدا ہوچکی ہے۔ یہ وائرس انسانی سانس کے نظام پر حملہ آور ہوکر ہلاکت کی وجہ بنتا ہے، ماہرینِ صحت کے مطابق یہ وائرس مختلف جانوروں میں پایا جاتا ہے جو انسانوں میں منتقل ہو سکتا ہے جبکہ چینی ماہرین نے خیال ظاہر کیا ہے کہ شاید یہ بیماری سانپ سے پھیلی ہے کیونکہ کہ چین میں بعض حشرات الارض سمیت چوہے، چمگادڑ اور سانپ انسانی غذا کا حصہ ہیں۔ یہ وائرس سانس کی نالی پر حملہ کرتا ہے جس سے نمونیا جیسی علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں پھیپھڑوں میں انفلیمیشن کے سبب سانس کی شدید تکلیف پیدا ہوتی ہے اور جسم میں ضرورت کے مطابق آکسیجن نہیں پہنچ پاتی جسکی وجہ سے گردوں کی صفائی کا عمل رک جاتا ہے اور آنتوں کی تہیں خراب ہو جاتی ہیں۔ انسانوں کے درمیان یہ کھانسی، چھینک، ہاتھ ملانے اور چھونے یا پھر فضلے سے پھیلتا ہے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو تمام تر حکومتی مشینری سمیت صحت کے متعلقہ شعبوں کو سر جوڑ کر بیٹھنا چاہئے، کسی بھی صورتحال سے نمٹنے اور مرض کی بروقت تشخیص کے حوالے سے سنجیدہ اقدامات کرنے میں اب تاخیر کی گنجائش نہیں۔ابھی تک کے جینیاتی تجزیے کے مطابق وائرس کی افزائش چمگاڈروں میں ہوئی لیکن محققین کے مطابق اس کی انسانوں میں منتقلی میں کسی دوسرے جانور کا کردار بھی ہوسکتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق وائرس کی انسانوں میں منتقلی سانپ کے ذریعے ہوئی۔چین کے ’ڈیزیز کنٹرول اور پریونشن سینٹر‘ کے ڈائریکٹر گاؤ فو کا کہنا ہے کہ وائرس ووہان کے ایک سمندری خوراک کی مارکیٹ میں جنگلی جانوروں سے پھیلا۔مذکورہ مارکیٹ میں مختلف قسم کے جنگلی جانور مثال کے طور پر لومڑی، مگرمچھ، بھیڑیے اور سانپ وغیرہ فروخت کیے جاتے تھے جسکو اب بند کر دیا گیا ہے۔چین نے تصدیق کی ہے کہ اب یہ وائرس انسانوں سے ہی دوسرے انسانوں میں پھیل رہا ہے۔ اگرچہ اس وائرس کے اکثر کیس ووہان میں ہی سامنے آئے ہیں تاہم اس وائرس سے متاثر افراد چین کے دوسرے علاقوں اور دوسرے ممالک میں بھی سامنے آئے ہیں۔کورونا وائرس کی نصف درجن سے زائد اقسام دریافت ہوچکی ہیں جب اسے خردبین کے ذریعے دیکھا گیا تو نیم گول وائرس کے کناروں پر ایسے ابھار نظرآئے جوعموما تاج (کراؤن) جیسی شکل بناتے ہیں اسی بنا پر انہیں کورونا وائرس کا نام دیا گیا ہے کیونکہ لاطینی زبان میں تاج کو کورونا کہا جاتا ہے۔ جسکا قطر400سے500مائیکرو ہے ،چین میں سانپ ، حشرات اور چمکادڑوں کے سوپ اور کھانے عام ہیں، 1960کے عشرے میں کورونا وائرس کا نام سامنے آیااور اب تک اس کی کئی تبدیل شدہ اقسام ( مجموعی طور پر 13) سامنے آچکی ہیں جنہیں کورونا وائرس کا ہی نام دیا گیا ہے تاہم ان کورونا وائرس کی 13 اقسام میں سے سات انسانوں میں منتقل ہوکر انہیں متاثر کرسکتی ہیں۔ اس سال چین کے شہر ووہان میں ہلاکت خیز وائرس کو nCoVD-2019 کا نام دیا گیا ہے جو اس وائرس کی بالکل نئی قسم ہے۔ انسانوں کے لیے تین ہلاکت خیز وائرسوں میں سے دو چین میں ہیں۔ اول، سیویئر ریسپریٹری سنڈروم (سارس) ، دوسرا مڈل ایسٹ ریسپائریٹری سنڈروم (مرس) مشرقِ وسطیٰ سے اور اب تیسراnCoVD-2019 بھی چین کے شہر ووہان سے پھیلا ہے۔ووہان وائرس سانس کی اوپری نالی پر حملہ کرتے ہوئے سانس کے نچلے نظام کو متاثر کرتا ہے اورجان لیوا نمونیا یا فلو کی وجہ بن سکتا ہے۔ اس سے قبل 2003ء میں سارس وائرس سے چین میں 774 افراد ہلاک اور 8000 متاثر ہوئے تھے۔ چین میں لوگوں نے بد ہضمی، سردی لگنے، بخاراور کھانسی کی شکایت کی جن پر حملہ شدید ہوا انہوں نے سانس لینے میں دقت ہوتی ہے۔ صحت کے عالمی اداروں کے مطابق وائرس سے متاثر ہونے کے دو روز سے دو ہفتے کے دوران اس کی ظاہری علامات سامنے آتی ہیں۔ اس کے بعد ضروری ہے کہ مریض کو الگ تھلگ رکھا جائے۔ اس وقت ووہان کے لوگوں نے کئی دنوں کا راشن جمع کرلیا ہے اور اکثریت باہر نکلنے سے گریزاں ہے۔چینی محکمہ صحت نے ووہان سے نمودار ہونے والے وائرس کا جینوم (جینیاتی ڈرافٹ) معلوم کرکے اسے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔ اب تک اس کی کوئی اینٹی وائرل دوا یا ویکسین سامنے نہیں آسکی ہے کیونکہ دسمبر 2019ء میں یہ نیا وائرس سامنے آیا ہے اور ماہرین اس کی ظاہری علامات سے ہی اس کا علاج کررہے ہیں۔ اگرچہ چین کا دعویٰ ہے کہ وائرس سے متاثر ہونے والے 4 فیصد افراد ہی ہلاک ہوئے ہیں تاہم عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ اس سے متاثرہ 25 فیصد مریض شدید بیمار ہیں۔کورونا وائرس بہت کم وقفے میں دنیا کے کئی ممالک میں پھیل چکا ہے اور اس سے قبل سوائن فلو کی وبا صرف ایک ماہ میں کئی ممالک تک سرایت کرگئی تھی، چینی شہر ووہان کا یہ وائرس پہلے دیگر شہروں میں پھیلا ہے۔ اس کے بعد جاپان، تھائی لینڈ، سنگاپور اور امریکا میں اس کی تصدیق ہوچکی ہے۔ پوری دنیا کے ہوائی اڈوں پر چینی مسافروں کی سکریننگ کی جارہی ہے۔پاکستانی ہوائی اڈوں پر بھی سکریننگ کے انتظامات کیے گئے ہیں۔ اس بیماری سے بچنے کے لئے اسلام کے سنہری اصولوں پر عمل درآمدکر کے اس طرح کی وبائی بیماریوں سے بچاؤ ممکن ہے ، اچھے صابن سے ہاتھ دھونے، نزلہ زکام کھانسی کے مریضوں سے فاصلہ رکھنا۔ کھانستے اور چھینکتے وقت منہ اور ناک کو ڈھانپنا۔ کھانا پکانے اور کھانے سے قبل اور بعد میں ہاتھوں کو اچھی طرح دھونا۔ کھانا اچھی طرح پکانا اور اسے کچا نہ رہنے دینا۔ کسی کی بھی آنکھ ، چہرے اور منہ کو چھونے سے گریز کرنے اور اس طرح دن میں پانچ مرتبہ وضو کرنا نماز پڑھنا ،ہر طرح کی انفیکشن سے بچاؤ میں بہت معاون ثابت ہوتا ہیـ" سانچ کے قارئین کرام ! یہ تو ابتدائی دنوں کی تحقیق اور میڈیا کی خبروں اور ڈاکٹروں سے حاصل معلومات سے ترتیب دیاگیا پروگرام تھا ،آج(30مارچ) پاکستان میں جزوی لاک ڈاؤن کاآٹھواں روز ہے کرونا وائرس سے بچاؤ اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے حوالہ سے لگائے گئے لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی بھی بڑے دھرلے سے جاری ہے تادم تحریرپاکستان میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد1625 ہو گئی ہے جبکہ 593 مصدقہ متاثرین کے ساتھ پنجاب ملک میں سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ بن گیا ہے جبکہ ہلاکتوں کی تعداد 18 ہے تاہم 28 افراد صحت یاب بھی ہوئے ہیں، گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں 54 نئے مریض اور 4کی موت ہوئی ہے ملک کے چاروں صوبوں کے علاوہ دارالحکومت اسلام آباد، گلگت بلتستان اور پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں بھی مکمل یا جزوی لاک ڈاؤن ہے ،حکومت کے تمام تر اقدامات کے باوجود اکثریت لاک ڈاؤن کے دوران سیر سپاٹے اور کھیل کود میں مصروف ہیں جبکہ ملک بھر میں فوج بھی تعینات ہے،چار مرتبہ برٹش اوپن سکواش چیمپیئن جیتنے والے سکواش کے پاکستانی کھلاڑی اعظم خان بھی برطانیہ میں کورونا کا شکار ہو کر وفات پا چکے ہیں،جبکہ دنیا بھر میں عالمی وبا کورونا وائرس سے یورپ میں اموات کی تعداد 20 ہزار سے بڑھ چکی ہے،بین الاقوامی خبر ایجنسی کے مطابق اٹلی اور اسپین میں ایک دن میں 800 سے زائد اموات رپورٹ ہوئی ہیں، کورونا وائرس کے باعث اس وقت دنیا کی ایک تہائی آبادی کو لاک ڈاؤن کا سامنا ہے، کورونا وائرس کے کیسوں کی تعداد 7 لاکھ 31 ہزار سے زائد ہوگئی ہے، کورونا وائرس سے دنیا بھر میں ہونے والی اموات کی تعداد 34 ہزار64 ہوگئی ہیں جبکہ دنیا بھر میں کورونا وائرس سے متاثر ایک لاکھ 57 ہزار سے زائد افراد صحت یاب ہوئے ہیں۔ایک بین الااقوامی میڈیا کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جانز ہاپکنز جو کہ معروف یونیورسٹی ہے کے پرفیسر نے جاری کردہ الرٹ میں کہا ہے کہ کرونا وائرس کوئی جاندار چیز نہیں بلکہ ایک لحمیاتی سالمہ یا پروٹین مالیکول یعنی ڈی این اے ہے، جس پر چربی یا لیپڈ کی حفاظتی تہہ چڑھی ہوئی ہے جو انسانی آنکھوں، منہ یا ناک کی رطوبت یا میوکس کے خلیوں میں مل جانے سے اپنی تولیدی یا افزائش نسل کی خصوصیت حاصل کرکے جارحانہ تیزی سے بڑھنے والا خلیہ بن جاتا ہے۔کورونا وائرس کو ختم کرنے کے حوالہ سے انھوں نے چند مشورے دیے ہیں یہ وائرس ہوتا تو بہت نحیف(کمزور) ہے۔ تاہم، چربی کی بنی ہوئی اس کی باریک حفاظتی تہہ پھاڑ دینے سے ہی اسے ختم ہونے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ اس کام کے لیے صابن یا ڈٹرجنٹ کا جھاگ سب سے زیادہ موزوں ہے جسے بیس یا اس سے زائد سیکنڈ تک اس پر رگڑتے رہنے سے چربی کی تہہ کٹ جاتی ہے اور لحمیاتی سالمہ ریزہ ریزہ ہو کر ازخود ختم ہو جاتا ہے۔گرمائش چربی کو جلدی پگھلاتی ہے اس لیے بہتر ہے کہ پچیس ڈگری سے زائد درجہ حرارت (نیم گرم سے تھوڑا زیادہ) تک گرم کئے ہوئے پانی سے اپنے ہاتھ، کپڑے اور دیگر اشیا صابن یا ڈٹرجنٹ کے جھاگ سے دھوئیں۔ گرم پانی جھاگ بھی زیادہ بناتا ہے اس لیے اس کا استعمال زیادہ سود مند ہے۔الکحل یا ایسا آمیزہ(مکسچر) جس میں 65 فیصد الکحل ہو وہ بھی اس کی حفاظتی تہہ کو پگھلادیتا ہے۔ایک حصہ بلیچ اور پانچ حصے پانی ملا کر ایسی تمام جگہوں خاص طور پر دروازوں کے ہینڈل، ریموٹ، سیل فون، ماؤس، لیپ ٹاپ کی اوپری سطح، میز کی اوپری سطح یا ایسی تمام غیر جاندار جگہیں جہاں وائرس کی موجودگی کا امکان ہو اورجنہیں لوگ معمول کی زندگی میں چھوتے ہیں ان پر اچھی طرح اسپرے کرنے سے بھی اس کی حفاظتی جھلی ٹوٹ جاتی ہے۔جراثیم کش دوائی اسے ختم کرنے میں کارگر نہیں ہوتی، کیونکہ وائرس، جراثیم کے برعکس جاندار نہیں ہوتا، جبکہ جراثیم مارنے کے لیے اینٹی بائیوٹک کام کرتی ہے۔استعمال شدہ یا غیر استعمال شدہ کپڑوں کو لہرائیں یا جھٹکیں مت کیونکہ یہ کسی بھی مسام دار سطح (آپ کی جلد) کے علاوہ کپڑوں پر بے حس و حرکت تین گھنٹے تک چپکا رہ سکتا ہے اس کے بعد کپڑوں اور آپ کی جلد سے ریزہ ریزہ ہو کر ختم ہوتا ہے۔ جبکہ تانبے پر چار گھنٹے، کارڈ بورڈ پر چوبیس گھنٹے، دھات پر بیالیس گھنٹے اور پلاسٹک پر بہتر گھنٹے تک چپکا رہ سکتا ہے۔یہ وائرس قدرتی یا ائیرکنڈیشنر کی ٹھنڈک میں بہت مستحکم ہوجاتا ہے اسی طرح اندھیرے اور نمی (موائسچر) میں بھی دیر تک رہتا ہے، اس لیے خشک، گرم اور روشن ماحول اس کے خاتمے میں مدد دیتا ہے۔بالائے بنفشی شعاعیں (الٹرا وائلٹ ریز۔ یو وی ریز یعنی سخت دھوپ) اس پر براہ راست کچھ دیر پڑنے سے بھی یہ ریزہ ریزہ ہو کر ازخود ختم ہو جاتا ہے۔ اسی لیے چہرے پر لگانے والے ماسک کو بھی اچھی طرح ڈٹرجنٹ سے دھو کر اسے دھوپ میں سکھانے کے بعد دوبارہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔ تاہم، بالائے بنفشی شعاعوں کا بہت دیر تک آپ کی جلد پر پڑنے سے اس پر جھرئیاں اور آپکو جلدی سرطان ہو سکتا ہے۔ان کایہ بھی کہنا ہے کہ منہ، ناک، آنکھ، تالوں، چابیوں، نوٹوں، سکوں، دروازوں کے ہینڈلوں، بجلی کے بٹنوں، ریموٹ کنٹرول، موبائل فون، گھڑی، کمپیوٹر، ڈیسک، ٹی وی وغیرہ کو چھونے سے پہلے اور بعد میں جبکہ واش روم سے آنے کے بعد اچھی طرح ہاتھ دھویں،صحت مند جلد سے یہ وائرس انسانی جسم میں داخل نہیں ہو سکتا۔جان ہاپکنز یونیورسٹی کے وبائی امراض کے ماہر ڈاکٹر اسٹیفن بارال کو بوسٹن ہیرالڈ نے نقل کیا ہے کہ انھیں توقع ہے کہ گرم موسم میں اضافے کے ساتھ ہی اس بیماری میں قدرتی کمی واقع ہوگی۔سانچ کے قارئین کرام !حفاظتی اقدامات جن کا ذکر اوپر کیا ہے یہ سب بین الاقوامی اداروں اور سائنس دانوں کی اب تک کی تحقیق پر مشتمل تھا اب بات ہو جائے پاکستان میں لاک ڈاؤن کے بعد کے حالات اور حکومتی اقدامات کی ،اوکاڑہ کی معروف سماجی ورکر مس صائمہ رشید ایڈووکیٹ نے راقم الحروف سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شہر بھر میں اکا دکا دوکان دار جو ماسک اورہینڈ سینی ٹائزر، ہینڈ واش فروخت کر رہے ہیں وہ اصل سے چارگنا قیمت ہے، ملک میں کورونا وائرس کے ممکنہ پھیلاؤ کو روکنے کے لئے ہیلتھ ایمرجنسی کے بعد چند مفاد پرست اور ذخیرہ اندوز میدان میں آگئے ہیں اور ایسی اشیاء مہنگے داموں فروخت کر رہے ہیں جن کا تعلق صحت وصفائی سے ہے ،کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے لگائی گئی ایمر جنسی کے دوران دفعہ 144 کی پابندی ، امن وامان کی صورتحال کو یقینی بنانے اور شہریوں کو اشیاء خوردونوش کی خرید میں کسی بھی قسم کی مشکلات کے خاتمہ کے لئے ضلعی انتظامیہ کی جانب سے فلیگ مارچ کیا گیاجو کہ ایم اے جناح روڈ ،ہارنیاں والا چوک ،ٹینک چوک ،ایم سی بی چوک ، منڈی روڈ ، تحصیل روڈ ،بے نظیر روڈ ،وینس چوک راوی روڈ سے ہوتاہو ا ڈسٹرکٹ کمپلیکس جاکر اختتام پزیر ہوا، ڈپٹی کمشنر اوکاڑہ عثمان علی اورڈسٹرکٹ پولیس آفیسر عمرسعید ملک نے میڈیا سے گفتگو کی اس موقع پر اسسٹنٹ کمشنر اوکاڑہ سیدہ آمنہ مودودی ،ڈی ایس پی ندیم افضال ، ڈسٹرکٹ ٹریفک آفیسروسیم اختر دیگرافسران بھی موجود تھے ڈپٹی کمشنر عثمان علی نے کہا کہ کورونا وائرس کے خلاف پوری قوم کو متحد ہے احتیاطی تدابیر اختیار کر کے اس موذی وائرس سے بچا جا سکتا ہے انہوں نے انتظامیہ کی جانب سے کیے گئے اقدامات کے حوالہ سے بتایا کہ رورل ہیلتھ سنٹر شیر گڑھ میں بنائے گئے قرنطینہ میں 20کمرے اور ایک کانفرنس ہال جبکہ ایک وارڈ کی سہولت دستیاب ہے جہاں پر 71افراد کی گنجائش ہے گورنمنٹ ڈگری کالج برائے خواتین بنگلہ گوگیرہ میں بنائے گئے قرنطینہ میں 23کمرے جبکہ 64افراد کو رکھنے کی گنجائش ہے گورنمنٹ ڈگری کالج برائے خواتین بصیر پور کے قرنطینہ میں 19کمرے اور 50افراد کو رکھنے کی گنجائش ہے ڈپٹی کمشنر عثمان علی نے کہا کہ الحمد ﷲ ضلع میں ابھی تک کورونا کا کوئی مریض نہ ہے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ضلع اوکاڑہ میں ہمارے پاس گندم اور چینی کا تسلی بخش سٹاک موجود ہے ضلع کی آٹے کی ضرورت کو پورا کرنے سے بھی زیادہ ہے انہوں نے کہا کہ ضلع کی 14فلوز ر ملز کو روزانہ کی بنیاد پر 4230بوری گندم فراہم کی جا رہی ہے جس سے بننے والے 20کلو گرام کے 16ہزار 920تھیلے ضلع کی تینوں تحصیلوں میں فراہم کئے جا رہے ہیں جبکہ ضلع کی 39آٹے کی چکیوں کو روزانہ 5بوری گندم فی چکی کے حساب سے فراہم کی جارہی ہے جبکہ چکیوں کو دی جانے والی 195بوری گند م سے بننے والا آٹا 45روپے فی کلو کے حساب سے عوام کو دستیاب ہے ، ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر عمر سعید ملک نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شہری دفعہ 144 کی مکمل پاسداری کریں قانون ہاتھ میں لینے والے کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی کرونا وائرس سے بچاؤ اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے لئے پوری قوم کو متحدہے ہماری معمولی سی غفلت پاکستان کی بڑی آبادی کو خدانخواستہ خطرہ میں ڈال سکتی ہے ہم سب کو حکومت اور ڈاکٹرز کی بتائی گئی ہدایات پر عمل کرنا چاہیے انہوں نے تمام ایس ایچ اوحضرات کو سختی سے حکم دیا کہ وہ دفعہ 144 کے قانون کی پوری عملداری نظر آنی چائیے ڈبل سواری، پبلک ٹرانسپورٹ کا استعما ل 5 یا اس سے زیا دہ کا جمع ہو نا اور مساجد میں 5 نمازیوں کا ہو نا شامل ہے انہوں نے کہا کہ میں ذاتی طور پر علماء کرام کا شکر گزار ہو ں کہ جو اس آفت کے موقع پر پولیس انتظامیہ اور حکومت کا ساتھ دے رہے ہیں ٭

 

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Muhammad Mazhar Rasheed
About the Author: Muhammad Mazhar Rasheed Read More Articles by Muhammad Mazhar Rasheed: 87 Articles with 58730 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.