یہ 20 مارچ بروز جمعہ کی دوپہر کی بات ہے کہ
ہماری ہی ایک غلطی یا غفلت کی وجہ سے ہمارے ساتھ ایک چھوٹا سا حادثہ پیش
آیا جس کے نتیجے میں ہمارا داہنا گھٹنا شدید متاثر ہؤا اور ہیلتھ انشورنس
موجود ہونے کے باوجود ہم اس ڈر سے اسپتال نہیں گئے کہ کہیں کورونا گلے نا
پڑ جائے ۔ اگرچہ چلنے پھرنے میں سخت تکلیف تھی فریکچر کا خدشہ موجود تھا
مگر ہم کو اسپتال جانے میں زیادہ رسک نظر آ رہا تھا بس چپ کر کے گھر بیٹھنے
میں ہی زیادہ عافیت نظر آئی ۔ گھٹنے پر سیلون پاس لگا لیا اور کبھی کبھار
اشد ضرورت کی صورت میں آئی پو بروفین لے لینے کی جو عادت تھی اس بار اس سے
بھی گئے ۔ کیونکہ طبی ماہرین پہلے ہی خبردار کر چکے تھے کہ موجودہ صورتحال
میں اس دوا کا استعمال قطعی ترک کر دیا جائے کیونکہ یہ انسان کے امیون سسٹم
کو کمزور کر دیتی ہے ۔ بس پھر نا کوئی دوا نا علاج گزارا کرتے رہے کوئی کام
نہیں رکا اپنی لنگڑی ٹانگ کے ساتھ زندگی کی دوڑ میں شامل رہے ۔ زندگی میں
پہلی بار نماز کرسی پر بیٹھ کر پڑھی ، قیام اور رکوع میں زیادہ مسئلہ نہیں
تھا گھٹنے کی تکلیف اس میں رکاوٹ نہیں بنی زمین پر ماتھا ٹیک کر سجدہ کرنے
سے محروم ہو گئے جو کہ نماز کے فرائض میں سے ایک ہے ۔ اسی رنج کے ساتھ ایک
اور عجیب بات نے دل پر بہت گہرا اثر ڈالا ، پانچوں فرض نمازوں میں سے تین
کے اندر جو نفل رکعتیں ہوتی ہیں تو ان کو بیٹھ کر پڑھنے کی اجازت ہے مگر
ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ اس طرح پڑھنے کا ثواب آدھا ہوتا ہے ۔ اور
یہ بات اچھی طرح سے معلوم ہونے اور کوئی جسمانی یا شرعی عذر نا ہونے کے
باوجود ہم عرصہء دراز سے نفل رکعتیں بیٹھ کر ادا کرتے رہے ہیں ۔ اور اب
حالت یہ ہے کہ تا حال ہم گھٹنے کو موڑ کر نیچے زمین پر بیٹھنے کے قابل ہی
نہیں ہیں اور اللہ ہم کو نفلیں بھی کھڑا کر کے پڑھوا رہا ہے ۔ ہے نا سوچنے
والی بات؟
اور جس دن کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے اس روز یہاں ڈیلس شہر کی تمام مساجد
میں نماز جمعہ منسوخ کر دی گئی تھی اور تب سے لے کر اب تک بیشتر مساجد میں
با جماعت نماز موقوف ہے چند ایک کے بارے میں تو سنا ہے کہ مقفل ہی کر دی
گئی ہیں ۔ ایک عجب ماتمی سا ماحول بنا ہؤا ہے ہر سو ایک ویرانی سی چھائی
ہوئی ہے اسپتال آباد ہیں طبی عملہ اپنی جانوں کو داؤ پر لگا کر وباء کا
شکار ہونے والوں کی جانیں بچانے کی جنگ لڑ رہا ہے ۔ ریاست ٹیکساس میں سب سے
زیادہ اندوہناک صورتحال کے حوالے سے ڈیلس کاؤنٹی دوسرے نمبر پر ہے ۔ بیماری
کے ساتھ ساتھ بیروزگاری کے بھی مہیب سائے پورے امریکہ کو اپنی لپیٹ میں لے
چکے ہیں ۔ زیادہ دیر کی بات نہیں ہے کہ یہی گلہ رہتا تھا کہ وقت میں برکت
نہیں رہی کب کیسے گذر جاتا ہے پتہ ہی نہیں چلتا ۔ کبھی لگتا تھا کہ وقت کو
پر لگ گئے ہیں اور اب لگتا ہے کہ وقت کے پیر ٹوٹ گئے ہیں گذر کے ہی نہیں
دیتا ۔ جیسے کہ ایک بہت بھاری رات ہے اور ایک ڈراؤنا خواب طاری ہے جو اعصاب
کو شل کیے دے رہا ہے ۔ متضاد انکشافات اور ہوشربا تجزیات عقل و فہم کو دنگ
کرنے کے لیے کافی ہیں اگر واقعی کوئی گیم کھیلی گئی ہے تو بہت گھاٹے کا
سودا کیا ہے جس کسی نے بھی یہ گڑھا کھودا وہ خود بھی اس میں گرا ہے قربانی
اسے بھی دینی پڑی ہے بلکہ سزا انہیں بھی ملی جو شریک جرم نہ تھے ۔ یہ سب
باتیں کرنا جتنا آسان ہے ان پر یقین کرنا اتنا ہی مشکل ۔ سچ کیا ہے یہ آنے
والا وقت بتائے گا تاریخ یاد رکھے گی پہلے یہ اتنی لمبی کالی بھاری رات تو
گذرے (رعنا تبسم پاشا)
|