میرا فیصلہ قرآن کرے گا ٌ کے بارے میں چند حقائق:۔
آج ٌمیرا فیصلہ قرآن کرے گا ٌکی آخری قسط پوسٹ کرنے سے پہلے کچھ اس
کہانی کی حقیقتیں واضح کرنا چاہوں گی ۔کچھ قارئین کے سوالات کے جوابات بھی
اسی آرٹیکل میں مل جائیں گے انشا اللہ۔سب سے پہلے تو میں قارئین کو بتانا
چاہونگی کے اس کہانی کا پلاٹ حقیقی ہے البتہ منطر کشی میں کچھ منظر اور کچھ
کیریکٹر حقیقی نہیں ہیں ۔ نام تبدیل کردئے گئے ہیں ۔کہانی کا انجام بلکل
حقیقت پر مبنی ہے اور عبرت ہے ظالموں کے لئے اور اللہ کا غذب اور غصہ آپ
واضح دیکھیں گے ۔جنہوں نے اس کہانی کی پچھلی اقساط نہیں پڑھیں ان کے لئے
بتاتی چلوں کہ ٌمیرا فیصلہ قرآن کرے گا ٌ ایک معصوم لڑکی کی کہانی ہے جسے
شک کی بنیاد پر قتل کرنے کا فیصلہ ہوا لیکن اس نے اس فیصلے کو ماننے سے
انکار کردیا ۔اس گاؤں کی پنچیت کے مطابق اس کے قتل کا حکم اللہ پاک نے
قرآن شریف میں دیا ہے جو کہ ان کو مولویوں اور اپنے بڑوں نے بتایا تھا
لیکن پینو اس بات کو نہیں مانتی تھی کہ صرف شک کی بنیاد پر اس کا قتل کیا
جائے اس لئے وہ بار بار قرآن پاک سے کہتی تھی میں سچی ہوں اور تو سچا ہے
تو میرافیصلہ قرآن کے مطابق اللہ خود کرے گا ۔فیصلہ کا لفظ سرائیکی زبان
میں دو معنوں میں لیا جاتا ہے ایک تو ٌفیصلہٌ اور دوسرا مطلب ٌبدلہٌ ہے
یعنی ایک تو وہ اپنے مقدمے کا فیصلہ قرآن کی رو سے چاہتی تھی کیونکہ وہ بے
قصور تھی اور جانتی تھی اللہ پاک بے قصور اور پاک عورتوں پر ظلم کا حکم
نہیں دیتے اور یہ بات اسے اس کے مولوی صاحب سے پتا چلی تھی اور اس کا دل
بھی یہی گواہی دیتا تھا اور دوسرا ٌمیرا فیصلہ قرآن کرے گا ٌ کا مطلب تھا
کہ اگر اسے قتل کردیا گیا تو اس کا بدلہ بھی قرآن لے گا کیونکہ یہ بات وہ
جانتی تھی کہ اگر اللہ نے ناحق قتل کا حکم نہیں دیتا تو ناحق قتل کرنے
والوں کے لئے سزا ضرور رکھی ہوگی۔وہ پڑھی لکھی نہیں تھی لیکن اللہ پاک سے
اور قرآن پاک سے بے پناہ محبت کرتی تھی اور پھر بچپن سے سنتی آئی تھی کہ
فلاں نے غلط کیا اس پر قرآن کی مار پڑے گی ۔لیکن اس کے فرعون ماموں نے اور
سردار نے اس کے قتل کا فیصلہ کرلیا تھا اور نہ صرف اسے قتل کیا گیا بلکہ اس
کے جسم کے ٹکڑے کئیے گئے اور جس پتھر پر اس کے ٹکڑے کئیے گئے اس میں سے آگ
کے شعلے نکلتے اس وقت دیکھے گئے جب اسے قتل کیا جا رہا تھا ۔اس کے جسم کے
ٹکڑوں کو نہر میں بہا دیا گیا ۔اس گاؤں میں آندھی بھی آئی اور عجیب و
غریب سی چیخوں کی آوازیں بھی سنی گئیں ،پینو کے مرنے کے بعد اس کی ماں
مسجد کے دروازے کو زور زور سے پیٹتی تھی ،وہ اپنی بیٹی کا بدلہ چاہتی تھی
اور پھر اللہ نے اس کی سن لی ۔وہی فرعون جس نے پینو کو بے دردی سے قتل کیا
اور اس کی منتوں ،سماجتوں ،قسموں کے باوجود اس کی نہ سنی ،اللہ نے اپنی
خدائی دکھائی ۔اور جس طرح اللہ نے قرآن میں ظالموں کا ذکر کیا ہے ۔اور ان
کی تباہیوں کی داستانیں ہیں اسی طرح اللہ نے اپنی بندی کی آواز کو بھی سنا
اور ظالم اپنے عبرت ناک انجام کو پہنچ گیا اس طرح اللہ نے جو وعدہ قرآن
میں کیا کہ اللہ حق کے ساتھ ہے اور جو مظلوم اللہ کو پکارتا ہے اللہ بہترین
سننے والا ہے اور ظالم کو اس کے کئے کی سزا یقینا دیتا ہے۔
اس کہانی کو لکھنے کی وجہ:۔
چند سال پہلے میرا ایک شادی میں جانا ہوا ان دنوں پینو اور رمضان خان کی
موت کا واقعہ نیا نیا ہوا تھا ۔شادی میں میری ملاقات اس عمدہ اور خوبصورت
شخصیت کی مالک عورت سے ہوئی جن کا ذکر میں بچپن سے سنتی آئی تھی ان کا نام
تو کوئی اور تھا لیکن انہیں کالی کے نام سے پکارا جاتا تھا اور کہا جاتا
تھا کہ کالی جہاں قدم رکھتی ہے وہ سوکھی زمین ہری ہوجاتی ہے اور اس زمین کے
بھاگ جاگ جاتے ہیں ۔جس شخص سے ملتی ہے اس کی قسمت جاگ جاتی ہے ۔وہ مجھ سے
ملکر اور میں ان سے ملکر بہت خوش ہوئے اور اس وقت مجھے زیادہ خوشی ہوئی جب
انہوں نے مجھے بتایا کہ ان کی بھی مجھ سے ملاقات کی دیرینہ خواہش تھی ۔میں
نے ان سے ان کے دشمن کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ میرا اور
مجھ جیسی دوسری عورتوں کا مجرم اپنے انجام تک پہنچ گیا ہے پھر انہوں نے
مجھے اپنی اور پینو کی کہانی سنائی ۔کالی نے مجھے بتایا کہ رمضان خان اس کا
کزن تھا اسی رمضان خان نے اسے کالی کرکے سندھ کے ایک سردار کے حوالے کردیا
تھا اور پھر وہاں کے قانون کے مطابق اسےٌ کالی مستورات خانہ ٌ جہاں ان
عورتوں کو رکھا جاتا تھا جن پر کاروکاری یعنی بدکرداری کا الزام ہوتا تھا
ان کو یا تو قتل کرنے کا فیصلہ ہوتا یا پھر کسی اور علاقے میں کسی اندھے
،اپاہج،بوڑھے یا پھر سردار کے کسی ملازم کے ساتھ نکاح پڑھادیا جاتا ۔ اور
آخر کار اس کی قسمت کا فیصلہ کیا گیا اور اسے ایک نیم پاگل،ہیروئینچی کے
حوالے کردیا گیا لیکن اس نے اپنے حسن اخلاق اور اللہ کی مدد سے نہ صرف اس
شخص کو بدلا دیا ۔یہ کیسے ممکن ہوا ؟ وہ کن حالات سے گزریں ؟۔ ان پر ظلم
کرنے والے انہیں کالی سے ٌبی بی ٌ (اس قوم کے لوگ جس کی بہت عزت کرتے ہیں
اور اسے مقدس ہستی سمجھتے ہیں اسے بی بی کا لقب دیتے ہیں )کہنا چاہتے تھے
لیکن اس عورت نے خود کو بی بی کہلانے سے انکار کردیا اور خود کو کالی ہی
کہلوایا شاید یہی تھپڑ تھا اس مقدس عورت پر الزام لگانے کا ۔کس طرح اللہ نے
اس کے چہرے کو اتنا روشن کردیا کہ اس کو دیکھ کر بے تہاشا اس کے مقدس اور
پاک ہونے کا احساس ہوتا اور اس کا اخلاق اتنا موہ لینے والا تھا کہ میں کیا
جو ایک دفع اس سے ملتا کبھی نہ بھول سکتا تھا ،المختصر آج تک میں نے ایسی
بھرپور شخصیت نہیں دیکھی۔(جلد ہی ان کی کہانی کا آغاز کرونگی اور کس طرح
ان کے اپنوں نے ان پر ظلم کئے اور پھر کس طرح اللہ نے ان کے صبر کا پھل دیا
اور وہی ظلم کرنے والے کیسے اس مقدس عورت کے محتاج ہوگئے آپ اس کہانی میں
جانیں گے ۔بہت جلد)۔ پینو ان کی رشتہ دار تھی اور رمضان خان ان کے کزن اور
ان پر کاروکاری کا الزام لگانے والا شخص اور اسے اپنے دودھ پیتے بچے اور
محبت کرنے والے شوہر سے جبرا دور کرنے والا ظالم ۔خیر ان کی اور پینو کی
کہانی اس شادی میں مجھے پتا چلی ۔پھر نہ جانے کیوں اور لوگوں کی طرح پینو
میرے خواب میں بھی آنے لگی اور اسی طرح کہتی کہٌ میرا فیصلہ قرآن کرے گاٌ
مجھے یہ بات سمجھ نہیں آتی تھی جب رمضان خان اور دیگر لوگ اپنے انجام تک
پہنچ گئے تو پھر وہ مجھ سے کیا چاہتی ہے ۔میں نے مختلف لوگوں سے اس بارے
میں بات کی تو مجھے خواب کی تعبیر کچھ یوں ملی کہ وہ تم سے کچھ چاہتی ہے کہ
تم اس کی آواز پھیلاؤ ۔میں چونکہ بچپن سے اس طرح کے ظلم کے خلاف ایک مختصر
دائرے میں اس کے خلاف بات کرتی رہی ہوں جہاں تک مجھے اس بات کا احساس ہوا
کہ پینو مجھ سے چاہتی ہے کہ میں کاروکاری جیسی بے رحم رسم کے خلاف بات کروں
۔جب میں نے یہ کہانی لکھنا شروع کی تھی اس وقت میرے اندر رمضان خان ،سردار
اور ان جیسےمردوں کے خلاف بے تہاشا نفرت تھی ،غصہ تھا لیکن جوں جوں میں یہ
کہانی لکھتی گئی مجھے پینو کے الفاظ کہ ٌ میرا فیصلہ قرآن کرے گا ٌ واضح
ہوگئے ۔آپ سب لوگ جانتے ہیں کہ اس کارو کاری کو لے کر عورت پر ظلم کے وہ
پہاڑ توڑے گئے کہ جسے دیکھ کر یہ زمین اور آسمان بھی اللہ سے ان عورتوں
لئے فریاد کرتے ہونگے لیکن افسوس کی بات کہ اسے اللہ کا حکم کہہ کر اللہ کی
آیتوں کا یہ انسان غلط استعمال کرتا رہا ہے ۔کاروکاری کی یہ رسم نئی نہیں
ہے ہزارہا سال سے عورت اس کے ہاتھوں پستی آئی ہے نہ تو کوئی این۔جی۔اوز
عورت کو بچا پائی ہے اور نہ ہی میڈیا ۔لیکن اس کہانی کو لکھتے ہوئے میرا
غصہ اور نفرت سردار ،رمضان خان جیسے شخص کے لئیے اور ان جیسوں کے لئیے جو
پیدا ہوئی وہ اچانک ترس میں بدل گئی ۔وہ اس طرح کہ برائی کی جڑ وہ نہیں
بلکہ اصل جڑ شیطان ہے اور سردار یا رمضان خان جیسے لوگوں سے صرف ہماری نفرت
مسئلے کا حل نہیں بلکہ شیطان کی چال کو سمجھنا اور اس کے خلاف چال چلنا ہے
اور اس سے لڑنا ہے اور اس سے لڑائی میں جیت ہماری تب ہوگی جب ان علاقوں میں
قرآن پاک کی تعلیم عام کی جائے گی اور ترجمے کے ساتھ اللہ کی آیتوں کا
مطلب ان پر واضح کیا جائے گا اور اس کے لئے عام مولویوں کی بجائے اسلامی
اسکالرز کی ضرورت ہے تو میں مولانا طارق جمیل صاحب ،ابو یحی صاحب ، الیاس
قادری صاحب سے اور ان لوگوں سے جو میری آواز ان اسکالرز تک پہنچا سکیں
التجا کرتی ہوں کہ خدارا مدد کیجئے ان معصوم لوگوں کی کہ جن کی لاعلمی سے
شیطان ان سے وہ کام کروا رہا ہے جس سے انسانیت کی روح بھی کانپ جاتی ہے ۔
میں کوئی اعلی رائٹر نہیں ہوں بس ایک جذبہ ہے میرے پاس شاید میری لکھی ہوئی
یہ کہانی بارش کا ایک قطرہ بن جائے اور قرآن شریف جو کہ اللہ کی آواز ہے
لوگ اسے سمجھیں اور گاؤں کی خوبصورتی میں کوئی بھی غلط فیصلے کی بدصورتی
شامل نہ ہو اور ہمارے گاؤں کے لوگ اپنے سادے سے ہر طرح کی بناوٹ سے پاک
نیچر کے ساتھ ہر طرح کے گناہ سے بھی پاک ہوجائیں۔ اور گاؤں کی ہر پینو اپنے
بالی کے ساتھ اور ہر امیراں اپنی گڈیوں کے ساتھ خوش و خرم رہ سکے ۔
آخری قسط:۔
بدبو نے پورے گاؤں کا احاطہ کیا ہوا تھا ۔اس بدبو کی انٹینسٹی اتنی زیادہ
تھی کہ ہر شخص ہی تنگ تھا اور استغفار پڑھ رہا تھا ۔دور دور تک پھیلی بدبو
یوں لگتا قریب سے ہی آرہی ہے ۔اس لئیے صحیح جگہ کی نشاندہی نہیں ہو پا رہی
تھی ۔ڈیرے پر پنچیت کا ایک فیصلہ تھا لیکن اس بدبو کی وجہ سے دوسرے گاؤں سے
آئے مہمان بھی معذرت کرکے اٹھ گئے۔سردار نے کاکے کو بھیج کر رب نواز کو
بلایا اور اس بدبو کے بارے میں دریافت کیا ۔سائیں ایک دو دن سے تو تھوڑی
تھوڑی بدبو تھی لیکن اب بڑھ گئی ہے ۔سب جگہ دیکھ لیا لیکن پتا نہیں چل رہا
کہ کہاں سے آرہی ہے ۔اتنی گندی بدبو تو آج تک کبھی نہیں آئی لوگوں کے سر
درد سے پھٹ رہے ہیں ۔رب نواز نے اپنے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔۔ہاں !
صحیح کہہ رہے ہو ،پنچیت بھی آج بغیر فیصلے کے ختم کرنی پڑی ۔بڑی شرم آئی
مجھے ۔ساتھ والے گاؤں کے لوگ کیا سمجھ رہے ہونگے کہ یہ اب تک بدبو کا پتا
نہیں چلا سکے ۔سائیں نے غصے سے کہا ۔۔رمضان خان کو پتا نہیں کیا ہوگیا ہے
،ایک تو ہر کوئی اس کے بارے میں مجھ سے پوچھتا ہے ۔اس کے بغیر تو میں ایک
قدم بھی نہیں چل سکتا ہوں ۔یہ اس کا شاطر دماغ تھا کہ میں اتنے سارے گاؤں
کا سردار بن گیا ، اب تو لگتا ہے دماغ ہی نہیں کام کرتا ۔رمضان کو لائے تھے
نا تو اب پھر کہاں گیا ؟ سائیں نے استفسار کیا ۔۔سائیں وہ پھر غائب ہوگیا
ہے ۔ساتھ والے گاؤں میں بھی پتا کیا لیکن کچھ نہیں پتا کسی کو ۔۔رب نواز نے
سائیں کو با ادب ہوکر بتایا ۔ٹھیک ہے اسے ڈھونڈو اس کا علاج کروانا ہے ۔وہ
بندہ ہی تو ہے اصل کام کا ،غیرتی ،پرجوش جسے دیکھ کر ،اس کا نام سن کر دشمن
تھر تھر کانپتا تھا ،میرا شیر دل ساتھی ہے وہ ،اس کا میں خود علاج کرواؤں
گا ۔جی سائیں !آپ صحیح کہہ رہے ہیں وہ ہوتا تو اب تک بدبو کا پتا لگا چکا
ہوتا اس کی تو سونگھنے کی حس اتنی تیز تھی کہ سیدھا اس جگہ پہنچا دیتا جہاں
سے بدبو آرہی تھی۔۔۔
سائیں !سائیں! منظور بھاگتا ہوا آیا اور ہانپتا کانپتا سردار سے کہنے لگا
ٌسائیں وہ چاچا رمضان کا پتا بھی چل گیا اور بدبو کا بھی ٌ ۔کیا مطلب ؟
سردار نے حیران ہو کر پوچھا ۔۔سائیں رمضان خان نے خود کشی کرلی ہے اور اس
کی لاش درخت کے ساتھ لٹکی ہوئی ہے اور اسی سے بدبو آرہی ہے ۔
گاؤں کے تقریبا سب لوگ ہی اس کھیت کے اردگرد موجود تھے جہاں وہ درخت موجود
تھا مکئ کے کھیت میں یہ درخت موجود تھا اور مکئی کے لمبے لمبے پودوں میں اس
کی لاش چھپی ہوئی لٹکی تھی ۔یہ وہی جگہ تھی جہاں پینو کا قتل کیا گیا تھا
۔اس کی چارپائی لائی گئی تھی اور اسی درخت کے نیچے وہ پتھر بھی موجود تھا
جس پر پینو کے ٹکڑے کئیے گئے تھے اور اسی رمضان خان کی بدبو سے بھری لاش
لٹکی ہوئی تھی جس نے پینو کے جسم کے ٹکڑے کرکے اس کا دل نکالا تھا اور اس
وقت اس کا اپنا دل نہیں ہلا تھا اور آج وہ خود عبرت کا نشان بن گیا تھا
۔بدبو اس قدر ذیادہ تھی کہ کوئی بھی لاش کے قریب جانے کے لئییے تیار نہیں
تھا ۔لاش سے کیڑے گر گر کر زمین پر آرہے تھے ۔نہ جانے کتنے دن سے لاش لٹکی
ہوئی تھی اور مکئی کے اونچے اونچے ڈنڈوں میں چھپی ہونے کی وجہ سے کسی کو
نظر نہیں آئی تھی ۔اور اب جب پتا چل گیا تھا تو خود رمضان خان کے اپنے گھر
والے بھی بدبو کی وجہ سے لاش کے قریب نہیں آپا رہے تھے ۔اوپر سے ہوا کے
جھونکے بدبو کو لا کر لوگوں کے کانوں اور منہ پر ایسے ڈالتے جیسے کہتے ہوں
دیکھو اس شخص کی گندگی ،غلاظت جو پاک عورتوں کو ناپاک کہتا تھا ۔اس کے جسم
سے اٹھنے والی بدبو اس کی ناپاکی کا منہ بولتا ثبوت تھی ۔اس کے جسم میں
رینگنے والے کیڑے اسے نوچ نوچ کر پینو کا بدلہ لے رہے تھے ۔ہر زبان پہ تھا
کہ پینو کے قرآن نے فیصلہ کردیا۔ پینو پاک تھی ،پینو کالی نہیں تھی ، پینو
کو ناحق مارا گیا تھا ،اللہ کا عذاب آگیا تھا ۔لوگ پینو کی ماں کو بتا رہے
تھے کہ تمہاری بد دعائیں رنگ لے آئیں ۔اس بد انسان کی بدبو اس کے بد ہونے
کی گواہی دے رہی ہے ۔اس کی سزا اللہ نے دے دی ہے ۔تمہارے اللہ کے قرآن نے
فیصلہ کردیا ۔پینو کو انصاف مل گیا ۔اب کوئی پینو کے نام کے ساتھ کالی نہیں
لگائے گا ۔تمہاری دھی پاک تھی ۔پینو کی ماں نے آنکھیں بند کیں اس کے چہرے
کے دونوں طرف آنسوؤں کی لکیر تھی اور یہ آنسو شکرانے کے تھے ،اس کی بیٹی
کا فیصلہ ہوگیا تھا ۔انصاف اللہ نے کردیا ،انسان نے تو اس کی بیٹی کے قاتل
کو عذت اور وقار کے ساتھ چھوڑا تھا جبکہ اس کے رب نے پینو کے قاتل کو سرعام
عبرت کا نشان بنا دیا ۔اس کے ان کانوں کو جس نے پینو کی فریاد نہ سنی تھی
اس کی آواز سے ہی پھاڑ دیا تھا ،وہی رمضان جو کل تک اپنے دماغ کی طاقت کے
زعم میں تھا مفلوج کردیا ،وہی ہاتھ جو معصوموں کے قتل کے لئیے اٹھتے تھے
آج اس کے اپنے ہاتھوں نے ہی اس سے اس کی روح کو الگ کیا تھا ۔رمضان نے ان
آوازوں سے تنگ آکر خودکشی کر لی تھی ۔اس سے بڑی سزا اور کیا ہوگی ۔یہی
رمضان تھا جو معصوم لڑکیوں کو کالی کرنے کے بعد ان کی نماز جنازہ پڑھانے
نہیں دیتا تھا اور آج اس کے جسم سے اٹھنے والی بدبو اور جسم میں رینگنے
والے کیڑوں کی وجہ سے نہ تو اس کو غسل دیا جاسکتا تھا اور نہ ہی اس کا نماز
جنازہ پڑھایا جاسکتا تھا بلکہ قبرستان سے تھوڑا دور ایک گڑھا کھود کر اس کی
لاش کو دبا دیا گیا ۔یہ انجام ہوا رمضان خان کا ۔سائیں،رب نواز ،منظور اور
دوسرے عذت داروں کے دل بھی اپنے انجام کو دیکھ کر کانپ رہے تھے ۔ |