یہ شعبان کا مہینہ ہے ۔مہینوں سے متعلق اﷲ
تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :مہینوں کی گنتی اﷲ کے نزدیک کتاب اﷲ میں بارہ کی
ہے ، اسی دن سے جب سے آسمان وزمین کو اس نے پیدا کیا ہے ان میں سے چار حرمت
وادب کے ہیں ۔(سورۃ توبہ ) شعبان المعظم کا یوں تو پورا مہینہ ہی عبادت
وریاضت کا مہینہ ہے لیکن اس کی پندرھویں شب کو ایک خاص خصوصیت حاصل ہے ۔
علما کے ایک طبقے کے مطابق سورۃ دخان میں ’’لیلۃ مبارکۃ‘‘ سے بھی یہی رات
مراد ہے ۔ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں :ترجمہ:تحقیق ہم نے وہ کتاب بابرکت رات میں
اتاری ہے ، بے شک ہم لوگوں کو ڈرائیں گے اسی رات میں تمام باحکمت امور کی
تفصیل کی جاتی ہے ۔اس رات کو عرف عام میں ’’شب برات‘‘ کہا جاتا ہے ، جس کی
وجہ یہ ہے کہ برات کا معنی ہے :دور ہونا ، جدا ہونا ، نجات پانا وغیرہ۔ اور
اس رات اﷲ تعالیٰ کے نیک بندے آخرت کی رسوائی وذلت سے دور کر دیئے جاتے ہیں
اور بدبخت لوگ (یعنی جو اس رات کو اپنے گناہوں سے توبہ نہیں کرتے ) اﷲ
تعالیٰ کی رحمتوں اور مغفرتوں سے دور رکھے جاتے ہیں ۔(غنیۃ الطالبین )
لیکن شب برات میں اﷲ تعالیٰ کی جانب سے رحمت ومغفرت کی اس قدر برسات کے
باوجود کچھ بد نصیبوں کی توبہ کے بغیر مغفرت نہیں ہوتی، چنانچہ
’’مسندالبزار‘‘ میں سیدنا ابوبکر صدیقؓ سے اور ’’سنن ابن ماجہ‘‘ میں حضرت
ابوسعید خدری رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ؐنے فرمایا:’’اﷲ تعالیٰ
شعبان کی پندرھویں رات تجلی فرماتا ہے اور تمام مخلوقات کو بخش دیتا ہے ،
ماسوائے شرک ، کینہ رکھنے والے ،اسلام میں نئے فرقے بنانے والے اور چغل خور
کے ‘‘۔دیگر روایات میں ان لوگوں کے علاوہ کچھ اور گنہگاروں کا بھی ذکر آیا
ہے جو مندرجہ ذیل ہیں ۔والدین کا نافرمان، شرابی ،سودخور، تکبر سے تہبند
ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا ، رشتہ داروں سے بد سلوکی کرنے والا ، قاتل ،
زانی ، نجومی ، عشار (جو محکمہ ٹیکس میں ہو اور لوگوں پر ظلم کرتا ہو)،
میوزک، سارنگی طبلہ اور ڈھول بچانے والا (یعنی گانے بجانے والا )ہمسائے کے
ساتھ بدسلوکی کرنے والا ، جادوگر ،اور شرطہ (یعنی رشوت خور ظالم سپاہی ۔)اس
رات کو شب برات باور کرکے مختلف قسم کی مخصوس عبادات بجالانا صلوٰۃ العمری،
صلوٰۃ الالفیہ ، صلوٰۃ الغوثیہ وغیرہ نامی نمازیں پڑھنا اور مروجہ دوسری
باتیں ، جو آج ہر طرف دیکھنے میں آتی ہیں ،ثابت نہیں ۔ اس رسوم وبدعات کے
اژدھام کا سبب کچھ تو عقیدے کی خرابی ، عمل کا بگاڑ، رسم ورواج کی پابندی
وغیرہ کو بڑے خوش اسلوبی سے دور کیا جاسکتا ہے ، جبکہ اہل بصیرت اس کی
حقیقت کو سمجھ سکتے ہیں کہ صرف ایک رات عبادت کرکے اپنی خطاؤں کا معاف
کرالینا اتنا ہی آسان ہے تو پھر روزانہ دعائے سحر گاہی کیلئے نرم وگرم بستر
کو خیر باد کہنے کی کیا ضرورت؟
پھر یہ بھی سوچنے کا مقام ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانے میں
بھی شب برات آئی ، صحابہ کرامؓ کا زمانہ بھی گزر گیا ، تابعین ؒ وائمہ
اربعہ ؒ کا زمانہ بھی گزر گیا لیکن کسی سے بھی شب برات کا حلوہ، آتش بازی،
مردوں کی فاتحہ خوانی وغیرہ ثابت نہیں ۔ لہٰذ امسلمانوں کو اس قسم کی تمام
بدعات سے اجتناب کرتے ہوئے سنت صحیحہ کو مشعل راہ بنانا چاہیے ۔ جو راہ
نجات ہے ۔ اﷲ تعالیٰ بدعات سے محفوظ فرمائیں ۔آمین ہندوستان کے عظیم محقق
عالم دین حضرت علامہ عبدالحئی لکھنوئی ؒ آثار مرفوعہ میں فرماتے ہیں :ان
تمام احادیث قولیہ وفعلیہ سے معلوم ہوا کہ اس رات عبادت زیادہ کرنا مستحب
ہے لیکن لوگوں کو نماز اور غیر نماز میں فرق رہے جو چاہیں عبادت کریں لیکن
اس رات عبادت مخصوصیہ کیفیت مخصوصہ کے ساتھ اس کاکوئی ثبوت نہیں ۔ مطلق
نماز نفلی شب برات اور اس کے علاوہ راتوں میں جائز ہے ۔ اس میں کوئی اختلاف
نہیں ۔ان دلائل سے واضح ہوا کہ شب برا ت کا ذکر نہ قرآن مجید میں ہے اور نہ
احادیث صحیحہ میں ہے ۔زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر کوئی شخص
انفرادی طور پر اس رات ذکر وعباد ت میں مشغول ہوتا ہے کہ اس کے عقائد کی
تطہیر اور اخلاقی رفعت کا باعث بنے اور کسی خاص عبادت کا التزام نہیں
کرتاتو کوئی حرج نہیں ۔یو ں تو اس رات کی فضیلت اور اس میں مخصوص عبادات
واعمال کے سلسلے میں متعدد روایات کتب حدیث میں موجود ہیں ، جن میں سے بعض
کسی درجے میں قابل استناد ہیں ،ہم اکابر علماء ومشائخ کے معمولات کی روشنی
میں انتہائی حزم واحتیاط کے ساتھ اس رات میں جن کاموں کی گنجائش ہے انہیں
اس وضاحت کے ساتھ بیان کرنا چاہتے ہیں کہ ان کاموں میں سراسر بھلائی ہے ،
اگر کوئی کچھ کرنا چاہے تو یہ کام کرسکتا ہے ، ان کاموں کی اس رات کے ساتھ
کوئی تخصیص بھی نہیں ۔ بلکہ سال بھر کیے جاسکتے ہیں ۔٭……فقہائے اسلام کا
اجماع ہے کہ پندرہویں شعبان کا روزہ اور شب بیداری استحباب کے درجے میں
ہے۔٭……اس رات قبرستان جانا سنت نبویؐ ہے ۔تاہم قبرستان جانا صرف مردوں
کیلئے اور انفرادی طور پر ہے ۔ آج کل جو اجتماعی شکل میں قبرستان جانا
،وہاں میلے کا سماں برپا کرنا نیز مردوزن کا اجتماع حدیث کے خلاف اور متعدد
کبائر کا مجموعہ ہونے کی وجہ سے قطعاً جائز نہیں ۔٭……بعض روایات کے مطابق
چونکہ شب برات کو سال بھر کے اعمال اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کیے جاتے
ہیں ، لہٰذا شب برات کو والدین ، بھائیوں ، بہنوں ، رشتہ داروں ، ہمسایوں
اور دیگر لوگوں سے اپنی زیادتیوں کی معافی مانگ لینی چاہیے ، اور اگر کسی
کا کوئی حق ذمے میں باقی ہوتو اس کی ادائیگی کردینی چاہیے یا پھر صاحب حق
سے معافی مانگ لینی چاہیے ۔٭……اسی طرح اس شب میں رب غفور الرحیم سے اپنے
تمام گناہوں کی معافی مانگ لینی چاہیے ، یاد رہے کہ توبہ کیلئے چار چیزیں
ضروری ہیں ، جن کا اہتمام والتزام کرکے ہی بارگاہ رب العزت سے معافی اور
آئندہ کیلئے گناہوں کو چھوڑنے کی توفیق مل سکتی ہے ۔(۱)رب کریم کی بارگاہ
میں گناہوں کااعتراف (۲) گذشتہ گناہوں پر سخت ندامت اور آہ وزاری (۳) آئندہ
گناہ نہ کرنے کا پختہ اور سچا وعدہ (۴) گناہ کی تلافی ۔ مثلاً نمازیں نہیں
پڑھیں تو حساب یا اندازے سے بالغ ہونے کے بعد کی تمام فرض اور واجب نمازوں
کی قضا ،اسی طرح رمضان کے روزوں کی قضا، اسی طرح جتنے برس کی زکوٰۃ ادا
نہیں کی ،حساب یا اندازے سے اس کی ادائیگی ۔٭……بعض روایات کے مطابق چونکہ
یہ رات حکم وقضا کی رات ہے ، اﷲ تعالیٰ فرشتوں کو سال بھر کا پروگرام دے
دیتے ہیں ،اس میں موت وحیات ، اعمال نیک وبد، ہر قسم کے رزق او رانعامات ،
مصائب وآلام اور بیماریوں کا پروگرام بھی دیا جاتا ہے ، لہٰذا اس شب کو اﷲ
تعالیٰ سے دنیا وآخرت کے خیر وبرکت کی دعائیں مانگنی چاہییں۔یہ عمل مختلف
گناہوں کا بھی باعث ہے ، اول تو یہ کہ آتش بازی کھلا اسراف وفضول خرچی ہے ،
اور ارشاد باری تعالیٰ ہے :ترجمہ: ’’بیشک بغیر کسی غرض کے پیسہ ضائع کرنے
والے شیطان کے بھائی ہیں ۔ دوسرے یہ کہ آتش بازی سے عبادت گزاروں کی عبادت
،علماء وطلبہ کی تعلیم وتعلم ، بیماروں ،بوڑھوں اور تھکے ماندے لوگوں کے
آرام ونیند میں خلل پڑتا ہے ،جوکہ ظلم وزیادتی ،عبادات کی سخت توہین اور
علم کا نقصان ہے ۔ تیسرے یہ کہ آتش بازی سے بسا اوقات دوکانوں ، گھروں اور
درجنوں لوگوں کی جانیں ضائع ہوجاتی ہیں لہٰذا آتش بازی سخت ’’فساد فی
الارض‘‘ ہے ۔ نیز آتش بازی کے بہانے بچے شب بھر گھروں سیباہر رہتے ہیں جس
کی وجہ سے ان کے غلط ماحول اور غلط سوسائٹی سے متاثر ہونے اور جرائم اور
کبیرہ گناہوں کا عادی بن جانے کا قوی اندیشہ ہے ۔لہٰذا ان وجوہات کے پیش
نظر آتش بازی سخت خطرناک اور حرام فعل ہے جس سے اپنی نئی نسل کو بچاناہم سب
کا فریضہ ہے ۔ پھر یہ بھی انتہائی افسوسناک قابل مذمت اور غیر اخلاقی
وغیرشر عی امر ہے کہ بجائے عبادت کے اس مقدس وبابرکت شب کومحض آتش بازی اور
پٹاخوں کی گھن گرج کی نذرکردیا جاتا ہے ۔اس ضمن میں متعلقہ اداروں سے
استدعا ہے کہ شادی اور دیگر تقریبات کے موقع پر آتش بازی ،پٹاخوں اور
دھماکہ خیز اشیاء کے استعمال پر پابندی کے قانون پر سختی سے عمل درآمد
کرائیں اور خلاف ورزی کرنے والوں کو قرار واقعی سزاد یں تاکہ اس غیر شرعی ،
غیر اخلاقی اور سراسر نقصان دہ رسم کی بیخ کنی کی جاسکے ۔اس کے علاوہ متعدد
احادیث اس مضمون کی وارد ہیں کہ پندرہویں شعبان کی شب میں اﷲ تعالیٰ اپنے
بندوں کی جانب متوجہ ہوکر مسلمان مردوعورت کی مغفرت کرتا ہے ، کافروں کی
دعائیں قبول کرنے میں تاخیر کرتا ہے ، اور کینہ رکھنے والوں کی ان کی کینہ
پروری کے سبب مہلت دیتا ہے تاکہ کینہ پروری ترک کریں پھر دعا کریں (بیہقی )
اسی حوالہ سے امام شافعیؒ کا بیان ہے کہ پانچ راتین ایسی ہیں کہ جن میں دعا
قبول ہوتی ہے (1)……جمعہ کی رات ۔(2)……عیدین کی رات(3)……یکم رجب کی رات
(4)……لیلۃ القدر کی رات (5)……پندرہویں شعبان کی رات ۔اس لیے اس شب میں
دعاؤں کا خصوصی اہتمام ہونا چاہیے ،دعاؤں سے تو اﷲ تعالیٰ خوش بھی ہوتے ہیں
اور اس کی رحمت بھی متوجہ ہوتی ہے ،اس کے ساتھ استغفار کے عمل کو بھی
حرزجان بنائیں ، جیسا کہ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے :ترجمہ:’’تم اﷲ سے معافی
کیوں نہیں مانگتے تاکہ تم پر رحم کیا جائے ‘‘جیسا کہ ملکی حالات پریشان کن
ہیں اس کا علاج اﷲ تعالیٰ نے خود ارشاد فرمایا کہ تم بکثرت استغفار کرو
تاکہ تم پر رحمت کی جائے ، لہٰذا اس بابرکت رات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے
اکابرین کے کچھ معمولات نقل کئے جاتے ہیں ،قارئین سے درخواست ہے کہ اس
بابرکت رات میں پاکستان اور امت مسلمہ کے موجودہ حالات اور اس پریشان کن
صورتحال پر درج ذیل دعاؤں اور مختصر وظائف کی پابندی کریں ۔(1)اللھم انا
نجعلک فی نحورھم ونعوذبک من شرورھم ترجمہ:اے اﷲ ہم تجھے ان دشمنوں کے
مقابلے میں تصرف کرنے والا بناتے ہیں اور ان کے شروروفتن سے تیری پناہ
چاہتے ہیں ۔(2)اللھم استرعوراتنا واٰمن روعاتنا ترجمہ:اے اﷲ ہماری پردہ
داری فرمااور ہماری گھبراہٹ کو بے خوفی واطمینان سے بدل دے ۔(3)یاحیی
یاقیوم برحمتک استغیثترجمہ:یاحیی یا قیوم !ہم تیری رحمت سے مدد چاہتے ہیں
۔اور اس کے ساتھ ساتھ عارف ربانی حضرت شیخ مجدد الف ثانیؒ نے ناگہانی آفات
وبلیات اور پریشان کن حالات سے رہائی اور چھٹکارہ حاصل کرنے کیلئے ایک
زوداثر (جلدی کامیابی حاصل کرنے والا )مختصر اور مجرب درود بتلایا ہے ،وہ
یہ ہے :پہلے باوضو قبلہ رو بیٹھ کر ایک سومرتبہ درود شریف پڑھے پھر صرف
لاحول ولا قوۃ الا باﷲ کو پانچ سو مرتبہ پڑھیں پھرایک سو مرتبہ درود شریف
پڑھیں ۔
بہر حال حقیقت یہ ہے کہ اس رات کی فضیلت کو بے اصل کہنا غلط ہے ، کیونکہ دس
سے زیادہ صحابہ کرامؓ سے اس رات کی برکات بیان ہوئیں ، اگرچہ روایات میں
ضعف ہے لیکن اتنی تعداد صحابہؓ سے روایت ضعف کو دور کردیتی ہے ۔ اصل میں اﷲ
تعالیٰ نے یہ شب برأت رمضان المبارک سے دوہفتے پہلے رکھی ہے۔ یہ در حقیقت
رمضان المبارک کا استقبال ہے ، رمضان کی تیاری کرائی جارہی ہے کہ تیار
ہوجاؤ اب وہ مقدس مہینہ آنے والا ہے جس میں ہماری رحمتوں کی بارش برسنے
والی ہے جس میں ہم مغفرت کے دروازے کھولنے والے ہیں جب آدمی کسی بڑے دربار
میں جاتا ہے تو جانے سے پہلے اپنے آپ کو پاک صاف کرتا ہے کپڑے وغیرہ بدلتا
ہے لہٰذا اﷲ تعالیٰ کا عظیم دربار رمضان کی صورت میں کھلنے والا ہے تو اس
دربار میں حاضری سے پہلے ایک رات دے دی ، ہم تمہیں اس رات کے اندر نہلا
دھلا کر پاک صاف کردیں ، گناہوں سے پاک صاف کریں تاکہ ہمارے ساتھ تمہارا
تعلق صحیح معنی میں قائم ہوجائے اس غرض کیلئے اﷲ تعالیٰ نے ہمیں یہ رات عطا
فرمائی اس لئے ہم کو اس رات کی قدر پہچاننی چاہیے اﷲ تعالیٰ ہمیں اس مبارک
رات کی قدر کرنے اور اس رات میں عبادت کرنے کی توفیق عطا فرمائے ،آمین ۔
|