میں لندن کے مشہور اخبار ’’ سنڈے ٹائمز
‘‘ کے لئے بطورِ رپورٹر کام کر رہی تھی،اس وقت افغانستان میں طالبان کی
حکومت تھی ، امریکہ اور برطانیہ کو طالبان کی حکومت ایک آنکھ نہیں بھا رہی
تھی ۔ مجھے افغانستان جانے اور رپورٹ بنانے کے لئے چنا گیا پاکستان پہنچی ،
ایک افغانی کو رقم دے کر جعلی شناختی کارڈ بنوایا ، یوں اس افغانی کی مدد
سے پاکستان سے افغانستان پہنچی۔وہ مجھے ایک گاؤں میں لے کر گئے ، اگلے روز
ایک شخص نے ( جو رقم کے بدلے میرے گائیڈ کے طور پر کام کر رہا تھا) مجھے
اگلے پڑاؤ پر جانے کے لئے پیدل روانہ کیا ،کچھ فاصلے تک ہم دونوں پیدل چلتے
رہے ،میں اندر سے کچھ خوفزدہ بھی تھی ۔پھر مجھے ایک خچر پر سوار ہونے کے
لئے کہا گیا کیونکہ راستہ پہاڑی اور دشوار تھا ۔اگر چہ خچر پر سفر کرنا
میرے لئے ایک عجیب تجربہ تھا مگر اس کے سوا کوئی چارہ بھی تو نہیں تھا ،مگر
جوں ہی میں خچر پر سوار ہوئی وہاں ایک مسلح شخص نے میرے گلے میں کیمرہ دیکھ
کے خچر سے اترنے کو کہا ،میں اتری اور اس نے مجھ سے کیمرہ لے لیا ، اتنے
میں کچھ اور مسلح نوجوان (سب کی داڑھیاں بھی تھیں ) انہوں نے مجھے گھیر
لیا، اگر چہ مجھے کسی نے ہاتھ تک نہیں لگایا مگر مجھے
یہ لگاکہ میں دنیا کے خطرناک ترین اور ظالم لوگوں میں پھنس گئی ہوں ۔انہوں
نے مجھے اپنے پیچھے پیچھے آنے کو کہا ،کچھ دیر کے بعد ہم ایک ایسی جگہ
پہنچے جہاں کافی سارے پتھر پڑے تھے،میں نے سوچا ،اب وہ یہاں مجھے سنگسار
کریں گے ،مجھے ان کی باتوں کی بھی سمجھ نہیں آرہی تھی مگر تھوڑی دیر کے بعد
ایک شخص ایک عورت کے ساتھ چلا آرہا تھا ،اس عورت نے میری جامہ تلاشی لے
۔تلاشی کے دوران میں ج نے جب اپنے کپڑے اوپر اٹھائے تو وہاں موجود افراد نے
منہ دوسری طرف پھیر لئے ۔میں حیران رہ گئی کہ یہ جاہل اور ظالم فوجی بھی اس
بات کا خیال رکھتے ہیں کہ عورت کی تلاشی ،عورت ہی کو لینی چاہئے اور غیر
عورت کی ننگی جسم کو دیکھنا بھی گوارہ نہیں کرتے ،جبکہ ہمارے ہاں مغرب میں
مرد عورتوں کی نہ صرف تلاشی لیتے ہیں بلکہ ان کی بھوکی نظریں عورتوں کے جسم
کو حریصانہ نظروں سے بھی دیکھتے ہیں۔۔
گرفتاری کے بعد میں نے سیٹلائٹ فون کا مطالبہ کیا تاکہ میں اپنے دفتر اور
گھر کو اپنی گرفتاری کی اطلاع دے دوں ۔مگر انہوں نے مجھے سیٹلائٹ فون دینے
سے صاف انکار کر دیا ۔میں گھبرائی ہو ئی تھی ۔نتیجتا میں نے بھوک ہڑتال کر
دی ،وہ لوگ میرے بھوک ہڑتال سے پریشان ہو گئے اور مجھے بھوک ہڑتال ختم کرنے
پر قائل کرنے کی بے حد کوشش کی مگر میں نہ مانی ۔پھر ایک بزرگ میرے پاس آئے
اور انگریزی میں مجھے بھوک ہڑتال ختم کرنے کی درخواست کی ،لیکن جب میں اپنی
ضد پر اڑی رہی تو وہ رونے لگے ۔یہ دیکھ کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ
دنیا میں جن لوگوں کو دنیا کی جاہل ترین اور ظالم لوگ سمجھا جاتا ہے وہ
اتنے مہذب اور رحم دل بھی ہو سکتے ہیں !!!
اگلے دن ایک شخص(جو انگریزی جانتا تھا) نے مجھے بتایا کہ ایک بڑی شخصیت ان
سے ملنے آرہی ہے ،کوئی بد تمیزی نہیں کرنی ،مہذب انداز میں اس سے گفتگو
کرنی ہے ۔ تھوڑی دیر کے بعد دروازے پر دستک ہوئی (واضح رہے کہ چابی مجھے دے
دی گئی تھی اور دروازہ کھولنے کا اختیار مجھے ہی دیا گیا تھا ) میں نے
دروازہ کھولا ، تو ایک لمبی داڑھی والا طویل القامت شخص،چغہ پہنے ہوئے اند
داخل ہوا ،میرا حال احوال پوچھنے کے بعد سوال کیا کہ’’تم اسلام کے بارے میں
کچھ جانتی ہو ؟ میں نے مصلحتاکہا ’’ اسلام اچھا ،امن اور سلامتی کا مذہب ہے
‘‘ اس نے کہا، پھر تم اسلام قبول کیوں نہیں کرتے ‘‘ میں نے پھر مصلحت کے
تحت کہا کہ اگر مجھے رہا کر دو تو میں وعدہ کرتی ہوں کہ مذہبِ اسلام اور
قرآن کا مطالعہ کروں گی ۔اس شخص نے کہا کہ تم فکر نہ کرو انشا اﷲ تم بہت
جلد اپنے گھر چلی جا وگی ۔اگلی صبح کچھ فوجی آئے ،جب مجھے لے کر چلنے لگے
تو میں نے سوچا،شاید مجھے رہا کیا جارہا ہے مگر وہ مجھے خواتین کے قید خانے
میں لے گئے ،جہاں اور بھی کئی خواتین قید تھیں وہاں مردبہت کم آتے تھے
البتہ پہرے دار مرد تھے، ایک دن جب میں نے اپنا انڈر وئیر دھو کر سکھانے کے
لئے قید خانے کے ایک حصہ میں لٹکا دیا تو ایک افسر نے مجھے انڈر وئیر وہاں
سے ہٹانے کو کہا، میں نے انکار کر دیا ،انہوں نے اس کے اوپر ایک کپڑا ڈال
دیا ، میں نے کہا ’’تمھارا دماغ خراب ہو گیا ہے اگر اس کے اوپر کپڑا ہوگا
تو یہ خشک کیسے ہو گا ؟ کچھ دیر بعد ایک اور شخص میرے پاس آیا اور اپنا
تعارف کراتے ہو ئے کہا کہ کہ میں نائب وزیر خارجہ ہوں، اپ مہربانی کرکے
اپنا زیرِ جامہ ہٹا دیں کیونکہ یہاں ہمارے پہرے دار ہو تے ہیں اس کی وجہ سے
انہیں فاسد خیالات آسکتے ہیں ‘‘ یہ سن کر میں سوچتی رہی کہ یا خدا ! یہ
کیسے لوگ ہیں ،ایک نائب وزیر خارجہ مجھ سے صرف اس لئے انڈر وئیر ہٹانے آیا
ہے کہ انکے پہرے داروں میں فاصد خیالات نہ آجائیں ۔ دوسرے روز مجھے وہ
پاکستان چھوڑ آئے ۔ یوں میں ان کے قید سے آزاد ہوئی مگر ان کے سلوک نے مجھے
اتنا متاثر کیا تھا کہ میں نے قرآن اور اسلام کا مطالعہ شروع کیا اور میں
اس نتیجے پر پہنچی کہ اسلام سے بہتر کوئی مذہب نہیں، اسلام نے جتنے حقوق ور
احترام عورت کو دئیے ہیں، اور کسی مذہب نے نہیں دئیے۔بالآخر میں نے کلمہ
شہادت پڑھ کر اسلام قبول کر لیا ۔
قارئین !! یہ کہنا تھا برطانیہ کے ایک بہت پڑھی لکھی عیسائی خاتون ایوان
ریڈلی کا ،جو ملا عمر کے زمانے میں افغانستان گئی تھیں اور دس دن کی قید نے
اس کی زندگی بدل ڈالی ۔آجکل وہ اسلام اور امتِ مسلمہ کے مسائل اجاگر کرنے
کے لئے قلمی جہاد میں مصروف ہے۔ یہ واقعہ اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ ہمارے
نیک اعمال کسی کو بھی راہِ راست پر لانے کے لئے مشعلِ راہ ثابت ہو سکتے ہیں
۔۔۔
|